کابل کے گرین زون پر 23 راکٹ فائر، حملوں میں آٹھ افراد ہلاک


افغانستان کے وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے ان حملوں کا الزام طالبان پر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردوں کی طرف سے کل 23 راکٹ فائر کیے گئے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہفتے کی صبح مرکزی اور شمالی علاقوں میں ہونے والے راکٹ حملوں میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور 31 زخمی ہوئے ہیں۔

کابل کے گرین زون میں، جہاں متعدد سفارت خانے اور بین الاقوامی کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں، راکٹ حملے صبح نو بجے کے قریب کیے گئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق افغانستان کے وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے ان حملوں کا الزام طالبان پر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے کل 23 راکٹ فائر کیے گئے۔

دوسری طرف طالبان کی طرف سے راکٹ حملوں سے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر حملے نہیں کرتے۔

ان حملوں کی ذمہ داری فوری طور پر کسی عسکری گروہ نے قبول نہیں کی۔

وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا مزید کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

کابل پولیس کے ترجمان کی طرف سے بھی راکٹ حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تصدیق کی گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق گرین زون میں گرنے والا ایک راکٹ پھٹ نہ سکا۔

ایران کے سفارت خانے کا ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ سفارت خانے کی مرکزی عمارت راکٹ حملے سے متاثر ہوئی ہے۔ تاہم اس میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔

 

راکٹ حملوں کے بعد آن لائن دستیاب ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملوں سے عمارتوں کی دیواریں اور کھڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔ جب کہ ایک میڈیکل کمپلیکس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

کابل میں حالیہ ہفتوں کے دوران ہونے والے حملوں میں، جن میں تعلیمی اداروں پر ہونے والے دو حملے بھی شامل ہیں، لگ بھگ 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق کابل میں حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

افغان حکومت ان حملوں کا الزام طالبان پر لگاتی رہی ہے۔ جب کہ طالبان ان حملوں سے لا تعلقی کا اعلان کرتے رہے ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان کا کابل میں ہونے والے حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کابل کے دو تعلیمی اداروں پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم ‘داعش’ نے قبول کی تھی۔ تاہم افغان حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں طالبان کا حقانی نیٹ ورک شامل تھا۔

امریکی وزیر خارجہ کا دورہ قطر

طالبان اور افغان مذاکرات کاروں کے درمیان رواں سال ستمبر سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات جاری ہیں۔ تاہم ان میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ جب کہ افغانستان میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

'امن مذاکرات میں تعطل کی وجہ طالبان کا سخت مؤقف'

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا جمعے کو کہنا تھا کہ اس ضمن میں اگلے چند دنوں میں پیش رفت متوقع ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کاروں سے ملاقات کریں گے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں نائین الیون حملوں کے بعد سے افغانستان میں جاری جنگ ختم کرنے کے بارے میں متعدد بار بیان دے چکے ہیں۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات میں غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج میں اکثریت حاصل کرنے والے ڈیمو کریٹک امیدوار جو بائیڈن بھی اس نکتے پر اپنے حریف صدر ٹرمپ سے متفق ہیں۔ تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ جو بائیڈن افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا میں اتنی جلدی نہیں کریں گے۔

اس ہفتے کے اوائل میں پینٹاگون کا کہنا تھا کہ لگ بھگ دو ہزار امریکی فوجی افغانستان سے جلد نکال لیے جائیں گے۔

افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے اس ہفتے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران طالبان نے 53 خود کش حملے اور ایک ہزار 250 دھماکے کیے ہیں۔ جن میں ایک ہزار 210 عام شہری ہلاک اور دو ہزار 500 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ہفتے کی صبح دو چھوٹے دھماکے بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ جن میں ایک حملہ پولیس کی گاڑی پر کیا گیا۔ جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ

یاد رہے کہ افغانستان میں امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا۔

نائن الیون سے افغان امن معاہدے تک: کب، کیا ہوا؟

اس معاہدے میں افغان حکومت تو شامل نہیں تھی البتہ اس میں افغان حکومت اور طالبان کے قیدیوں کے تبادلے کے علاوہ بین الافغان مذاکرات، آئندہ برس کے وسط تک غیر ملکی افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا، طالبان کی اس عرصے کے دوران غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے کی ضمانت اور افغانستان میں افہام و تفہیم سے نئی حکومت کے قیام سمیت دیگر نکات شامل تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa