دھرنے، سماج اور انتظامیہ کی بے بسی


ہفتے کی شام ہی سے اسلام آباد میں داخل ہونے والے راستوں پر کنٹینر رکھ کر بند کرنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ اخبارات میں نمایاں طور پر اس حوالے سے کوئی خبر نہیں تھی اور نہ ہی ٹی وی چینلز پر کوئی ذکر دیکھنے کو ملا۔ اتوار کی صبح موبائل سروس معطل ہو گئی جو پیر کی رات دیر گئے بحال ہوئی۔ اس دوران سڑکوں پر جو افراتفری اور آپا دھاپی کی صورتحال نظر آئی وہ اپنی جگہ خود ایک المیہ ہے۔ اتوار کے روز صورتحال اس قدر ابتر تھی کہ لوگ چھوٹی چھوٹی گلیوں سے منزل تک پہنچنے چکر میں ٹریفک جام کے سبب گھنٹوں محصور رہے۔ شادی کی تقریبات تاخیر اور بدمزگی کا شکار ہوئیں، مریض علاج کی سہولت بروقت نہ ملنے کے سبب اذیت میں مبتلا رہے۔ عوام کو اس اذیت میں مبتلا کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟

ہر جماعت اور مکتبہ فکر کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مطالبات اور اپنے نقطہ نظر کی اشاعت اور قبولیت کے لیے جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کرے۔ لیکن کیا اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ جب تک شہر کی مرکزی شاہراہوں اور سڑکوں کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا جائے اور معمولات زندگی مفلوج کر دیے جائیں؟ دو ہفتے قبل راقم راولپنڈی کے سٹی صدر روڈ پر گھٹنے ٹریفک میں پھنسا رہا۔ سبب یہ تھا کہ بازار کے تاجروں نے ایک حساس معاملے پر احتجاج کرنا تھا۔ ایک ہی سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کونے پر جاتے اور پھر واپس آ جاتے یہ سلسلہ تقریباً دو گھنٹے جاری رہا۔ اس دوران عورتیں تھیں اس خوف سے کہ کہیں حادثہ رونما نہ ہو جائے پارکنگ پلازوں اور بازار کی تنگ گلیوں میں پناہ لیے ہوئے۔

تاجروں کے جذبات کو دیکھتے ہوئے اس احتجاج کو رعایت اگر دے بھی دی جائے تو کیا یہ کافی نہیں تھا کہ ایک بار جلوس بازار کے ایک سرے تک جاتا اور احتجاج کر کے منتشر ہوجاتا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہماری اجتماعی ذہنیت کا۔ اسی طرح چند ہفتوں قبل سرکاری ملازمین اور لیڈی ہیلتھ ورکروں نے دو مختلف مواقع پرپارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک پر احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔ کیا لیکن چونکہ یہ دھرنا ایسی جگہ پر تھا جہاں عام شہریوں کی آمد ورفت کم ہے تو زیادہ تکلیف کا سبب نہیں بنا۔

اسی طرح ایک سیاسی جماعت جس نے اپنی سیاسی بقا کے لیے ووٹ کی عزت کا نعرہ بلند کر رکھا ہے اس کے جلوس کا عملی مظاہرہ راقم نے خود اس وقت دیکھا جب جمعے کے روز اسلام آباد سے لاہور سفر کے دوران سکھیکی انٹر چینج سے ایک جلوس کا سامنا ہوا جو کم و بیش سو گاڑیوں پر مشتمل ہو گا۔ جلوس کے منتظمین نے وہی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیا یہ کہ جلوس میں سب سے آگے چلنے والی گاڑیوں کی ترتیب اس طرح رکھی کے مسافر گاڑیاں بھی آگے نہ نکل سکیں اور لازما جلوس کا حصہ دکھائی دیں، جس سے ہوا یہ کہ سو گاڑیوں کا جلوس چھ سو گاڑیوں پر پہنچ گیا، مسافر حضرات کو جو کوفت اور تکلیف ہوئی اس سے انھیں کیا؟

قوم کو آگے بڑھنے کے لیے اس قسم کی چھوٹی موٹی ”قربانیاں“ تو دینی ہی پڑتی ہیں۔ اسی طرح ریاست کے ایک ستون کے نمائندوں کا حال یہ ہے کہ دھماکہ اور ہلاکتیں ہزاروں میل دور ہوتی ہیں اور یہاں یہ لوگ اپنے دفاتر بند کر کے سڑکوں پر ہوتے ہیں اور مؤکل بے چارے اپنے مقدمات کے لیے پریشان۔ انتظامیہ کی اہلیت اور قابلیت کا حال یہ ہے کہ ٹریفک کو پہلے ہی سے متبادل راستے پر ڈالنے کی بجائے ٹریفک کو وہاں تک جانے دیا جاتا ہے جہاں راستہ مکمل طور پر بند ہوتا ہے۔ پھر وہاں جاکر جب گاڑیاں پھنس جاتی ہیں اور دائیں بائیں سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں تو افراتفری کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اہلکار صمم بکمم کی تصویر بنے کھڑے ہوتے ہیں۔

جلسے اور جلوسوں کا انعقاد ہونا ضرور چاہیے کہ سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ لیکن معمولات زندگی کو درہم برہم کرنے کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہیے ۔ خود نمائی اور نمایاں کوریج کے لیے عام لوگوں کی زندگی کو اجیرن نہیں کرنا چاہیے۔

ہر بڑے شہر میں ایک مرکز اس مقصد کے لیے مختص کر دینا چاہیے جہا ں ہر جماعت اور مکتبہ فکر اپنا جلسہ کرسکے اور اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ کرسکے۔ شہر کے مرکزی شاہراہوں اور سڑکوں کو بند کرنے سے سودے بازی تو ہو سکتی ہے لیکن سیاسی عمل کا ارتقاء کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).