لاو زو کون تھے؟


لاو زو کی حیرت انگیز تعلیمات کیا ہیں؟

ہم سب کی آج کی تحریر چین کے عظیم صوفی، درویش، مرشداور فلاسفر لاو زو کے بارے میں ہے۔ یہ درویش چین میں کب پیدا ہوا اور کس زمانے میں یہ دنیا سے چلا گیا اس بارے میں مصدقہ طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔ دنیا کے ذہین ترین صوفی فلاسفر لاو زو کے صوفیانہ خیالات کو چین میں تاوزم یا داوازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج کی تحریر انسان کی زندگی کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی ہے اس لئے آج کی تحریر کو اختتام تک پڑھیں۔

کچھ تاریخ دانوں کے مطابق لاو زو چوتھی سنچری سے چھٹی سنچری کے اندرپیدا ہوئے اور اسی عرصے میں ان کا انتقال ہو گیا۔ یعنی آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے لاو زو پیدا ہوئے تھے۔ دنیا کے دو عظیم فلاسفر اور صوفی بدھا اور کنفیوشش لاوزو کے شاگرد تھے۔ بدھا اور کنفیوشش سے ہٹ کر لاو زو نے فلسفے اور صوفی ازم کا نیا نظام ترتیب دیا تھا۔ تاوازم میں تاو کا مطلب ہوتا ہے سچائی کاراستہ۔ فطرت کا راستہ۔ یہ راستہ کہ فطرت کا نظام کیا ہے، کیوں ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟

اپنے اندر جھانکنے کا راستہ کیا ہے؟ اور انسان کیسے اپنے اندر کی دنیا کو سمجھ سکتا ہے؟ زندگی کیا ہے؟ اور زندگی کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ چینی تاریخ دانوں کے مطابق لاو زو چین میں ایک شاہی دربار میں ملازم تھے۔ شاہی دربار سے تنگ آ گئے اور دربار کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ شاہی دربار چھوڑ رہے تھے تو ایک شخص نے کہا جناب آپ سب کچھ چھوڑ کر تو جا رہے ہیں یہ بتائیں آپ کے جانے کے بعد ہمارا کیا ہوگا؟

آپ جیسے مرشد کی تعلیم سے ہم اور دنیا محروم ہو جائیں گے۔ بس آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنی زندگی میں تمام تعلیمات کو لکھ کر جائیں تاکہ آپ کے جانے کے بعد بھی دنیا آپ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاتی رہے۔ اس کے بعد لاو زو نے اپنا سارا فلسفہ لکھ دیا۔ اسی فلسفے کو تاوازم کہا جاتا ہے۔ تاوازم میں فطرت پر بہت فوکس کیا گیا ہے۔ تاوازم میں تین اہم ترین ویلیوز ہیں۔ داوازم یا تاوازم میں سب سے پہلی اور اہم چیز compassion یعنی ہمدریدی یا رحم دلی ہے۔

دوسری اہم ترین ویلیو عاجزی یعنی humility اور تیسری ویلیو frugality یعنی کفایت شعاری ہے۔ تاوازم کے مکمل فلسفے یا صوفی تھاٹ میں یہ تینوں ویلیوز ملتی ہیں اور ان تینوں چیزوں کو نیچر کنٹرول کرتی ہے۔ کہنے کا مطلب ہے زندگی کو سمجھنے کے لئے انسان کو سب سے پہلے فطرت کو سمجھنا ہوگا۔ اب نیچر کو انسان سمجھنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے اندر جھانکنا ہوگا۔ لاو زو کہتا ہے ویسے زندگی گزارو جیسے پانی بہتا چلا جاتا ہے۔

ویسے ہی انسان کی زندگی ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ کام کیے جاو اور پھل کی ٹینشن مت لو۔ وہ کہتا ہے پانی کی طرح جیو جیسے پانی کائنات کو زندگی سے نوازتا جاتا ہے انسانو تم بھی ایسا کرتے جاو۔ پانی کائنات کی زندگی ہے لیکن یہ پانی بدلے میں کچھ بھی نہیں مانتا۔ انسان کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ قدیم زمانے میں تاوازم کو بھگوان مانا جاتا تھا۔ تاوازم بنیادی طور پر یہ ہے کہ انسان اگر اپنے اندر جھانکے تو اسے سب کچھ مل جاتا ہے۔

لاو زو کہتا ہے کہ حقیقی اصلی اور سچا طریقہ زندگی گزارنے کا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو سمجھے۔ جس دن وہ خود کو سمجھ جائے گا اسی دن پوری کائنات اس کی سمجھ میں آ جائے گی۔ یہی حقیقی نالج اور وزڈم ہے۔ according to lao Tzu knowing yourself is true wisdom۔ وہ کہتا ہے دوسروں پر حکومت کرنا حقیقی طاقت نہیں ہے۔ اپنے آپ پر حکومت کرنا اصلی اور سچی طاقت ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی آپ کو ٹینشن دے رہا ہے پریشان کر رہا ہے تو پیچھے ہٹ جاو۔

انا کو چھوڑ دو۔ وہ کہتا ہے مادی چیزوں کے لئے دوسروں کے لئے ٹینشن مت لو۔ کوئی چیز نہیں مل رہی، کوئی خواہش پوری نہیں ہورہی، کوئی آپ کو پریشان کر رہا ہے تو پیچھے ہٹ جاو اس سے تم مکمل مطمن ہو جاو گے۔ لاوزو کے مطابق زندگی سے اہم اور قیمتی چیز کوئی نہیں۔ وہ کہتے ہیں پانی دنیا کو زندگی دیتا ہے، خاموش ہے لیکن طاقت ور ہے کسی پر اس کا انحصار نہیں سب پانی پر انحصار کرتے ہیں اس لئے پانی کی طرح ہو جاو۔ پانی ہو جاو گے تو حقیقی طاقت ور ہو جاو گے۔

وہ کہتا ہے زندگی میں ٹینشن مت لو، جلد بازی مت کرو، ہر چیز مل جائے گی اپنے وقت پر اس لئے زندگی پر فوکس کرو۔ وہ کہتا ہے اپنے آپ میں stillness لاو اور مکمل طور پر ہر چیز سے اپنے آپ کو خالی کردو۔ وہ کہتا ہے انسان کے اندر جو بھی گندگی ہے جو بھی پیچیدہ خیالات اور سوچیں یا نظریات ہیں ان سب کو باہر پھینک دو اس طرح تم ہلکے پھلکے اور سکھی ہو سکتے ہو۔ لاوزو کہتا ہے کہ آپ کسی چیز کے پیچھے پڑیں ہیں وہ آپ کو نہیں مل رہی آپ پریشان ہو رہے ہیں تو اس چیز کو چھوڑ دو۔

وہ کہتا ہے جب انسان کسی بہت بڑی خواہش کو چھوڑ دیتا ہے تو سب کچھ درست ہوجاتا ہے۔ جب انسان کسی بڑی خواہش کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ ایک ہی لمحے ہزاروں فضول سوچوں اور خیالات سے نجات پاجاتا ہے جس سے زندگی خوبصورت اور دلکش ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد انسان حقیقت میں جو ہے اس سچائی پر دھیان دینا شروع کردیتا ہے۔ وہ کہتا ہے جب انسان کسی بڑی خواہش سے نجات پاجاتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے وہ کیا ہے اور کیا ہو سکتا ہے۔

لاو زو کے مطابق ہمدردی یعنی compassion ہی انسان کی زندگی کی حقیقت ہے۔ ایک اچھا اور ہمدرد دل ہی کائنتات خدا اور اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے۔ لاو زو کے مطابق اچھے انسان بظاہر کمزور نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں اچھے لوگ ہی طاقت ور ہوتے ہیں اور ہمدردی ہی زندگی میں دلکشی لاتی ہے۔ وہ کہتا ہے برائی اور برے لوگوں پر فوکس کرنا ان کے بارے میں سوچتے رہنا اور پریشان رہنے کی وجہ سے ہی تباہی و بربادی ہے۔ ہمیشہ ہمدردی اور اچھائی کے پیچھے چلتے جاو۔

جیسے پانی بغیر سوچے بہہ جا رہا ہے ویسے ہی بہتے چلے جاو یہی زندگی ہے۔ جس طرح پانی کو کوئی متاثر نہیں کر سکتا ہے اسی طرح رہو گے تو تمہیں بھی کوئی متاثر نہیں کر سکتا ایسا کرنے سے انسان سچائی کے سفر پر رواں دواں رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کامیابی اہم نہیں زندگی اہم ہے۔ لاوزو کے مطابق برائی کا نام کامیابی نہیں ہوتا۔ فضول سوچیں، کامیابی اور نظریات اہم نہیں، انسان کی زندگی اہم ہے چیزیں اہم نہیں۔ کوئی آپ کے بارے میں کیا سوچتا ہے یہ اہم نہیں آپ اپنے آپ کو کیسے دیکھتے ہیں یہ اہم ہے۔

