شوکت عزیز کی گرفتاری اور ایف سی آر


مونا نصیر اور عابد خان وزیری

\"Monaفاٹا کی حیثیت ایک غریب اور پسماندہ کالونی کی سی ہے جسے جان بوجھ کر عسکریت پسندی کے زیر اثر رکھا گیا ہے۔ یہ اتنی آزاد اور خود مختار نہیں ہے جتنا اس کے حکمرانوں کے بیانیہ اور کتابوں میں پڑھنے سے لگتا ہے۔ یہ کافی حد تک حاکموں کے زیرِ اثر ہے۔ یہاں کے لوگ اس وقت انتہائی غیر انسانی قوانین کی تپتی دھوپ میں زندگی بتا رہے ہیں۔

ہماری نظر میں اس مقتدر اشرافیہ کے لئے کوئی عزت نہیں ہے جو ہمیشہ قبائلیوں کو انتہائی آزاد دکھاتے ہیں اس حقیقت کو بھلاتے ہوئے کہ قبائلیوں کو ایف سی آر کے اجتماعی ذمہ داری اور سزا جیسے قدیمی اور سخت قانون کی آگ میں جھونکا گیا ہے۔ اس میں کوئی آزادی اور سالمیت نہیں ہے۔

عسکریت پسندی اور پھر اس کے نتیجے میں ہونی والی قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائیوں کے باعث وہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد علاقہ بدر رہی ہے۔ 22 سے زائد فوجی آپریشن اس علاقے میں کئے گئے ہیں۔ تازہ ترین ضرب عضب ہے جس کی لاگت تقریبا ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر ہے۔

طویل جنگوں اور تنازعات کے باعث ریاست، حکومت اور فاٹا کے لوگوں نے اس ملحقہ علاقے کو پاکستان میں ضم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ اصلاحات کے ساتھ ساتھ حکومتی مشینری جیسے کہ پولیس، عدلیہ اور محتسب کے ساتھ ہی ایسا ممکن ہے۔

ان اصلاحات کی ضرورت اس لئے بھی محسوس کی گئی کیونکہ فاٹا کا قدیم اور فرسودہ نظام عسکریت پسندوں کے لئے زیادہ موزوں ہے۔

24 اپریل 1901 میں لاگو ہونے والا ایف سی آر بنیادی طور پر ایک ایسی دستاویز ہے جس کا تعلق برطانوی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت اور انتظام کے سے ہے۔

انسانی حقوق کے علمبرداروں اور انسانی عظمت پر یقین رکھنے والے خوددار لوگوں کی جانب سے اس قانون کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

\"abid-khan-waziri\"2016 میں خصوصی کمیٹی برائے فاٹا اصلاحات کی جانب سے دیئے جانے والے نتائج اور سفارشات کے بعد سے پریشان کرنے والے واقعات اور رجحانات سامنے آئے ہیں۔ بالواسطہ حکومت کا صدیوں پرانا قدیمی نظام اب پہلے سے زیادہ سرگرم ہے۔

اب اصل مسئلہ اس قائم نظام سے مستفیض ہونے والوں سے نبٹنے کا ہے جیسے کہ پولیٹیکل ایجنٹ کا دفتر، مَلَک، فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے لائے گئے نظام سے اور UNDP کی مالی معاونت سے بننے والی SAFRON وزارت۔ اگر فاٹا میں اصلاحات نافذ کی جاتی ہیں تو اوپر بیان کئے گئے تمام اداروں کا کردار بہت کم رہ جائے گا۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ تمام ادارے فاٹا اصلاحات کمیٹی کا حصہ ہیں، پیوستہ مفادات کے تحفظ سے زیادہ کسی کا فائدہ انہیں کیسے عزیز ہو سکتا ہے۔

ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی وزارت کی جانب سے 2 دسمبر کو بلایا گیا \”گرینڈ جرگہ\” ایسی ہی ایک مثال ہے۔ وزارت کی جانب سے تمام مَلَکوں کو بلایا گیا تھا جنہوں نے بغیر کسی بحث و مباحثے کے مکمل طور پر اصلاحات کو مسترد کرتے ہوئے فراہم کردہ دستاویزات کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ جب فاٹا اصلاحات پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود ہیں تو UNDP پاکستان کی معاونت سے چلنے والی SAFRON کو یہ سب کرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟

نوجوانوں،پڑھے لکھے طالبعلموں، وکیلوں اور فاٹا کی سول سوسائٹی پر مشتمل اصلاحات کے حامیوں اور مخالفین بشمول مَلَکوں اور ہیئت مقتدرہ کے درمیان تنازعات کھل کر سامنے آئے۔ طالب علموں اور وکیلوں نے \”گو ایف سی آر گو\” کے نعرے لگائے جس سے جرگہ بری طرح متاثر ہوا۔ خیبر پختونخوا کے گورنر اور پی ٹی آئی کے اسمبلی اسپیکر اسد قیصر تقریب سے خطاب کئے بغیر ہے چلے گئے اور فاٹا سیکرٹریٹ اور SAFRON کا عملہ مہمان مقررین کے جانے کے بعد چائے کے مزے لوٹتے رہے۔ سوشل میڈیا پر اس تقریب کی ویڈیو بڑی تعداد میں لوگوں کی جانب سے شیئر کی گئی۔ \’قبائلی بہار\’ ، فاٹا کے لوگوں کی بیداری اور جابرانہ نظام مقامی لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں جیسے تبصرے بھی پڑھنے کو ملے۔

SAFRON اور فاٹا سیکرٹیریٹ کی جانب سے کئے جانے والے اصلاحات مخالف اقدامات سے یہی تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فاٹا کے لوگوں کو ان تنظیموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے جانے میں ہی ان کی بہتری ہے۔

\"shaukat-aziz-go-fcr-go\"یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ریاست کے پاس فاٹا کو دینے کے لئے کیا ہے۔ اصلاحات کا مرحلہ بہت پیچیدہ بنا دیا گیا ہے، پانچ سال کے وقفے کا دورانیہ اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور حکومت کی جانب سے جاری دس سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی۔ یہ اپنے آپ میں اس جانب اشارہ ہے کہ آخر حکومت کو کتنی عجلت ہے اور ریاستی اداروں میں کتنی انسانیت باقی ہے۔ اس دورانیے مین ہیئت مقتدرہ نے اپنی بدصورتی کا کھل کے اظہار کر دیا ہے۔ فاٹا سیکرٹیریٹ اور دیگر دفاتر میں احتساب کی کمی کے باعث کرپشن فاٹا کے ناقابلِ حل مسائل میں سے ایک بن چکا ہے۔ یہ اس بات کی نشان دہی ہے کہ موجودہ انتظامی اور قانونی نظام کی موجودگی میں احتساب ناممکن ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ \”گو ایف آر سی گو\”، جس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ مجھے وکیل، جج اور قانونی معاونت کا حق چاہیئے، کا نعرہ بلند کرنے والے فاٹا سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے صدر شوکت عزیز کو ڈپٹی کمشنر پشاور نے گرفتار کر کے سنٹرل جیل پشاور منتقل کر دیا ہے۔

یہی وقت ہے کہ ضرب عضب کے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان سنجیدگی سے مناسب اقدامات اٹھائے ورنہ در بدر ہونے والوں اور مارے جانے والوں کی تمام قربانیاں ضائع ہوجائیں گی، پھر چاہے وہ وردی والے ہوں یا بغیر وردی والے۔

_______________________

یہ مضمون دی نیشن کے لئے مونا نصیر اور عابد خان وزیری نے لکھا اور \’ہم سب\’ کے لئے لائبہ زینب نے ترجمہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments