پرائیویٹ اساتذہ کا وجود ہی مٹا ڈالئے


یہ ہمارے سماج کا وہ طبقہ ہے جو ”اپنی مدد آپ کے تحت“ کے اصول کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے نجی اسکول اور کوچنگ سینٹر چلاتے ہیں۔ یہ وہ سفید پوش طبقہ ہے جو حکومت اور سماج پر بوجھ بننے کی بجائے اپنے چھوٹے موٹے وسائل کے ساتھ ایک باعزت روزگار کمانے کی سعی کرتے ہوئے معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بے روزگاری کے اس طوفان میں یہ پرائیویٹ اساتذہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ اپنا اور اپنے خاندان کی کفالت کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔

یہ سماج کا وہ طبقہ ہے جو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنی بے روزگاری کا مداوا بڑے حوصلہ اور ہمت سے کرتا ہے۔ کرونا کی خوفناک لہر نے جہاں معاشرے کے دوسرے طبقات کو متاثر کیا ہے وہیں اس وبا نے اس سفید پوش طبقے کو بھی بری طرح سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ ہونے والے لاک ڈاؤن نے اس طبقے کو بہت برے طریقے سے متاثر کیا تھا۔ 6، 7 ماہ کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور کوچنگ سینٹرزبلڈنگ مالکان کو بروقت کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے اپنے ادارے مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

حالانکہ سرکاری فرمان کی روشنی میں بلڈنگ مالکان نے 3 ماہ کا کرایہ وصول نہیں کرنا تھا مگر اس فیصلے پر کوئی عمل درآمد نہ ہوسکا، لاتعداد سکولز اور اکیڈمیز کرایہ افورڈ نہ کرنے کی وجہ سے بند ہو گئیں اور بے شمار اساتذہ فاقوں پر مجبور ہو گئے۔ ابھی پچھلے بدترین حالات کے آفٹر شاکس سے باہر نکل نہیں پائے تھے کہ اچانک ایک نیا شاہی فرمان جاری ہو گیا۔ جس کے مطابق 26 نومبر سے 10 جنوری تک تمام تعلیمی ادارے بند کیے جا رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پرائیویٹ اساتذہ جن میں خواتین کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے وہ اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے کیا کریں؟ خواتین ٹیچر جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے محض 6، 7 ہزار کے عوض پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہیں ان کا کیا بنے گا؟ چلیں پیٹ کی آگ کو تو ایک طرف کر دیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ شوگر اور بلڈپریشر جو کہ عام پایا جاتا ہے اور ان ادویات کے بغیر زندگی بھی نہیں چل سکتی تو اندازہ کیجئے اس گمبھیر صورتحال میں یہ طبقہ کس طرح سے اپنی زندگی کے نظام کو چلا پائے گا؟

انہوں نے تو اپنے محدود وسائل کے ساتھ اپنے گھر کا چولہا جلانا ہوتا ہے اگر وہ بھی چھن جائے تو پھر یہ طبقہ کیا کرے؟ میں ایسے بے شمار پرائیویٹ اساتذہ کو جانتا ہوں جو اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے مختلف اداروں میں پڑھاتے ہیں اور ہوم ٹیوشن بھی پڑھاتے ہیں مگر اب کرونا وبا کی صورتحال کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان میں پہلے ہی جینا مشکل ہو چکا ہے اور رہی سہی کسر ریاست مدینہ کے دعویداروں کے احمقانہ فیصلوں نے پوری کر دی ہے۔

حالانکہ جتنا زیادہ SOPsکا خیال تعلیمی اداروں میں رکھا جاتا ہے کہیں اور بالکل بھی نہیں رکھا جاتا۔ مگر یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ کرونا صرف اور صرف تعلیمی اداروں میں ہی پایا جاتا ہے بازاروں اور جلسے جلوسوں میں نہیں پایا جاتا۔ کوئی بھی جامع میکنزم بنانے کی بجائے تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہمارا قومی فریضہ بن چکا ہے۔ خدا را ہوش کے ناخن لیجیے اور اپنے فیصلوں کو ری وزٹ کر کے کوئی جامع پالیسی تشکیل دیں اور ایک میکنزم بنا کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو چلنے دیں۔

پرائیویٹ ٹیچرز کوئی سرکاری ملازم نہیں ہوتے کہ انہیں گھر بیٹھے ان کی تنخواہ ملتی رہے گی۔ خدارا ان کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور مت کیجیے۔ انہیں چند ٹکے لائن میں کھڑا کر کے دینے کی بجائے ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے میں مدد کیجیے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پلیز ان پرائیویٹ اساتذہ کا گلا ہی گھونٹ دیجیے اور سارا معاملہ ایک ہی جھٹکے میں صاف کر دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).