تاوزم میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ پراعتماد ہونا چاہتے ہیں تو ہمدرد ہو جایئے۔ ہمدردی انسانیت کو زندگی دیتی ہے جیسے پانی کائنات کے لئے ہمدرد ہے کیونکہ ہر چیز کو زندگی بخشتا ہے اور اسے پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ وہ کتنا ہمدرد ہے۔ کیا کبھی کسی نے پانی کو دیکھا ہے کہ وہ کسی سے بدلہ لے رہا ہوتا ہے؟ کیا اس کے دوست دشمن ہوتے ہیں وہ تو سب کو زندگی دیتا ہے انسان کو بھی پانی جیسا ہونا چاہیے۔ انسان کو پہاڑ جیسا ہونا چاہیے کیا آندھی طوفان کسی پہاڑ کو ہلا سکتے ہیں اسی طرح جب انسان ہمدرد ہو جائے گا اور اپنے آپ پر فوکس کرے گا تو اسے بھی کوئی نہیں ہلا سکتا۔

انسان کو پھولوں جیسا ہونا چاہیے جیسے انسان پھولوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے ویسے ہی انسان ایسا ہو کہ کوئی دوسرا انسان اسے دیکھ کر خوشہو جائے۔ تاو ازم میں ایک چیز کہی جاتی ہے کہ always go with the flow۔ انسان کو changes پر یقین رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ہمیشہ انسان کو اپنے کمفارٹ زون میں نہیں رہنا چاہیے۔ کمفارٹ زون میں رہنے والا انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ لاو زو نے ایک کتاب لکھی تھی اسی کتاب کی وجہ سے انہیں دنیا جانتی ہے اس کتاب کا نام ہے داو دا چنگ۔

اسی کتاب میں لاو زو ایک جگہ کہتا ہے care about what other people think and you will always be their prisoners اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر انسان کی خوشی کا انحصار کسی دوسرے پر ہے تو وہ ہمیشہ قیدی رہے گا۔ جب انسان یہ سوچے گا کہ دوسرا اس کے بارے میں کیا سوچے گا، ایسا کروں گا تو دنیا کیا کہے گی۔ یہ کروں گا تو سب اعترض کریں گے وہ کروں گا تو سب خوش ہوجائیں گے۔ ایسا کرنے سے انسان ہمیشہ قیدی رہے گا اور خوشی کی تلاش میں رہے گا اور کبھی اسے خوشی نہیں ملے گی۔

جب خوشی کا انحصار ہی دوسرے پر ہو تو انسان کیسے خوش رہ سکتا ہے اور کیسے حقیقی خوشی اسے مل سکتی ہے؟ انسان اپنی ساری زندگی دوسروں کی وجہ سے جیتا ہے اسی وجہ سے وہ ناخوش اور دکھی رہتا ہے۔ دنیا کا تو کام ہی ہی آپ کی دھجیاں اڑانا ہے اور دنیا یہ کام بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔ ہم انسان صبح سے رات تک یہی کام کر رہے ہیں جو کرتے ہیں جو سوچتے ایک قیدی کی طرح کہ دوسرا کیا کہے گا۔ دوسروں کے نظریے سے ہم زندگی گزارتے ہیں اسی وجہ سے بربادی ہے اور ہم انسان اپنے آپ سے ناواقف ہیں۔

پاکستان میں لاکھوں نہیں کروڑوں انسان ہیں جو گدھوں کی طرح اپنا ناپسندیدہ کام کیے جا رہے ہیں مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمالیں تاکہ دنیا واہ واہ کر اٹھے۔ کیا بہت پیسہ کمانے سے دنیا آپ سے خوش ہوجاتی ہے۔ کیا لوگ کیڑے نکالنا بند کردیتے ہیں؟ انسان کی آزادی کا انحسار خود اسی انسان پر ہونا چاہیے۔ جب انسان اپنی خوشی کے لئے کام کرتا ہے تو اس طرح سے وہ آزاد بھی ہوجاتا ہے اور ذمہ دار انسان بھی بن جاتا ہے۔

یاد رکھیں دنیا کا کام انسان کو قیدی بنانا ہے۔ لاو زو نے اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ silence is source of great strenght دنیا کو نہیں اپنے آپ کو سمجھنا چاہتے ہو تو خاموش ہو جاو یہی انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ خاموشی کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک باہر کی خاموشی یعنی آپ نے بولنا کم ہے اور سننا زیادہ ہے۔ کیونکہ جب انسان بہت کچھ سنتا ہے تو اس کے اندر انڈر سٹینڈنگ پیدا ہوتی ہے۔ صبح سے رات تک بولتے جاو گے تو سمجھو گے کیا؟

اپنی زبان پر کنٹرول بہترین خاموشی ہے۔ دوسری اندر کی خاموشی۔ ہم اپنے آپ سے اندر ہی اندر فضول بولتے رہتے ہیں۔ فضول سوچتے رہتے ہیں۔ اسی بولنے کا دوسرا نام سوچنا ہے۔ ہر وقت لاکھوں کروڑوں خیالات اور سوچیں ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ انسان کو یہ انڈر اسٹینڈنگ پیدا کرنی ہوگی کہ وہ اندر اور باہر کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔ یہ آرٹ جس دن انسان کو آ گیا اسی دن انسان قید سے آزاد ہو جائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جائے گا۔

ایسا کرنے سے ہی انسان طاقتور ہوتا ہے۔ اسی لئے خاموشی کو انسان کی سب سے بڑی طاقت کہا جاتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی پاور understanding ہے اور وہ انڈر اسٹینڈنگ انسان تب حاصل کرتا ہے جب وہ خاموش ہوجاتا ہے۔ جب اس میں شانتی ہوتی ہے جب وہ اندر کی دنیا میں پرسکون ہوتا ہے۔ ہم ہمیشہ اندر اور باہر بولتے اور سوچتے چلے جا رہے ہیں تو کیسے پرسکون ہوسکتے ہیں کیسے پانی جیسے بن سکتے ہیں۔ انسان کی ویک نیس کی وجہ بھی انڈر سٹینڈنگ ہے اور طاقت کی وجہ بھی انڈر سٹینڈنگ ہی ہے۔

ایک کام کر رہے ہیں بار بار ناکام ہو رہے ہیں اس کی وجہ غلط انڈر سٹینڈنگ ہے۔ ایک کام کیا کامیاب ہو گئے ا سکی وجہ درست انڈر سٹینڈنگ ہے۔ اسی لئے خاموشی ہی وہ آرٹ ہے جو انسان کو درست انڈر سٹینڈنگ کی طرف لے جاتی ہے۔ یاد رکھیں life is a game of understanding۔ لاو زو کی کتاب میں ایک جملہ ہے کہ the best fighter is never angry غصہ کو سمجھنے کے لئے یہ لائن بہت اہم ہے۔ یاد رکھیں انسان کو جب بھی غصہ آتا ہے تو اندر اور باہر کی دنیا سے خاموشی نکل جاتی ہے اور انسان اندر اور باہر سے شور شرابا کرنا شروع کردیتا ہے۔

غصے میں انسان پاگل ہوجاتا ہے۔ چیخنا چلانا اور مار کٹائی کرنا شروع کردیتا ہے۔ انسان غصے کا اظہار ہمیشہ کمزور کے سامنے کرتا ہے اسے گالیاں دیتا ہے اس پر چیختا ہے لیکن اگر اس کے سامنے کوئی طاقت ور ہوتو وہ باہر سے نہیں بلکہ من ہی من میں چیختا چلاتا ہے۔ دونوں معاملات میں ہی چیخنا چلانا ہے۔ یہ شور یہ غصہ انا کی وجہ سے ہے جتنی انا بڑی ہوگی شور شرابا زیادہ ہوگا جتنی انا کم ہوگی شور شرابا کم ہوگا تو معلوم ہوا کہ انا ہی غصے کو جنم دیتی ہے۔

اس لیے انسان کو انا کی understanding ہونی چاہیے۔ جب انسان میں سے نکل جاتا ہے پھر وہ آزاد بھی ہوجاتا ہے۔ کیا پانی میں میں ہے؟ کیا پہاڑ میں میں ہے؟ کیا پھولوں میں میں ہے؟ کیوں سوچیں۔ ہم دنیا کو میں کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اسی وجہ سے مسائل ہیں۔ میں کو ہٹائیں سچ خود بخود آپ کے سامنے ہوگا۔ خدا آپ کے سامنے ہوگا۔ کائنات آپ کی گود میں ہوگی۔ ہم انسانوں نے طرح طرح کے انا کے چشمے لگائے ہوئے ہیں اور personalities بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں انسان بننا ہے تو انا کے چشموں کو ہٹانا ہوگا۔ لاو زو کہتا ہے کہ

درست اور غلط، جائز اور ناجائز، حلال اور حرام، تو اور میں یہ سب کچھ حقیقتیں نہیں ہیں۔ یہ صرف آئیڈیاز ہیں کہ یہ درست ہے یہ غلط ہے، یہ محبت ہے اور یہ نفرت۔ اب سوال یہ کہ یہ آئیڈیاز کہاں ہوتے ہیں جس کا جواب یہ ہے کہ آئیڈیاز مائینڈ میں پرورش پاتے ہیں اور مائینڈ صرف opposites میں کام کرتا ہے بغیر opposites کے دماغ سوچ نہیں سکتا۔ جب آپ کہتے ہیں کہ دن ہے تو دماغ میں رات کا آئیڈیا ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ یہ آئیڈیا اس لئے آتا ہے کہ ہمیں رات کا experience ہے۔

دماغ میں بھی opposite کا کھیل چل رہا ہے تو ہم رات اور دن کو اسی آئیڈیا سے سمجھتے ہیں۔ سوچیں اگر ہم نے کبھی رات کو دیکھا ہی نہ ہوا ہو تو کیا ہم بتاسکتے ہیں کہ اندھیرا کیا ہوتا ہے اور روشنی کیا ہوتی ہے؟ جب ہم کہتے ہیں کہ وہ عظیم ہے وہ چھوٹا ہے وہ بڑا ہے وہ بہادر ہے وہ بزدل ہے تو حقیقت میں ہمارا دماغ بڑے چھوٹے بہادر بزدل کو opposite میں دیکھا رہا ہوتا ہے۔ امیر اور غریب کے بارے میں دماغ جو فرق پیدا کرتا ہے وہ کھیل سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یاد رکھیں دماغ ہمیشہ comparision میں operate کرتا ہے۔ مائینڈ کا صرف یہ مقصد ہے کہ چیزوں کو ناپنا یہ مہر لگانا کہ یہ درست ہے یہ غلط ہے یہ محبت ہے اور یہ نفرت ہے۔ یہ دن ہے اور یہ رات ہے۔ دماغ ہمیشہ سے یہ کام کرتا آیا ہے اور ہمیشہ یہ کام کرتا رہے گا۔ انسان دماغ کے اسی کھیل کی وجہ سے مسائل زدہ ہے۔ اب سوال یہ کہ کیسے انسان مائینڈ کے اس کھیل سے باہر نکلے۔ جب انسان دن اور رات، اچھائی اور برائی کی مقابلہ بازی اور تفریق سے نکل جاتا ہے تو پھر وہ لازوال ہوجاتا ہے۔

مائینڈ سے بہت اوپر ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم سب ایک ہیں اور جہاں ہم سب ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ دنیا نظریات میں زندگی گزارتی ہے اور تمام نظریات دماغ تخلیق کرتا ہے۔ ان تمام نظریات یا آئیڈیاز کا ایک ہی کھیل ہے کہ یہ درست وہ غلط، میرا مذہب درست تمہارا مذہب غلط، میرا خدا درست تمہارا خدا غلط۔ یہ سب کچھ انسان صدیوں سے کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس مائینڈ کے کھیل سے بہت دور ایک ایسی فیلڈ ہے جہاں خدا ہے جہاں میں اور توں نہیں بلکہ ہم ہیں۔

مائینڈ سے بہت دور وہ فیلڈ جہاں پر میں اور توں، غلط اور درست کا کھیل نہیں ہے وہی دنیا کی حقیقت ہے اور وہی ہی حقیقی سچ ہے جس سے ہم ناواقف ہیں۔ اس فیلڈ میں جانے کے لئے میں اور تم کے کھیل سے ناواقف ہونا ہوگا۔ اس فیلڈ میں انا نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ ایسی فیلڈ ہے جہاں انسان کی میں کھوجاتی ہے۔ سمندر میں لاکھوں لہریں ہیں کیا سمندر میں صرف وہاں لہریں ہیں، کیا کسی ندی میں صرف بلبلے ہیں کیا کسی دریا میں صرف لہریں ہیں۔

لہروں اور بلبوں کا نام دریا یا سمندر یا ندی نہیں۔ یہ بلبلے اور لہریں کچھ نہیں حقیقت میں تو سب کچھ پانی ہے۔ ہر لہر ہر بلبے کو یہ معلوم ہے کہ وہ حقیقت میں پانی ہے اسی وجہ سے پانی میں میں انا نہیں اسی وجہ سے یہ پانی سب کے لئے زندگی ہے۔ ہم انسان بھی حقیقت میں یہی پانی ہیں۔ امیر غریب، درست غلط چھوٹا بڑا یہ سب دھوکہ ہے۔ یہ سب مائینڈ کا کھیل ہے جس میں ہم سب پھنسے پڑے ہیں۔ جس نے یہ جان لیا کہ وہ پانی ہے وہی خدا کو پالیتا ہے وہی اپنے آپ کو جان لیتا ہے۔

ہم نے اپنے آپ کو بہت پھنے خان سمجھ رکھا ہے، دولت مند اور حسین سمجھ رکھا ہے، انا پرست سمجھ رکھا ہے۔ ہم ندی کے وہ بلبلے ہیں جو پانی سے بنے ہیں اور پانی کو نہیں جانتے وہ جو بلبلے ہیں اور جان چکے ہیں حقیقت میں وہ پانی ہیں وہی ہمیشگی اور ابدی زندگی انجوائے کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں جب انسان مائینڈ کے آئیڈیاز سے نجات پاجاتا ہے تو حقیقت میں وہی زندگی ہے وہی ہمیشگی ہے، وہی کائنات ہے۔ وہی انسان ہمیشگی کی زندگی کو experience کر سکتا ہے جو صرف پیار اور محبت اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہم سب انسانوں کو ایک دوسرے سے جڑنے کی یا محبت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ہم سب جڑے ہوئے ہیں ہم سب انسان محبت ہی محبت ہیں۔ ہم میں وہ توں اچھائی برائی محبت نفرت نہیں ہیں۔ دو لہروں یا دو بلبلوں کو ایک دوسرے سے جڑنے کی ضرورت نہیں ہے یہ پہلے ہی سے پانی سے جڑے پڑے ہیں۔ ہم انسان بھی اسی طرح جڑے ہوئے ہیں بس صرف اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انا اور میں جس دن ختم ہو جائے گی ہم سب جان جائیں گے کہ ہم تو ایک ہی ہیں۔

اس لئے محبت پیار کو experience کرنے کے لئے ہمیں انا اور میں سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ ہم انسان اس کائنات سے الگ ہیں ہی نہیں ہم ہی کائنات ہیں۔ بس ہمارے مائینڈ میں پڑے نظریات اور آئیڈیاز نے ہمیں ایک دوسرے سے الگ کر رکھا ہے۔ ہم جسمانی اور ذہنی سطح پر پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم سب نے مرنا ہے لیکن مرنے سے ڈرتے ہیں یہ پھنسنا ہے۔ ناکامی اور کامیابی دونوں عذاب ہیں۔ زندگی اور موت دونوں عذاب ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مائینڈ کام ہی ایسے کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔

مائینڈ کی مقابلہ بازی کی صلاحیت نے انسان کو برباد کر رکھا ہے۔ ہم ہوتے کہیں اور ہیں اور ہونا کھہیں اور چاہتے ہیں۔ یہ مائینڈ کا کھیل ہے اور اس کھیل سے ہمیں نکلنا ہے تب کہیں جاکر ہم زندگی کو محبت کو دیکھ سکتے ہیں۔ وہی انسان ہی زندگی انجوائے کرتے ہیں جو محبت اور پیار کی اصلیت سے واقف ہیں۔ میرا پیار تیرا پیار کچھ نہیں ہم پیار ہی ہیں۔ میرا تیرا اس کا اس کا یہ مائینڈ کا کھیل ہے۔ حقیقت میں ہم پانی ہیں نہ پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی مرتے ہیں۔

