بڑھتی ہوئی آبادی: مسئلہ یا امکان؟


ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ زیادہ آبادی زیادہ مسائل کو جنم دیتی ہے کیونکہ ریاست کو زیادہ افراد کے لیے صحت تعلیم علاج اور روزگار کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔

یہ بات درست ہے مگر دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ زیادہ آبادی ہمیشہ زیادہ مسائل ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ زیادہ پوٹینشل بھی فراہم کرتی ہے۔

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی نوجوان افراد پر مشتمل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے نوجوان تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوں اور ان کے لیے ایک ایسا بہترین فریم ورک ہو جس میں وہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ملک ٹھیک تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

ثبوت کے طور پر چائنا کی مثال دوں گا چائنا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب ہیں۔

حیران کن حقائق یہ ہیں کہ 2000 تک چائنا کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 170 ارب ڈالر تھے جو کہ صرف اور صرف دس سال کے قلیل عرصے میں 170 سے بڑھ کر 3821 ارب ڈالر ہو گئے۔ یہ انقلاب کیسے آیا جب کہ ان کی آبادی اس وقت بھی ہم کم سے کم از کم چھ گنا زیادہ تھی؟

یہ اس لیے ممکن ہوا کہ چائنا نے اپنی زیادہ آبادی کو اپنا پوٹینشل بنایا۔ انہوں نے ایسی شاندار پالیسیاں اپنائیں جس سے ان کے کروڑوں افراد کو روزگار بھی میسر ہوا اور خود چائنہ کی پیداواری صلاحیت میں بھی کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔ چائنا نے اپنی چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کو فروغ دینا شروع کیا ان کے لئے بہترین پالیسیاں بنائی گئی لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے اور چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹ لگانے کی ترغیب دی گئی اس کے لئے ان کو بے پناہ سہولیات، اور مراعات دی گئیں جن میں ٹیکس کی چھوٹ قوانین کی نرمی وغیرہ شامل ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتیں ہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں کیونکہ یہ ملک میں سب سے زیادہ روزگار کے مواقع انہیں صنعتوں سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی پیداواری صلاحیت کا بہت بڑا حصہ انہیں چھوٹی صنعتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے ذریعے سب سے زیادہ معاشی سرگرمی ہوتی ہے۔ اس لئے کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کا فروغ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

چائنہ میں اس وقت جتنی بھی مصنوعات تیار ہو رہی ہیں ان کا بہت بڑا حصہ چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں میں تیار ہوتا ہے لوگوں نے گھروں میں بھی چھوٹے چھوٹے پیداواری یونٹ لگا رکھے ہیں۔

اس وقت غالباً روزمرہ زندگی کے استعمال کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو چائنا میں نہ بن رہی ہو اور وہ دنیا کو نہ بیچ رہا ہو۔

ہماری اس وقت سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ حکومت فوری طور پر قانون سازی کرے چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کے فروغ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جن میں کمپنی رجسٹریشن اور ٹیکس کے معاملات میں آسانی پیدا کی جائے کچھ سالوں کے لئے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے اور خاص طور نوجوان طبقہ کے لئے فنی تربیت کے مراکز قائم کیے جائیں اور وکیشنل ٹریننگ کو فروغ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو افراد ہنرمند ہیں اور سرمایہ بھی رکھتے ہیں ان کو مکمل تربیت اور رہنمائی فراہم کی جائے تاکہ وہ چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹ لگائیں اور اپنی مصنوعات کو عالمی منڈی میں بیچ سکیں۔

کمپنی رجسٹریشن اور خاص طور پر ایکسپورٹ کے حوالے سے قوانین میں نرمی کی جائے اور موجودہ پیچیدہ اور لمبے طریقہ کار کو سادہ، آسان اور عام فہم بنایا جائے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور میں فری لانسنگ کے ذریعے بھی لاکھوں کروڑوں افراد با عزت روزگار کما رہے ہیں اس میدان میں بھی ہماری کارکردگی کچھ خاص نہیں ہے۔ اس کے لیے نوجوانوں میں آگاہی پھیلائی جائی اور فری لانسنگ ٹریننگ کے لیے مختلف کیمپ لگائے جائیں تاکہ ہمارے نوجوان بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر سکیں۔

اگر ہماری آبادی زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہے ہم بہت بڑی مارکیٹ ہیں ہم اپنی ضرورت کی چیزیں خود بناکر خود کفیل ہو سکتے ہیں اپنے درآمدات کا خرچہ کافی حد تک کم کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی میسر آئے گا۔

ہماری آبادی زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس افرادی قوت زیادہ ہے ہمارے پاس ٹیلنٹ بھی زیادہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے پاس نوجوان طبقہ تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ جو کسی بھی ملک کا خواب ہوتا ہے۔

صرف مناسب اقدامات کر کے اس پوٹینشل کو کیش کروانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں توپاکستان چند سالوں میں ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).