مذہب کا تڑکا



جس طرح کوئی بھی سالن ذائقہ دار بنانے کے لیے اس پہ تڑکا لگاتے ہیں، ویسی ہی مملکت خداداد میں اپنی سیاست چمکانے اور اپنا سکا منوانے کے لیے مذہب کا تڑکا لگایا جاتا ہے۔ جوں ہی مذہب کا تڑکا لگا، سمجھو کہ ناممکن کام بھی اب ممکن ہونے والا ہے۔ رحمت العالمین نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی پاک ذات پہ کسی کو کوئی آنچ بھی قبول نہیں، اور فرانس میں ایک معمولی اخبار نے نبی اکرم صلعم کے خلاف گستاخانہ خاکے شایع کر کے پوری امت مسلمہ کو بہت رنج کیا ہے۔

اسی موضوع کا سہارا لیتے ہوئے، تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولانا خادم رضوی کو اچانک سے سوجھی کہ ان کے لیے عین وقت ہے کہ وہ بھی کچھ کر کے لوگوں کے سوئے ہوئے جذبات کو ابھاریں۔ اس نے پھر سے دو جڑواں شہر اسلام آباد اور پنڈی کی شاہراہ پہ لوگوں کو جمع کیا، اور دھرنا دینا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے آمدروفت رک گئی، اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سے دو دن تک لگنے والے اس دھرنا دینے والوں کو بس انتظار تھا کہ کوئی حکومتی شخصیت آئے، ان کے مطالبات مانیں، اور وہ اس سخت سردی کی موسم میں جلد ہی بوریا بستر باندھ کے گھروں کو روانہ ہوں۔

پیر کی شام کو وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کو لاہور سے بلوایا، اور اسے ہدایات دیں کہ ان دھرنے والوں سے نمٹے۔ بس حکم صادر ہونے کی دیر تھی، اور نورالحق قادری پہنچ گئے دھرنے والوں کے پاس۔ پھر تین نکات پہ معاملات طے پائے، جو یہ تھے : فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جائے، سفارتکار کو واپس بلایا جائے، اور پارلیمنٹ میں بل پیش کر کے قانون سازی کی جائے۔ بس بات اتنی تھی اور دھرنے دینے والے اپنی اپنی منزل کو روانہ ہو گئے، ان کے جاتے ہی نہ صرف ٹرئفک بحال ہوئی، پر موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بھی بحال ہو گئی، جس سے دونوں اطراف میں بستے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔

مذہب کا سہارا لے کر خادم رضوی نے پہلے بھی دھرنے لگائے ہیں، اور یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ، انہوں نے رضا خوشی سے لفافے بھی قبول کیے تھے۔ خادم رضوی کی تنگ نظر سیاست پہ اعتراضات یہ ہیں کہ وہ عوامی جذبات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ناسمجھ عوام کو ریاست کے خلاف استعمال کر کے، یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان گنے چنے لوگوں کے سامنے ریاست کمزور ہے۔ مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے دور میں لگائے گئے دھرنے اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ کس طرح ریاستی مشینری کو چیلنج کیا گیا تھا۔

تحریک لبیک کے سربراہ کی طرح بہت سے مذہبی علما نبی پاک صلعم کی مقدس ہستی کا نام لے کر اپنی سیاست چمکاتے ہیں جیسے کہ نبی صلعم کا پاک نام ان کے لیے مطالبات کیش کروانے کا موثر ذریعہ ہو۔ دوسری طرف یہی مذہبی علما ایک لفظ تک زبان سے نہیں نکالتے، جب ان کے اپنے گھروں میں کسی بہن بیٹی کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہو۔ اپنی بہن بیٹی کو تعلیم حاصل کرنے سے لے کر، پسند کی شادی کرنے تک تمام حقوق سے محروم رکھ کر، یہ نبی صلعم کی ذات کا تحفظ کرنے نکلتے ہیں، ایک ایسی پاک ہستی، جس کو ان کے دفاع کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ کبھی ہو گی۔ وہ اعلی ذات، تمام انسانوں سے بزرگ و برتر ہے۔ اپنے گھر میں ہوئی نا انصافی کو اس طرح سے چار دیواری کے اندر دبایا جاتا ہے کہ اس کی بھنک پڑوسیوں کو بھی نہ لگے۔ بیٹی شادی پہ آمادہ نہ ہو، تب بھی اسے ڈرا دھمکا کر، زبردستی نکاح نامے پہ دستخط لیے جاتے ہیں۔ چھوٹی عمر کی بچیوں کو جب بوڑھے خرید کر نکاح پڑھاوانے کو بولتے ہیں، تب بھی یہ مذہبی رہنما ہنسی خوشی نکاح پڑھنے جاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ بچی ناخوش ہے، بچی نابالغ ہے۔

ایسے سنجیدہ اوقات میں ان کو نبی اکرم صلعم کی حدیثیں یاد نہیں آتیں؟ لاہور سیالکوٹ موٹروے پہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی عورت سے ہمدردی جتانے کے بجائے، الٹا اس کو قصور وار ٹھہرا دیا۔ چھوٹی بچیوں کو جب اغوا کر کے جبری طور پہ مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے، جب معصوم بچیاں جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، تب ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ باقی مذہب کا تڑکا یہ تب لگاتے ہیں جب یہ دیکھتے ہیں خواتین ہر شعبہ زندگی میں اپنا حصہ ڈال کر کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔

خواتین کے لباس اور ان کی جسامت پہ اعتراض کرنے والے یہ مولوی، تب ہی مسلمانوں والا روپ دھارتے ہیں، جب ان کو اپنے فائدے حاصل کرنے ہو۔ جو زلزلوں اور قدرتی آفتوں کا سبب خواتین کا لباس سمجھتے ہیں، ان کے پیروں تلے زمینیں تب کیوں نہیں لرزتی، جب زینب جیسی، علیشہ جیسی بچیاں جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں؟ تب کیوں ان کے اوپر آسمان نہیں گرتا، جب ایک سے زائد درندے ایک اکیلی بے بس بچی کو نوچتے چلے جاتے ہیں؟ کلام پاک کے ہزاروں نسخوں کی موجودگی میں، جب مدرسے کے معلم بچے بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں، تب کیوں نہیں دھرتی تپ کر تانبہ ہوتی؟

فرانس سے تو بھلے بائیکاٹ کیا جائے، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، پر کیوں نہ اس سعودی عرب کا بھی بائیکاٹ کیا جائے، جو فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم پہ خاموش رہا ہے، اور امریکی دوستی میں کسی حد جانے پر تیار رہتا ہے؟ تحریک لبیک اور ایسی دیگر جماعتوں کے اندر یہ سافٹ ویئر موجود ہے کہ، اپنے مطالبات جب منوانے ہوں، تب کوئی نہ کوئی مذہب کے حوالے سے موضوع چھیڑو اور اس پہ اسلام کا تڑکا لگا کر، لوگوں کے جذبات کو بھڑکاؤ، لوگ بھی وہ، جو صحیح غلط کی پرکھ کرنے کے قابل نہ ہوں۔

ہمارے ملک کو تمام تر سیاسی، سماجی، معاشی مسائل لاحق ہیں، اور ان میں سے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے تحریک لبیک کی جانب سے دھرنا نہیں دیا گیا۔ اور تو چھوڑو، صرف آٹا سستا کرنے کے لیے دھرنا دے دیتے، تو مفلس اور ناداروں کا بھلا ہوجاتا، اور وہ دو وقت کی روٹی باآسانی کھا سکتے، جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھانے پر کچھ گھنٹوں کی بیٹھک کرلیتے، تو بھی غریبوں کی جان بچ سکتی تھی۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے، کم عمر کی شادیوں پہ پابندی کے حوالے سے، دھرنا نہ سہی، ایک دو گھنٹے کا احتجاج کر لیتے، اس پہ نبی پاک صلعم کے فرمان لوگوں کو بتا دیتے، تو کئی راہ بھٹکے لوگ، سیدھے راستے پہ آ سکتے تھے۔

لیکن نہیں۔ تحریک لبیک اور اس سے وابستہ لوگوں کا کام تو بس، کھود کھود کر وہ موضوع نکالنا ہے جس سے عوام آگ بگولا ہو جائیں۔ خاکے شایع کرنے والے تو ٹھہرے غیر مسلم، پر ہم کلمہ گو، توحید اور رسالت پہ ایمان رکھنے والے، جب اپنے ذاتی مفاد کے لیے مذہب کی غلط تشریح کر کے لوگوں کو بہکاتے ہیں، کبھی طاہر القادری بن کر، کبھی خادم حسین رضوی بن کر تو یہ ان کا نہیں ہمارے ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ خواتین کے حق غصب کر کے ان کی تعلیم و پسند کی شادی پہ پابندی لگا کر، ان کے خلاف کیے گئے مظالم پہ خاموش رہنے کا جو جرم علماء کرام کرتے ہیں، کیا اس کے بعد بھی ہم امت مسلمہ کا حصہ کہلانے کے لائق ہیں یا نہیں؟ سوچنے کی بات ہے کہ، مذہب کا تڑکا لگا کر ہمارے جذبات کو تو تیکھا کیا جا رہا ہے، پر ہمارا عمل دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).