اس لئے دماغ کے سارے تنازعات کی جڑ انا ہے۔ تاؤام یا داؤازم کی تعلمیات میں مساوات کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ یہی نقطہ نظر فکری یکسانیت کو ملا تا ہے۔ لاو زوچھٹی صدی میں قدیم چینی تاوازم کے فلسفے کے روح رواں تھے۔ لاو زو نے داؤازم کے فلسفے کی بنیاد رکھی اور زندگی کی خوبصورتی کے فلسفے کو بیان کیا۔ ان کی تعلیمات نے فطرت اور انسانی فطری رواداری کے فلسفے کو اجاگر کیا۔ لاؤزہو ایک جگہ لکھتا ہے کہ زندگی فطری اور اچانک تبدیلوں کا تسلسل ہے، اس کے مد مقابل نہ بنیں۔ ایسا کرنے سے صرف رنج و غم ہی میں اضافہ ہو گا۔ لاوزہو کہتا ہے کہ

”جب انسان صرف اپنے ہی ساتھ جڑ جائے گا اور مقابلے کے کھیل کا حصہ نہیں بنے گا تو پوری کائنات اس کی عزت کرے گی۔ یقیناً، تصوف اور تاؤازم دونوں آفاقی خصوصیات کی حامل ہیں، جو کہ معاشی اور معاشرتی حدود میں سما نہیں سکتیں۔ پاکستانی ارباب حکومت، تصوف اور تاؤازم کی تعلیمات کو اسکولز میں، کالجز اور یونیورسٹیز میں اجاگر کر سکتے ہیں۔ تاؤ ازم میں انسان کو کائنات کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے تمام شعبہ حیات میں انسان بھی دوسری چیزوں کی طرح عالمگیر تاؤ کا مظہر ہے۔

اس کا نظریہ انسان صرف علمی ہی نہیں بلکہ اس کی بنیاد اخلاقیات پر قائم ہے اور انہی اخلاقیات کے باعث انسان خود کو فطرت کے سپرد کردیتا ہے اور اس طرح فطرت کے یہ قوانین جن کے سامنے وہ سر جھکا دیتا ہے اس کے لیے عزت و احترام کا باعث بن جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ فطرت کے کسی کام میں قصد کو دخل نہیں ہے۔ اس لیے انسان کے تمام اعمال بھی ارادے کے بغیر سرزد ہونے چاہئیں۔ منصوبہ بندی، تدابیر، جوڑ توڑ، خواہش اور تمنا وغیرہ سب کی سب انسانی فطرت کے منافی ہیں۔

تاؤ ازم میں وہ کام جو منصوبہ بندی سے کیے جاتے ہیں۔ زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے۔ تاوازم کے پیرو ترک دنیا کر کے پہاڑوں میں پناہ لینے کو مستحسن خیال کرتے ہیں۔ تاؤ ازم میں خواہشات اور جذبات پر قابو پانے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ بقول لاؤزے جو دوسرے پر غالب آتا ہے وہ قوی ہے اور جو خود اپنے آپ پر غالب آ جائے وہ قوی تر ہے۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا غلام بن کر رہ جائے۔

لالچ سے بڑھ کر اور کوئی مصیبت نہیں اور حرص سے بڑھ کر کوئی وبال نہیں ہے۔ تاؤازم میں انسانوں کا قتل کرنا اور جنگ میں فتح پانا کوئی قابل فخر بات نہیں، تاوازم میں قیدیوں کو سزا کے طور قتل کرنے کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ تاؤ ازم میں موت ایک اچھی اور خوشگوار چیز ہے یہ ایک لازمی امر ہے اور اس سے ڈرنا بے کار ہے۔ موت ایک خوشگوار تبدیلی کا نام ہے۔ موت اور زندگی میں وہی تعلق ہے جو آنے اور جانے میں ہے۔ چنانچہ اس دنیا سے چلے جانے کے معنی دوسری دنیا میں پیدا ہونے کے ہیں۔

تاوازم کے مطابق انسان زندگی سے محبت کر کے ایک فریب میں مبتلا ہے۔ انسان موت کی ہولناکیوں سے واقف ہے لیکن موت کے بعد کی راحتوں سے ناواقف۔ انسان کی زندگی کا تابناک پہلو یہی ہے کہ موت ازل ہی سے تمام انسانوں کا نوشتہ تقدیر بنی ہوئی ہے۔ موت نیکوں کے لیے سکون اور بروں کے لیے پردہ ہے۔ مردے وہ ہیں جو اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں اور زندہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ تاوازم کے مطابق مرنے کے بعد زندگی میں نیک لوگ نہایت ہی آرام کی زندگی بسر کریں گے اور بروں کو مزید برائی کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).