ووٹ کو عزت دو، ووٹر کو ذلیل کرو


مسلم لیگ نون کے سربراہ سزا یافتہ مجرم نواز شریف اور ان کی سزایافتہ مجرمہ بیٹی مریم نواز شریف کا بیانیہ ”ووٹ کو عزت دو“ گلگت بلتستان کے انتخابات میں بری طرح پٹ گیا، مریم نواز نے وہاں بہت جلسے کیے، ان کی آمد سے قبل ہی مسلم لیگ نون وہاں ٹوٹ چکی تھی، نون لیگ کے سابق ارکان اسمبلی اور امیدواران ”اڑ“ چکے تھے یا آزاد الیکشن لڑنے کے لئے نون لیگ چھوڑ گئے تھے

مریم نواز کے جلسوں میں لوگ تو کثیر تعداد میں آتے تھے جس پر نون لیگ کے حامیوں کو کچھ امید یا غلط فہمی کہہ لیں ہو چکی تھی کہ شاید نون لیگ گلگت بلتستان کے انتخابات میں کوئی اپ سیٹ کردے مگر الیکشن کے نتائج کے بعد نون لیگ خود اپ سیٹ ہو گئی، ایک امیدوار طاہر شگری نے تو صرف ایک ووٹ لیا، وہ بھی شاید اس کا اپنا ہی ہوگا۔

حسب روایت الیکشن ہارنے کے بعد مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے دھاندلی کے الزامات ہی عائد کیے، گلگت بلتستان میں گزشتہ حکومت مسلم لیگ نون کی تھی اور اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی تھی، دونوں سیاسی جماعتیں پانچ، پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں اگر دونوں جماعتوں نے گلگت بلتستان کے عوام کے لئے اگر اچھے کام کیے ہوتے ان انتخابات میں دونوں جماعتوں کے ذلت آمیز شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی روایت رہی ہے کہ جس سیاسی جماعت کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے یہ دونوں حکومتیں بھی اسی پارٹی کی بنتی ہیں، حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کا جیتنا کوئی کمال نہیں ہے، نواز شریف کی نا اہلی کے بعد سے مسلم لیگ نون ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے پر زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اسے کوئی کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی

گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں پی ڈی ایم کے جلسوں میں نواز شریف کی فوج کے خلاف تقاریر نے خود ان کی پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے جس سے پارٹی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک کسی پارٹی نے نہ تو اپنی جماعت کو مضبوط بنایا اور نہ ہی عوام کو عزت دی، بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب نے الیکٹ ایبلز کو اپنی پارٹیوں میں شامل کیا اور وقتی طور پر زیادہ نشستیں حاصل کر کے حکومتیں بناتی رہیں

سیاسی جماعتوں کو مضبوط نہ بنانے میں سب سے اہم کردار نواز شریف کا رہا، انہوں نے چھانگا مانگا کی ایسی روایت ڈالی جو آج تک جاری ہے اور تحریک انصاف نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر اقتدار تو حاصل کر لیا مگر کارکن بدل کر دیے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 40 سالہ سیاسی جدوجہد میں نون لیگ اپنی پارٹی کو بہت مضبوط بنا لیتی کیونکہ ان کا اپنا ووٹ بنک بن چکا تھا مگر ایسا نہ کیا گیا اسی وجہ سے جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ ہی نون لیگ کے اکثر ارکان اسمبلی نئی جنم لینے والے جماعت مسلم لیگ قائداعظم میں چلے گئے

بینظیر کی شہادت کے بعد اقتدار ایک بار پھر پیپلز پارٹی کومل گیا، نواز شریف وطن واپس آچکے تھے، نواز شریف پھر اپنی پرانی ڈگر پر چل نکلے اور کسی کے کہنے پر (کس کے کہنے پر؟ کاظمی صاحب آپ تو بہت شرمیلے ہیں۔ مدیر) میموگیٹ کا کیس لے کر سپریم کورٹ چلے گئے، یہاں ووٹ کو عزت دو کا کوئی خیال نہ کیا اور پھر وہی پرانا کھیل شروع کر دیا، 2013 کے الیکشن میں بھی پرانی سیاست شروع کردی، نون لیگ کو چھوڑ کر مشرف کے اقتدار کے مزے لینے والے الیکٹ ایبلز کو واپس پارٹی میں لینا شروع کر دیا

ان کی اس روش سے نون لیگ کا کارکن اور غیرجانبدار ووٹر بہت مایوس ہوا کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو ماضی میں ہوتا رہا جس کی وجہ سے جمہوریت مضبوط ہوئی نہ ہی ان کی جماعت، سیاسی نظریات رکھنے والوں نے رفتہ رفتہ کنارہ کشی اختیار کرلی اور میدان میں صرف مفاد پرست پراپرٹی ڈیلرز ہی رہ گئے

2013 کے الیکشن میں ووٹر کو کوئی عزت نہ دی گئی اور لوٹے واپس پارٹی میں لے لئے جس سے نون لیگ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی، ان حالات میں 2018ء کے الیکشن میں ایک بار پھر الیکٹ ایبل ہوا کا رخ دیکھ کر نون لیگ اور پیپلز پارٹی چھوڑنے لگے اس وقت ان پارٹیوں کو پھر اپنے کارکنوں اور ووٹرز کی طرف رجوع کرنا پڑا جنہوں نے صاف جھنڈی دکھا دی۔

مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف اقتدار سے نکالے جانے اور سزایافتہ ہونے کے بعد مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگانے کے بجائے کارکن کو عزت دو یا ووٹر کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تو شاید کامیابی مل جاتی، بھٹو نے غریب کا ہی نعرہ لگایا تھا اور راتوں رات ہیرو اور لیڈر بن گیا تھا، مجھے کیوں نکالا سے بات پھر ووٹ کو عزت دو تک پہنچی پھر بھی ووٹر کو عزت دینے کی کوئی بات نہ کی گئی

ہماری سیاسی جماعتیں آج جو زخم چاٹ رہی ہیں وہ گھاؤ ان کے اپنے لگائے ہوئے ہیں۔ 2002 سے مسلسل جمہوریت چل رہی ہے، (2002ء سے؟ ایمان سے؟ مدیر) سترہ برس کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کے بعد آج یہ حالت ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی پوری کرنے سے قاصر ہیں، ووٹر ذلیل سے ذلیل خوار ہو رہا ہے اور مریم نواز نعرے لگا رہی ہیں ”ووٹ کو عزت دو“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).