برطانیہ کے بڑے بڑے برانڈز کی مصنوعات بنانے والی انڈین فیکٹریوں میں مزدوروں کا استحصال: ’ٹیکسٹائل کی صنعت میں کام کرنے کا یہی طریقہ ہے‘


ورکر
اس نوجوان مزدور کو مہینے کا چھ ہزار روپیہ ملتا ہے جس سے کنبے کا خرچ چلتا ہے
مارکس ایند سپینسر، ٹیسکو اور سینسبریز جیسی برطانوی سپر مارکیٹوں اور فیشن برانڈز رالف لارین کو سامان فراہم کرنے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں استحصال کا سامنا ہے۔

رالف لارین کو سامان فراہم کرنے والی کمپنی میں کام کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں آرڈر مکمل کرنے کے لیے کارخانے میں راتیں گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بعض اوقات انھیں فیکٹری کے فرش پر ہی سونے کے لیے کہا جاتا ہے۔

ایک عورت نے انٹرویو میں کہا: ‘ہم سے مسلسل کام کروایا جاتا ہے، اکثر رات بھر۔ صبح تین بجے سونے کی اجازت ملتی ہے پھر پانچ بجے تک دوسرے دن کی پوری شفٹ کے لیے جگا دیا جاتا ہے۔’

انھوں نے مزید بتایا کہ: ‘ہمارے مالکان کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی پیداوار کے بارے میں فکر مند ہیں۔’

بی بی سی نے مزدوروں کی ملازمت کو نقصان سے بچانے کے لیے انٹرویو دینے کے لیے راضی ہونے والے لوگوں اور ان کی فیکٹریوں کا نام نہ ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ممی یہ کام نہ کریں تو گھر ہی نہ چلے‘

’90 فیصد مزدوروں کو غلامی کا سامنا‘

دو کروڑ ’غلام‘ اور انڈیا کی مشکل

سپر مارکیٹ کو سپلائی کرنے والے کارخانوں کے کارکنوں میں کام کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ان کو ایسے حالات برداشت کرنا پڑتے ہیں جو برطانیہ میں انہی برانڈز کے لیے کام کرنے والے ملازمین کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔

ایک خاتون نے کہا: ‘ہمیں بیت الخلا جانے کے لیے بھی وقفہ نہیں ملتا، نہ ہی شفٹ میں پانی پینے کا وقت دیا جاتا ہے اور ہمیں کھانے کے لیے بھی بمشکل ہی وقت ملتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ کبھی کبھی تو ایک منیجر کینٹین میں عملے کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے اور انھیں کام پر واپس بھیجنے کے لیے سیٹی بجاتا ہے۔

ملازمین

ملبوسات کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین نے بی بی سی کو اس انداز سے تصویر لینے کی اجازت دی کہ ان کی شناخت ظاہر نہ ہو

ایک دوسرے ملازم نے بتایا کہ وہاں کام کرنے والوں کو اوور ٹائم کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور جب تک اضافی کام ختم نہیں ہوتا تب تک انھیں گھر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

‘انھوں نے ہمارے کام کو بڑھا دیا ہے۔ ہمیں اسے ختم کرنے کے لیے دیر تک رکنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ نہیں تو وہ ہم پر چیختے ہیں اور نوکری سے نکال دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ ہم ڈر جاتے ہیں کیونکہ ہم اپنی ملازمت گنوانا نہیں چاہتے ۔’

بی بی سی نے جب مذکورہ برانڈز سے رابطہ کیا اور انھیں سامان فراہم کرنے والی فیکٹریوں کا حال بتایا تو انھوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس بابت تحقیقات کریں گے۔

ان کپڑے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین جنوبی انڈیا کے دیہی علاقوں میں غربت و افلاس کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ فلاحی تنظیم ایکشن ایڈ اس مخصوص خطے کے 45 دیہاتوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی 1200 سے زیادہ خواتین ملازمین کی مدد کرتی ہے۔ تنظیم کے مطابق ان فیکٹریوں میں جبری اوور ٹائم، گالی گلوچ اور بدترین حالات میں کام کروانا ایک معمول کی بات ہے۔

اس طرح کے الزامات صرف ملبوسات کی صنعت تک ہی محدود نہیں ہیں۔ کم اجرت اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے قوانین میں کمزوریوں کی وجہ سے انڈیا ایک طویل عرصے سے غیر ملکی برانڈز کی آؤٹ سورس پروڈکشن کے لیے ایک پرکشش جگہ رہی ہے۔

نجی شعبے میں یونینز تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں اور غیر رسمی یا دیھاڑی دار ملازمین کو خاص طور پر خطرہ رہتا ہے۔ اگرچہ ان جگہوں کی انسپیکشن یا معائنے لازمی ہیں لیکن وسیع پیمانے پر موجود بدعنوانی اور سُست نظام کا مطلب یہ ہے کہ فیکٹریوں کی شاید ہی کبھی قانون توڑنے پر باز پرس ہوتی ہو۔

ملبوسات کے کاروبار کی زیادہ بات اس لیے ہوتی ہے کیونکہ اس میں بڑے پیمانے پر برآمدات شامل ہوتی ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے برانڈز ان کے گاہکوں میں شامل ہیں۔

اس شعبے میں چین کے بعد انڈیا دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ کپڑے برآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والوں کے کام کرنے کے حالات کی تحقیقات پر مبنی سنہ 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کی ملبوسات بنانے والی فیکٹریوں میں تقریبا ایک کروڑ 29 لاکھ افراد براہ راست کام کرتے ہیں جبکہ اسی شعبے سے منسلک لاکھوں دیگر مزدور فیکٹریوں سے باہر اور اپنے گھروں میں کام کرتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرنے والی متعدد خواتین نے بتایا کہ جو کمپنی رالف لارین کو سپلائی کرتی ہے ان کے کارخانوں میں خوف کا ماحول پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منیجر انھیں اضافی گھنٹے کام کرنے کا نوٹس نہیں دیتے اور اس کے بجائے وہ کام جاری نہ رکھنے کی صورت میں ملازمت سے نکالنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

کارکن

بی بی سی نے جن خواتین سے بات کی وہ جنوبی انڈیا کے دیہی علاقوں میں غربت میں زندگی بسر کرتی ہیں

ایک عورت نے کہا: ‘سپروائزر ہمیشہ ہم پر چیختا رہتا ہے۔ اگر ہم سلائی میں کوئی غلطی کرتے ہیں تو ہمیں مالک کے پاس لے جایا جاتا ہے جو بہت ڈراؤنا ہے۔ پھر مالک ہم پر چیخنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایک خوفناک تجربہ ہوتا ہے۔’

اپنے کنبے کے اخراجات اٹھانے والی ایک بیوہ عورت نے کہا: ‘وہ ہم سے رات گئے اتنی دیر تک کام کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو رات کا کھانا بھی نہیں کھلا سکتی۔ انھیں ہمارے ساتھ غلاموں کی طرح سلوک نہیں کرنا چاہیے، انھیں ہمیں عزت دینی چاہیے۔’

ان دعوؤں سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا میں ملازمت کے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملازم کا ہفتے میں 48 گھنٹے (یا اوور ٹائم کے ساتھ 60 گھنٹے) سے زیادہ وقت نہیں لیا جانا چاہیے اور نہ ہی ان سے ایک دن میں نو گھنٹے سے زیادہ کام کروانا چاہیے۔

قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین اسی صورت میں ہی رات کی شفٹوں میں کام کر سکتی ہیں اگر وہ خود سے ایسا کرنا چاہتی ہیں۔

رالف لارین کی سنہ 2020 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپنی ‘عالمی سطح پر اپنی مصنوعات تیار کرنے والے تمام لوگوں کے وقار کا خیال رکھتے ہوئے اخلاقی بنیادوں پر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔’ اس رپورٹ میں یہ عہد بھی شامل ہے کہ ملازمین کو ‘کام کے اوقات سے زیادہ کام نہیں کرنے’ کو یقینی بنانا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں ‘زبانی طور پر ہراساں، زبردستی، سزا یا زیادتی’ کا شکار نہیں ہونے دیا جا سکتا ہے۔

یہ برانڈز اخلاقی تجارت کے حوالے سے ایک معاہدے (ای ٹی آئی) کے رکن ہیں اور انھوں نے اس کے بنیادی ضابطے پر دستخط کیے ہیں جس میں یہ عہد شامل ہے کہ کام کے اوقات زیادہ نہیں ہوں گے، اوورٹائم رضاکارانہ ہوگا اور یہ کہ کارکنوں کو زبانی طور پر زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

ایک بیان میں رالف لارین نے کہا کہ بی بی سی کی جانب سے کمپنی پر لگائے گئے الزامات پر اسے گہری تشویش ہے اور وہ ان کی تحقیقات کرے گا۔

کمپنی نے کہا: ‘ہمیں اپنے تمام سپلائرز میں ایک محفوظ، صحت مند اور اخلاقی کام کی جگہ کو یقینی بنانے کے لئے سخت معیارات پر پورا اترنے کی ضرورت ہے اور ہم تمام فیکٹریوں میں غیر جانب دار کمپنیوں کی جانب سے باقاعدگی سے آڈٹ کرواتے ہیں۔’

فیشن برانڈز کو ملبوسات فراہم کرنے والی فیکٹریوں نے عملے کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ قانون پر عمل پیرا ہیں۔

کارکن

برطانیہ کے ایک بڑے برانڈ کے لیے ملبوسات بنانے والی اس خاتون کا کہنا ہے کہ انھیں نہ پانی پینے اور نہ بیت الخلا جانے کی رخصت ملتی ہے

تینوں سپر مارکیٹ برانڈز نے کہا کہ انھیں اس بات کو سن کر حیرانی ہوئی ہے اور وہ معاملات کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں، بطور خاص زیادہ وقت تک کام کرنے کے سلسلے میں۔

سینسبریز کا کہنا تھا کہ وہ بہت سے ایسے اقدامات پر زور دے رہا ہے جن کی پابندی کرنا ہر اس سپلائر پر لازم ہوگی جو ان کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتا ہے۔ ان میں فوری اقدامات اور پہلے سے طے شدہ اقدامات شامل ہیں۔ کمپنی کے مطابق وہ ان اقدامات کی نگرانی بھی کر رہے ہیں۔

ٹیسکو نے کہا کہ ‘ہم ملازموں کے حقوق کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کرتے ہیں اور جیسے ہی ہمیں آگاہ کیا گیا ہم نے ان الزامات کی مکمل چھان بین کی۔ ہمیں جو پتا چلا ہم اس سے سخت پریشان ہوئے ہیں۔’

ٹیسکو نے کہا کہ انھوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ ‘ضرورت سے زیادہ اوورٹائم پر پابندی لگائی جائے، شکایات کے ازالے کے طریقہ کار کو مضبوط کیا جائے’ اور اس بات کو یقینی بنایا جایے کہ مزدوروں نے جو اضافی کام کیا ہے اس کے لیے ‘انھیں صحیح ریٹ پر مکمل معاوضہ دیا جائے۔’

مارکس اینڈ سپینسر نے کہا کہ اس نے ان دعوؤں کے تناظر میں فوری غیر اعلانیہ آڈٹ کیا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ انھوں نے ‘اوور ٹائم کام کرنے کی بات درست پائی جو قابل قبول نہیں ہے۔’ تاہم انھوں نے پانی پینے یا بیت الخلا جانے کی اجازت نہ ملنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔

کمپنی نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے ایک ‘ٹھوس’ منصوبہ ہے اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے وہ ‘باقاعدہ غیر اعلانیہ آڈٹ کرواتے رہیں گے۔’

‘برانڈز ذمہ دار ہیں’

اس طرح کے برانڈز انڈیا میں نہ تو اپنی فیکٹریاں چلاتے ہیں اور نہ ہی فیکٹریوں کے مالک ہیں اور اسی وجہ سے ان کے اور وہاں کام کرنے کے حالات کے مابین فاصلے برقرار رہتے ہیں۔ دریں اثنا کپڑے فراہم کرنے والی ایک فیکٹری کے مالک نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ برانڈز سستے کپڑے کی فراہمی پر زور دیتے ہیں جس کی وجہ سے آرڈر کو پورا کرنے کے لیے سپلائرز کو ادھر ادھر سے کاٹ چھانٹ کرنے کے علاوہ دوسرا چارہ نہیں بچتا۔

انھوں نے کہا: ‘یہ برانڈز ہی ہیں جو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ آپ کو اس حد تک مجبور کر دیتے ہیں کہ آپ مزدوروں کا استحصال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔’

برطانیہ کے ایک بڑے برانڈ کو مال فرہم کرنے والی ایک کمپنی کے مالک نے بتایا کہ فیکٹری کے آڈٹ کا عمل محض ‘دکھاوا’ ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا: ‘فیکٹری کو علم ہوتا ہے کہ آڈیٹر کب آ رہے ہیں، لہذا وہ ہر چیز کو پہلے سے درست حالت میں رکھتے ہیں اور آڈٹ کے ختم ہوتے ہی سب چیزیں معمول پر آ جاتی ہیں یعنی استحصال اور عدم تعمیل۔’

انھوں نے کہا کہ جانچ اور تدارک کے ناقص طریقہ کار اور پھر اس کے ساتھ برانڈز پر براہ راست ذمہ داری کی غیر موجودگی میں اس استحصال کو روکنا مشکل بن جاتا ہے۔

‘ٹیکسٹائل کی صنعت میں کام کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ یہ صرف انڈیا میں ہی نہیں، ہر جگہ ہے۔’

ایکشن ایڈ

ایکشن ایڈ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کو کم اجرت دی جاتی ہے

جیسے ہی منافعے کم ہونے لگتے ہیں، خواتین پر اس کا سب سے پہلے اثر پڑتا ہے کیونکہ ان کی نوکریاں جانے لگتی ہیں۔ خواتین جکو ملنے والے پے سلپس کے جائزے سے بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی کچھ خواتین روزانہ کے صرف ڈھائی پاؤنڈ کماتی ہیں جو انڈیا کے حساب سے تقریبا دو سو روپے بنتا ہے اور بعض اوقات ان کی بنائی ہوئی مصنوعات بازار میں کئی سو پاؤنڈ میں فروخت ہوتی ہیں۔

ایکشن ایڈ انڈیا کے ذریعہ کیے گئے سروے میں معلوم ہوا ہے کہ 40 فیصد سے زیادہ مزدوروں کی اوسط ماہانہ آمدنی دو ہزار سے پانچ ہزار روپے کے درمیان ہے۔

ایکشن ایڈ کے چنئی دفتر میں ریجنل مینیجر ایستھر ماریاسلوام نے بتایا کہ عالمی سطح پر خواتین کی قدرو قیمت کم لگائی جاتی ہے اور انھیں کم اجرت دی جاتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرنے والے تمام کارکنوں نے غربت و افلاس کا رونا رویا اور بتایا کہ ان کی تنخواہوں سے ان کا گزارہ بمشکل ہوتا ہے۔

رالف لارین کے سپلائر کے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ انھیں کاٹ چھانٹ کر مہینے کے چھ ہزار روپے ملتے ہیں جن سے وہ اپنے پورے خاندان کی کفالت کرتی ہیں۔

ابھی ان کی عمر 20 سال سے کم ہے اور والد کی وفات کے بعد ان پر گھر کے لیے روٹی روزی کمانے کا بوجھ آن پڑا ہے۔ ان پر ان کی والدہ اور دو بہنوں کی ذمہ داری ہے۔

ان کی تنخواہ ملازمت کے مقامی قانون کے تحت کم سے کم اجرت کے درجے میں ہے، لیکن مزدوروں کے حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان جیسی خواتین کو ان کی موجودہ آمدن سے تین گنا زیادہ کمانا چاہیے۔

ایشیا فلور ویج الائنس نامی تنظیم خطے میں ملبوسات کے شعبے سے منسلک مزدوروں کو زیادہ تنخواہ دینے کی حمایت کرتی ہے۔ اس کے مطابق انڈیا میں ان کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ 18 ہزار 727 روپے ہونی چاہیے۔

ٹیسکو، سینسبریز اور مارکس اینڈ سپینسر نے اس سے قبل زندگی بسر کرنے کے لیے کافی اجرت دینے کا عہد کر رکھا ہے لیکن رالف لارین نے واضح طور پر ایسا نہیں کیا۔

تاہم بی بی سی نے تنخواہوں کی جو رسیدیں دیکھی ہیں اور جن فیکٹریوں میں تحقیقات کی ہیں ان میں سے کسی نے بھی اپنے ملازمیں کو ایشیا فلور ویج الائنس کی کم سے کم مقررہ اجرت کے قریب بھی ادائیگی نہیں کی۔

کارکن

مخیر اداروں نے عالمی برانڈز کو ان ملازمین کے لیے مزید اقدامات کرنے پر زور دیا ہے

بی بی سی نے چاروں برانڈز سے زندگی بسر کرنے کے لایے کافی اجرت کے متعلق پوچھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس مخصوص نکتے پر کوئی جواب نہیں کیا۔

مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم لیبر بیہائنڈ دی لیبل سے تعلق رکھنے والی اینا برائر نے کہا کہ منصفانہ اور محفوظ کام کی جگہ یقینی بنانا برانڈز کی ذمہ داری ہے۔

انھوں نے کہا: ‘اگر آپ برانڈ ہیں اور آپ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ملبوسات بنا رہے ہیں تو پھر آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا آپ اپنے کارکنوں کو وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے کافی اجرت ادا کررہے ہیں۔’

‘سپلائی چین کے سب سے اوپری حصے میں ہونے والی کمپنی کی حیثیت سے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کو یہ علم ہو کہ آپ کے سپلائی چین میں کیا ہو رہا ہے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو ہو رہا ہے وہ منصفانہ ہے۔’

باتھ یونیورسٹی کے ایک سینیئر لیکچرر وویک سندر راجن نے عالمی سپلائی چینز پر تحقیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی لیبر قانون مزدوروں کے استحصال سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ نہیں ہیں، اس لیے تبدیلی لانے کے لیے برانڈز کو خود کوشش کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ‘زیادہ تر معاملات (چیکس اور بیلنس) میں کارکنوں کی آوازیں شامل نہیں ہیں، ان میں مزدوروں کو در حقیقت کیا درکار ہے جیسی بات شامل ہی نہیں۔

‘میرے خیال میں برانڈ کو پوری ذمہ داری لینا چاہیے۔۔۔ وہ فیکٹری نہیں چلاتے ہیں لیکن وہ سارے فوائد حاصل کرتے ہیں۔’

تمام تصاویر ریکستانے نیسی ایس کی ملکیت ہیں جبکہ پیٹر ایمرسن نے اس خبر کے لیے اضافی رپورٹنگ کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp