امیر تیمور کی داستان حیات


وہ ایک بے رحم قاتل اوربدنام زمانہ فاتح تھا، اس نے لاکھوں انسانوں کو قتل کر کے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ وہ دشمن کو قتل کر کے خوش ہوتا تھا۔ وہ وحشی فاتح ایک ٹانگ سے لنگڑا بھی تھا۔ آخری عمر میں اس پر چنگیز خان کی طرح چین فتح کرنے کا خبط سوار تھا۔ اسی لئے اس نے چین پر فوجی حملہ کیا اور مارا گیا۔ دنیا کے بدنام زمانہ فاتحین میں سکندر اعظم، جولیس سیزر، ہمنی بال، بسمارک، ہٹلر، بایزید یلدرم، چنگیز خان، شمار کیے جاتے ہیں لیکن جب حقائق اور فتوحات کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے تو ان تمام میں وہ سر فہرست اور حقیقی معنیٰ میں دنیا کا بدنام زمانہ فاتح قرار پاتا ہے۔

سکندر اعظم اور چنگیزخان کو اپنے سے کم تر طاقتوں سے مقابلہ کرنا پڑا، لیکن جس فاتح کی کہانی آپ پڑھنے جا رہے رہے ہیں اس نے ہمیشہ خود سے کئی گنا بڑی فوج اور مملکت کو شرم ناک شکست سے دوچار کیا۔ اس کی تقریباً ساری زندگی قتل و غارت میں گزری۔ جی ہاں آج کی تحریر میں ہم امیر تیمور کی کہانی سنانے جا رہے ہیں۔ امیر تیمور سمرقند کے قریب ایک گاؤں ”کیش“ میں برلاس قبیلے میں 1336 میں پیدا ہوا۔ امیر تیمور ترک قبیلے برلاس کا چنگیز خان کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔

اس کے والدین معمولی درجے کے زمیندار تھے۔ امیر تیمور نے اپنی زندگی میں بیالیس ملک فتح کیے اور لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ امیر تیمور کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے جنگ میں انسانوں کا قتل عام کرتا تھا۔ وہ ایک ہاتھ میں تلوار اٹھاتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑا۔ تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔

اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک پورے 37 سال جاری رہا۔ تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے کو قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ وہ 776 ہ میں کاشغر اور 781 ہ میں خوارزم پر قابض ہوا۔ اس کے بعد اس نے خراسان کا رخ کیا۔ 1381 ء بمطابق 783 ہ میں ہرات کے خاندان کرت کو اطاعت پر مجبور کیا۔ اگلے سال نیشاپور اور اس کے نواح پر اور 785 ہ میں قندھار اور سیستان پر قبضہ کیا۔ 1386 ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا۔

اس مہم کے دوران وہ پورے شمالی ایران پر قابض ہو گیا۔ تیمور نے 1392 ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا اس مہم کے دوران میں اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور اس کے بعد بغداد اور عراق پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح امیر تیمور پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔ 1398 ء میں امیرتیمور ہندوستان کو فتح کرنے نکلا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا دسمبر 1398 ء میں وہ دہلی پہنچا۔

اس وقت دہلی کے شاہ نصیرالدین محمود تغلق کے پاس ہاتھیوں کی ایک بڑی اور مضبوط فوج تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی ٹک نہیں پاتا تھا۔ ساتھ ہی دہلی کی فوج بھی کافی بڑی تھی۔ دلی فتح کرنے کے لئے راستے میں امیر تیمور نے اسپندی نام کے ایک گاؤں کے پاس پڑاؤ ڈالا۔ یہاں تیمور نے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے تمام لوگوں کو لوٹ لیا گیا۔ اس کے بعد تمام ہندوؤں کو قتل کر دیا گیا۔ پاس میں ہی تغلق پور میں پارسیوں کی آبادی تھی۔

یہ لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے۔ تیمور لنگ کے حکم پر پارسیوں کے سارے گھر جلا ڈالے گئے اور پارسیوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس کے بعد پھر تیمور کی فوج نے پانی پت کا رخ کیا۔ امیر تیمور کے خون خرابے کی خبر سن کر پانی پت کے لوگ پہلے ہی شہر چھوڑ کر دہلی کی طرف فرار ہو گئے تھے۔ پانی پت پہنچ کر تیمور نے شہر کو تہس نہس کرنے کا حکم دے دیا۔ راستے میں لونی کے قلعے سے راجپوتوں نے تیمور کو روکنے کی ناکام کوشش کی۔ اب تک تیمور کے پاس تقریباً ایک لاکھ ہندو قیدی تھے۔

دہلی پر چڑھائی کرنے سے قبل اس نے ان سب کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اس نے یہ بھی حکم صادر کیا کہ اگر کوئی فوجی بے قصور لوگوں کو قتل کرنے سے ہچکچائے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے۔ اگلے دن ہی دہلی پر حملہ کر کے نصیرالدین محمود تغلق کو آسانی سے شکست دے دی۔ محمود ڈر کر دہلی چھوڑ کر جنگلوں میں جا چھپا۔ دہلی پر فتح کے بعد جشن مناتے ہوئے منگولوں نے کچھ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو لوگوں نے مخالفت کی۔ اس کے رد عمل میں تیمور نے دہلی کے تمام ہندوؤں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرنے کا حکم دیا۔ چار دن میں سارا شہر خون سے لت پت ہو گیا۔

دہلی کو فتح کرنے اور وہاں قتل عام کرنے کے بعد وہ میرٹھ گیا اور وہاں دریائے جمنا کی بالائی وادی میں ہندوؤں کے مقدس مقام ہردوار میں لوگوں کا یہ سمجھ کر قتل عام کیا کہ کافروں کو مار کر ثواب کمایا جا رہا ہے

1399 ء میں تیمور سمرقند سے اپنی آخری اور طویل ترین مہم پر روانہ ہوا۔ تبریز پہنچ کر اس نے سلطان مصر کے پاس سفیر بھیجے جن کو قتل کر دیا گیا چنانچہ تیمور سلطان مصر کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ حلب، حماہ، حمص اور بعلبک فتح کرتا ہوا دمشق پہنچا اور حسب دستور لوگوں کا قتل عام کیا اور شہر میں آگ لگادی۔ اس دوران میں سلطان بایزید یلدرم نے ایشیائے کوچک میں تیموری علاقوں پر حملہ کر دیا۔ تیمور نے اختلافات کو خط و کتابت کے ذریعے حل کرنا چاہا لیکن جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو اس نے سلطان بایزید یلدرم کی سلطنت عثمانیہ پر لشکر کشی کردی۔

امیر تیمورنے ہزاروں سپاہیوں کو زندہ دفن کر دیا۔ سلطان بایزید یلدرم اس وقت قسطنطنیہ (استنبول) کے محاصرے میں مصروف تھا۔ تیمور کے حملے کی اطلاع ملی تو محاصرہ اٹھاکر فوراً اناطولیہ کی طرف روانہ ہوا۔ انقرہ کے قریب 21 جولائی 1402 ء کو دونوں کے درمیان میں فیصلہ کن جنگ ہوئی جو جنگ انقرہ کے نام سے مشہور ہے۔ بایزید کو شکست ہوئی اور وہ گرفتار کر لیا گیا لیکن تیمور اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا۔

سمرقند واپس آنے کے بعد تیمور نے چین پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں۔ چین ایک زمانے میں چنگیز خان کی اولاد کے قبضے میں رہ چکا تھا اس لیے تیمور چین پر بھی اپنا حق سمجھتا تھا۔ چین میں سردیاں شباب پر تھیں اور تیمور بوڑھا تھا اوپر سے وہ شدید بیمار بھی۔ اسی دوران اس کی موت ہو گئی۔ 18 فروری 1405 کو وہ چین کے دریائے سیحون کے کنارے شدید سردی کے عالم میں سکتے کی حالت میں ستر ( 70 ) سال کی عمر میں مر گیا۔ امیر تیمور کی بحیثیت ایک سپہ سالار حیرت انگیز صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس نے اس خداداد صلاحیت سے جو کام لیا وہ اسلامی روح کے خلاف تھا۔

اس کی ساری فتوحات کا مقصد ذاتی شہرت اور ناموری کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس لحاظ سے وہ خالد بن ولید، محمود غزنوی، طغرل اور صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ انتقام کے معاملے میں بہت سخت تھا۔ مخالفت برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ مسلمان ہونے کے باوجود خونریزی اور سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان سے کم نہیں تھا۔ دہلی، اصفہان، بغداد اور دمشق میں اس نے جو قتل عام کیے ان میں ہزاروں بے گناہ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ وہ انتقام کی شدت میں شہر کے شہر ڈھادیتا تھا۔ خوارزم، بغداد اور سرائے کے ساتھ اس نے یہی کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں منگولوں کی طرح وہ بھی اللہ کا عذاب تھا۔

امیر تیمور کسی شاہی خاندان کا رکن نہیں تھا لیکن اپنی ذات سے البتہ وہ ایک شاہی خاندان کی بنیاد ڈال گیا۔ غارت گر تھا۔ ڈھانے اور گرانے والا تھا۔ مگر جب بنانے کی طرف راغب ہوا تو بے مثل عمارتیں اس نے تعمیر کرائیں۔ سکندر کی طرح کسی بادشاہ کا لڑکا نہیں تھا اور نہ چنگیز کی طرح کسی لاؤ لشکر والے کا وارث۔ امیر تیمور کے بارے میں مورخین کے دو گرہ ہیں۔ ایک گروہ نے اس کو شیطان کہا اور دوسرے گروہ کے مطابق اس جیسا عالی مقام اورعالی ظرف کبھی پیدا نہیں ہوا۔ ایک گروہ کے ممطابق وہ ایک بے رحم قاتل، مکرو فریب میں استاد کامل اور عداوت و انتقام میں خدا کا قہر تھا۔ جبکہ دوسرے گروہ کے مطابق امیر تیمورہمت و شجاعت میں یکتا تھا۔ اسی لئے سارے ایشیا نے اس کے سامنے سر جھکایا۔

تیمور اگرچہ دنیا کے بڑے لڑنے والوں میں بہت بڑا درجہ رکھتا ہے، لیکن بادشاہوں میں وہ بدترین بادشاہ تھا۔ لائق، بہادر تھا، فیاض تھا، لیکن شہرت کا خواہاں، سخت گیر اور ظالم تھا۔ اسی وجہ سے امیر تیمور کی سلطنت اس کی موت کے ساتھ ہی مٹ گئی۔

آثارقدیمہ کی ایک ٹیم نے سمرقند میں تیمور لنگ کی قبرکشائی کی تھی جس پر معلوم ہوا کہ تیمور لنگ ’لنگڑا‘ تھا۔ جوانی میں ایک جنگ میں وہ شدید زخمی ہوا اور دائیں پیر سے لنگڑانے لگا اسی وجہ سے اس کا نام تیمور لنگ پڑگیا۔ مغربی ممالک میں اسے اسی نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کا مشہور ترین بادشاہ جس کی قبر پر لکھی تحریر میں اسے کھولنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود قبر کھولی گئی تو اس دن کیا ہوا؟ ایسی داستان کہ جان کر آپ کے لئے بھی یقین کرنا مشکل ہو جائے گا۔

امیر تیمور کے مزار پر تحریر تھا کہ ”جب میرے مردہ جسم کو اٹھایا جائے گا تو زمین کانپ اٹھے گی۔“ اس تحریر کو نظرانداز کرتے ہوئے 1941 ء میں روس کے 2 ماہرین علم بشریات نے امیر تیمور کی قبر کشائی کر ڈالی۔ تاریخ دانوں کے مطابق اندر ایک اور تحریر ملی جو کچھ یوں تھی ”جو شخص میری قبر کو کھولے گا وہ مجھ سے بھی خوفناک حملہ آور کوکھول دے گا۔“ جس روز دونوں ماہرین نے امیر تیمور کی قبرکشائی کی اسی روز جرمنی کے ایڈولف ہٹلر نے روس پر تاریخ کا سب سے بڑا فوجی حملہ کر دیا۔

ماہرین نے نومبر 1942 ء میں امیر تیمور کی باقیات کو دوبارہ اسلامی طریقے سے دفنا دیا اور اس کے کچھ ہی دن بعد روس کو ہٹلر کے مقابلے میں فتح مل گئی۔ امیر تیمور کی باقیات کے تجزیے سے ثابت کیا کہ وہ لنگڑا تھا۔ اس کا دایاں بازو بھی زخموں کی وجہ سے شل اور کمزور ہو چکا تھا اور دائیں ران کی ہڈی براہ راست گھٹنے کی ہڈی سے جڑی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی ٹانگ کو سیدھا نہیں کر سکتا تھا۔ ماہرین نے امیرتیمور کی کھوپڑی اور چہرے کی ہڈیوں سے اس کے چہرے مہرے اور شکل و شباہت کا بھی اندازہ لگایا۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ امیر تیمورکی وضح قطع منگول نسل جیسی تھی۔ وہ جنوبی سائبیریا کے منگولوں کی طرح نظر آتا تھا۔

تاریخ میں دو سلطنتیں تیموری سلطنت کہلاتی ہیں جن میں سے پہلی امیر تیمور نے وسط ایشیا اور ایران میں تیموری سلطنت کے نام سے قائم کی جبکہ دوسری ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے نام سے قائم کی۔ جب تیمور نے ایران فتح کیا تو اس نے فارسی کے مشہور شاعر حافظ شیرازی کو بلایا اور ان کا ایک شعر دہرا کر پوچھا کہ کیا یہ آپ ہی نے کہا تھا کہ میں اپنے محبوب کے رخسار پر خوبصورت تل کے عوض ثمرقند اور بخارا کو قربان کر دوں گا؟

جواب میں حافظ شیرازی نے کہا ”ہاں اے شاہ شاہاں! یہ شعر میرا ہی ہے“ ۔ امیر تیمور نے فارسی کے اس عظیم شاعر کو کہا کہ میں نے تو تلوار کے زور پر بڑی مشکل سے ثمرقند کو فتح کیا تھا اور اس کے بعد شہر پر شہر فتح کر رہا ہوں مگر تم تو اس ثمرقند کو شیراز کی کسی معمولی چھوکری کے رخسار پر تل کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار ہو؟ حافظ چند لمحے خاموش رہے پھر مسکرا کر بولے ”اے امیر! ایسی ہی غلطیوں کی وجہ سے آج افلاس کا شکار ہوں“ ۔

حافظ کی حاضر جوابی پر تیمور ہنس دیا اور شاعر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کر دیا۔ تیمور صرف ایک فاتح نہیں تھا بلکہ علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والا انسان تھا۔ ایران کو فتح کرنے سے قبل اسے ایران کے شاعر حافظ شیرازی کے بہت سے اشعار یاد تھے۔ وہ خوشامدیوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے کے بجائے اکثر اوقات ابن خلدون کے ساتھ بحث مباحثہ کرتا تھا۔ امیر تیمور کی اپنی خود نوشت ”تزک تیموری“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کتاب میں تیمور نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کی جنگ و جدل کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت محمدی ﷺ کو فروغ دینا تھا۔ اس دعوے سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے کیونکہ تیمور نے بہت سی جنگیں مسلمانوں کے خلاف لڑیں اور ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا۔ اس کتاب کے اندر تیمور نے اپنے تجربے کی روشنی میں حکمرانی کے کچھ اصول اور آداب بیان کیے ہیں، جو آج کے حکمرانوں کے لئے قابل غور ہیں۔

”تزک تیموری“ میں کہا گیا ہے کہ اچھے حکمران کو ہمیشہ مشاورت اور دور اندیشی سے کام لینا چاہیے۔ دوستوں اور دشمنوں ’دونوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ نرمی، درگزر اور صبر و تحمل کو شعار بنانا چاہیے۔ تیمور نے لکھا کہ جو لوگ میرے وفادار رہے اور مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑے رہے میں نے ہمیشہ ان کی خواہشات کا احترام کیا۔ میں نے عوام کو عدل و انصاف دیا۔ نہ تو عوام کے ساتھ زیادہ سختی کی کہ وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں نہ انہیں اتنی آزادی دی کہ وہ بے قابو ہو جائیں۔

تیمور نے لکھا کہ میں نے ہمیشہ مظلوم کی مدد کی اور ظالم کو سزا دی۔ تیمور نے ان لوگوں کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے ہمیشہ اس کے ساتھ بدعہدیاں کیں۔ تیمور لکھتا ہے کہ میں نے ہمیشہ علماء اور مشائخ کو اپنے قریب رکھا۔ میں شریر اور بدنفس لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ اپنی رعایا کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ تیمور نے بار بار لکھا کہ جس نے میرے ساتھ احسان کیا میں نے اس کا بدلہ ضرور چکایا۔ تیمور نے ایک اہم بات لکھی کہ میں دشمن کی فوج کے ایسے سپاہیوں کی بڑی قدر کرتا تھا جو اپنے آقا کے ساتھ وفادار رہتے۔

اس کے برعکس جو سپاہی اپنے آقا کو دھوکہ دے کر میرے پاس آ جاتے تو میں انہیں اپنا بدترین دشمن سمجھتا تھا۔ تیمور نے لکھا ہے کہ ایک اچھے حکمران کا قول اس کے فعل کے مطابق ہونا چاہیے، وہ جو قانون دوسروں پر نافذ کرے اس کا خود بھی احترام کرے۔ اچھے حکمران کو مستقل مزاج ہونا چاہیے۔ وہ اپنے وزیروں کی کہی ہوئی باتوں کو آنکھیں بند کر کے تسلیم نہ کرے بلکہ ان کی تفتیش کرے۔ اچھے حکمران کو کانوں کا کچا نہیں ہونا چاہیے۔

”تزک تیموری“ میں امیر تیمور کہتا ہے کہ اچھے حکمران کو ایسے افراد کو وزیر بنانا چاہیے جو امور حکومت نیکی اور حسن سلوک سے چلائیں، نفاق کی باتیں نہ کریں، نہ کسی کو برا کہیں نہ کسی کی برائی سنیں۔ امیر تیمور ایسے وزیروں کو فارغ کر دیتا تھا جو زیادہ وقت دوسروں کی برائی کرتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ کینہ پرور، حاسد اور غصیلا آدمی اگر وزیر ہو گا تو وہ کسی بھی وقت دشمن سے سازباز کر سکتا ہے لہٰذا نیک لوگوں کو وزیر بنانا چاہیے تاکہ خلق خدا کو فائدہ ہو۔

امیر تیمور کو مولانا رومی کی شاعری پسند نہیں تھی اور وہ مولانا رومی کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلانا چاہتا تھا۔ معروف مصنف ہیرالڈ لیم نے اسے آخری فاتح عالم قرار دیا ہے۔ اس کی زندگی گھوڑے کی پیٹھ پر بسر ہوئی اور آدھی دنیا کے لشکروں کو یک بعد دیگرے مغلوب کیا اور اپنی سلطنت وسطی ایشیا سے افغانستان، ہندوستان، فارس، بغداد و دمشق، انقرہ اور آرمینیا تک وسیع کی۔ خراسان کے شہر سبز وار پر جب فتح پائی تو ڈیڑھ لاکھ کھوپڑیوں کا مینار بنوایا تاکہ دنیا جان لے کہ اس کے آگے سر اٹھانے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔

تیمور کی زندگی ایک خواب سے شروع ہوتی ہے اور ایک خواب پر ہی ختم ہوتی ہے۔ سمرقند پر و بخارا پر تصرف حاصل کرنے کے بعد امیر تیمور نے ایک حیرت انگیز خواب دیکھا جس میں اسے آسمان میں معلق ایک سیڑھی پر چڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے جب وہ کئی زینے اوپر چڑھ چکا ہوتا ہے تو ایک غیبی آواز آتی ہے، کیا تو جانتا ہے کہ تو نے کتنے زینے طے کر لیے ہیں؟‘

تیمور نے جواب دیا، ’نہیں۔‘ پھر آواز آئی، ’تو جتنے زینے چڑھ آیا ہے یہ تیری زندگی کے شب و روز ہیں۔ البتہ تو جب تک زندہ رہے گا اوپر ہی جائے گا کبھی نیچے نہیں آئے گا، لہٰذا ایک نصیحت یاد رکھ کہ ہمیشہ دانشوروں، علما، صنعت کاروں اور شاعروں کا لحاظ رکھ، انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھ، چاہے وہ تیرے مخالف ہی کیوں نہ ہوں اور ایسے لوگوں کو ہرگز تکلیف نہ پہنچا، خواہ وہ تیرے دین کو نہ مانتے ہوں۔‘ تیمور نے اس نصیحت پر عمل کیا وہ جس شہر کو تاراج کرتا وہاں لاشوں کے انبار لگا دیتا لیکن وہاں کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے گھروں کو جائے امان قرار دے دیتا۔

ایک جگہ لکھتا ہے کہ ’میں مثنوی پڑھنے کے بعد مولانا روم سے متنفر ہو گیا کیونکہ مولانا روم تمام مذاہب کو احترام دیتا تھا اور کسی مذہب کو کسی دوسرے پر فوقیت نہیں دیتا تھا جبکہ میرا عقیدہ تھا کہ اسلام بقیہ تمام مذاہب سے برتر اور اعلی ٰ ہے۔ جب میں قونیہ میں داخل ہوا تو میرے ساتھیوں نے کہا کہ میں مولانا روم کی قبر ڈھا دوں اور ا س کی ہڈیاں قبر سے باہر نکال دوں لیکن میں نے اپنے آپ سے کہا،‘ تیمور ایک مردے کے ساتھ لڑائی بری بات ہے اور میں مولوی کی قبر ڈھا کر خود کو رسوا نہیں کروں گا۔

’تیمور نے اپنی فتوحات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ مفتوحہ ممالک کا بڑا حصہ ایسا تھا جس کواس نے اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ نہیں بنایا۔ ان ملکوں کا وہ مقامی حکمرانوں کے سپرد کردیتا تھا اور ان سے صرف اطاعت کا وعدہ لے کر مطمئن ہوجاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایشیائے کوچک، شام، روس اور ہندوستان کے وسیع مفتوحہ علاقے جو بڑی خونریزی کے بعد حاصل ہوئے تھے تیموری سلطنت کا حصہ نہ بن سکے۔

اگر وہ ان ملکوں کو اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ بنالیتا تو دنیا کی ایک عظیم الشان سلطنت وجود میں آتی۔ اس معاملے میں چنگیز اور منگول تیمور سے بہتر تھے کہ وہ جس علاقے کو فتح کرتے تھے اس کو براہ راست اپنے زیر انتظام بھی لے آتے تھے۔ اسلامی تاریخ میں تیمور کا دور ایک بدنما دھبہ ہے۔ اس دور میں دنیا کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تیمور کو مناسب اسلامی تربیت نہیں ملی تھی اور اس کی نشو و نما وحشی منگول ماحول میں ہوئی تھی۔

بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جس علاقے میں تیمور نے اپنی مستقل حکومت قائم کی وہاں اس نے قیام امن اور عدل و انصاف، خوشحالی اور ترقی کے سلسلے میں قابل قدر کوششیں کی۔ برباد شدہ شہروں کو دوبارہ تعمیر کیا اور تجارت کو فروغ دیا۔ مشہور مورخ ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے جس وقت سمرقند پر تیمور کا تسلط ہوا وہاں سوائے کچھ کچی اینٹوں اور لکڑی مکانوں کے کچھ اور نہ تھا مگر یہی کچی اینٹوں اور لکڑی کا شہر تیمور کے ہاتھوں میں آ کر ایشیا کا روم بن گیا۔

وہ ہر مفتوحہ علاقے سے صناعوں، دستکاروں، فنکاروں، عالموں اور ادیبوں کو پکڑ پکڑ کر سمرقند لے آیا اور اپنے دار الحکومت کو نہ صرف شاندار عمارتوں کا شہر بنا دیا بلکہ علم وادب کا مرکز بھی بنا دیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کی اولاد نے اس کی روایات کو اپنایا جس کی بدولت وسط ایشیا کے تیموری دور کو تاریخ میں ایک ممتاز مقام مل گیا۔ تیمور نے سمرقند میں خوب ترقیاتی کام کیے ۔ چوڑی چوڑی سڑکیں تعمیر کرائیں۔ جنوب کے پہاڑوں پر قائم مکانات کو گرا کر قلعہ تعمیر کرایا۔ باغوں کے گرد دیواریں اور جابجا پانی کے تالاب بنوائے۔ مغل حکمران بابر جو تیمور کے انتقال کے ایک سو سال بعد اس وقت سمرقند پہنچا تو وہ یہ شہر دیکھ کر حیران رہ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).