افغان پالیسی اور جو بائیڈن


افغانستان میں قیام امن کے لیے اب تمام نگاہیں جو بائیڈن کی پالیسی پر مرکوز ہیں کہ آیا وہ صدر ٹرمپ کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے فوری طور پر افغانستان سے تمام افواج نکالتے ہیں یا وہ اس سلسلے میں کوئی نئی پالیسی سامنے لاتے ہیں۔ امریکی انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ اور بائیڈن افغانستان سے انخلا کی حکمت عملی پر متفق تھے جو بائیڈن اب بھی امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے حق میں ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کو بالکل بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے۔

بائیڈن چاہیں گے کہ افغانستان کو اس حالت میں چھوڑا جائے کہ وہاں امن قائم ہو اور القاعدہ اور دیگر جنگجو گروپوں کے بارے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے خدشات مکمل طور پر دور ہو جائے، نو منتخب صدر جو بائیڈن کی سوچ افغانستان کے حوالے سے قدرے مختلف ہو گی۔ اگر طالبان اور افغان حکومت کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں تو معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں بصورت دیگر امریکہ کے لیے افغانستان سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ مغربی ممالک کے عسکری اتحاد نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹالنبرگ نے کہا کہ ہمیں ایک مشکل فیصلہ درپیش ہے۔

ہم گزشتہ 20 سال سے افغانستان میں ہیں اور اب نیٹو کا اہم اتحادی مزید یہاں نہیں رہنا چاہتا لیکن دوسری جانب باہمی رابطے کے بغیر جلد بازی میں یہاں سے فوج کے انخلا کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ابھی بھی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیمیں ہمارے ممالک کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ داعش شام اور عراق میں پسپائی کے بعدافغانستان میں تسلط قائم کر سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ دسمبر تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کرچکے ہیں اور انتخابات میں ناکامی کے بعد بھی وہ اپنے اس ایجنڈے پر قائم ہیں۔ صدر ٹرمپ نے رواں سال طالبان کے ساتھ معاہدہ کر کے افغانستان سے فوج واپس بلانے کے بندوبست کا آغاز کر دیا تھا۔ طالبان کے بعد اب امریکا افغانستان میں مختلف سیاسی قوتوں کے مابین مذاکرات کی سہولت کاری بھی کر رہا ہے۔ نوگیارہ حملوں کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت نیٹو افواج بھی اس کے ساتھ تھی۔

اس وقت افغانستان میں نیٹو کے کم و بیش 12 ہزار اہلکار موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تربیتی اور مشاورتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اور نقل و حمل کے لیے یہ امریکی فوج پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی لیے امریکا کی جانب سے مرحلہ وار اور بعد ازاں مکمل انخلا کے حوالے سے نیٹو کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کے ساتھ افغانستان آئے تھے اور درست وقت آنے پر ہمیں ساتھ ہی یہاں سے نکلنا چاہیے۔

یاد رہے کہ رواں برس 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں کمی کی امید کی جا رہی تھی تاہم امن کی کوششوں کے باوجود حالات سنگین صورت حال اختیار کر گئے ہیں۔ ​افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی کو اب جو بائیڈن کی ٹیم ہی آگے بڑھائے گی اور وہ نہیں سمجھتے کہ جس طرح کی مراعات صدر ٹرمپ نے طالبان کو دی تھیں وہ صدر بائیڈن دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).