غربت کی ثقافت سے ثقافتی غربت تک


\"aliمیں جو لکھنا چاہتا ہوں اس کی طلب کم ہے یعنی پڑھتا کوئی نہیں جو نہیں لکھنا چاہتا سب وہی مانگتے ہیں، چٹکلے، لطیفے، جنسیات اور لغویات۔ بقول ظفر عمران کے آپ وہ نہیں پڑھتے، جسے لکھنے میں انتہائی محنت کی گئی ہو۔ ایک اور بے رنگ، پھیکی اور بدمزہ تحریر پر پیشگی معذرت۔

ثقافت کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت وجود میں نہیں آتی اور نہ ہی اس کی باقاعدہ پرورش کی جاتی ہے۔ لوگوں کے اپنے جغرافیائی حالات کے مطابق اپنے معاشی حقائق کے اندر رہن سہن اور جمالیاتی اظہاریے کو ہم ثقافت سمجھتے ہیں۔ موسم کے حساب سے اپنے دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے جسم کو ڈھانپنے اور اوڑھنے بچھونے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ خط استوا کے مرطوب موسم کے علاقوں میں لوگ کم کپڑوں مین زندگی گزارتے ہیں کیونکہ موسم کی یکسانیت اور نمی کی زیادتی کی وجہ سے زیادہ کپڑوں کی حاجت نہیں ہوتی۔ شمال اور جنوبی علاقوں کے لوگ زیادہ کپڑے اس لئے پہنتے ہیں کہ ان کو موسم کی سختی کا سامنا ہوتا ہے جو جسم کو مکمل ڈھانپے بغیر ممکن نہیں۔ یورپ میں رہنے والے لوگ کپاس اور اون سے کپڑے بنانے کے ہنر سے دیر سے واقف ہوئے تو وہ جانوروں کی کھالوں سے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنے سے قاصر رہے۔ برازیل کے امازون کے جنگلات میں آج بھی لوگ فطری انداز میں بغیر کپڑوں کے رہتے ہیں۔ جسم کے ڈھانپنے کا کوئی ایسا معیار نہیں کہ زیادہ کپڑے پہننے سے لوگ زیادہ عزت دار ہوں اور کم کپڑوں سے عزت میں کمی واقع ہو۔ جسم کتنا ڈھانپنا ہے اور کیا کیا ڈھانپنا ہے اس کا دارومدار انفرادی اور اجتماعی جمالیات، موسم کی ضرورت اور جغرافائی حقائق طے کرتے ہیں۔

یہی کچھ کھانے پینے کے عادات و اطوار ساتھ ہے۔ کسی علاقے کی پیداوار اور اس علاقے کی موسمی ضروریات کے مطابق کھانے پینے کی عادتیں اور روایتیں پیدا ہوئی ہیں۔ کہیں گوشت زیادہ کھایا گیا تو کہیں سبزیوں کا رواج ہوا۔ کہیں تازہ پھلوں کی روایت رہی تو کہیں خشک میوؤں کی۔ افریقہ میں رہنے والے اگر اپنی پروٹین کی ضرورتیں اپنے جانوروں کو مارے بغیر ہی جانوروں کے خون کو بار بار چوس کر پوری کرتے ہیں تو وہ خونخوار درندے نہیں ہیں بلکہ ان کے دستیاب وسائل کا تقاضا یہی ہے۔ نخلستان عرب میں نجد کی چھپکلیاں کھانے والوں کو یا افریقہ کے مگر مچھ کھانے والوں کو مشرق بعید کے لوگوں کا کیکڑے کھانا عجیب لگتا ہے مگر سب کی اپنی اپنی روایات ہیں جو اب ان کی ثقافت کہلاتی ہیں۔ انسان نے اپنے کھانے پینے کی روایات بھی اپنے موسمی تقاضوں اور دستیاب وسائل کے مطابق اختیار کی ہیں۔

موت، پیدائش اور شادی پر انسان نے خوشی، غم، خوف اور امید کا اظہار اپنی رہنے کی جگہ پر موجود خطرات اور امکانات کو مد نظر رکھ کر کیا جب تک حضرت انسان نے بیماریوں پر خود قدرت حاصل نہیں کی تھیں بچوں میں پیدائش کے بعد شرح اموات زیادہ تھیں تو اپنے نوزائیدہ بچوں کی دراز عمری کی خاطر دیوتاؤں اور خداؤں کی خوشنودی کے رسمیں اپنائی گئیں۔ شادی بیاہ کی رسمیں بھی ہر علاقے میں مختلف انداز میں لوگوں کی جاہ و حشمت کا مظہر ہوا کرتی ہیں۔ کہیں کھانے کھلانے کا مقابلہ ہے تو کہیں جہیز کے نام پر دولھا کی قیمت ادا کی جاتی ہے تو کہیں دلھن کی قیمت دی جاتی ہے۔ موت پر اپنے مرنے والے عزیز کی بعد از موت سفر کی منزل کا تعین بھی ثقافت کا حصہ ہے جس میں اپنے عقیدے کے مطابق رسموں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات یقینی ہوتی ہے کہ مرنے والے کے نام پر کچھ دان ضرور کیا جائے تاکہ اس کی مال و دولت کا بعد از موت بھی صاحب ثروت کو فائدہ پہنچے۔ یہ مرنے والے کی اپنے خوف کو کم کرنے کی کوشش ہوتی ہے کیونکہ انسان کو موت کے بعد کے حصے پر ابھی مکمل قدرت حاصل نہیں۔

موسمی حالات کا کاشت کی جانے والی فصلوں پر پڑنے والے اثرات کو بھی انسان آسمان پر بیٹھے دیوتاؤں اور خداؤں کی ناراضگی اور خوشنودی سے تعبیر کرتا تھا اور مختلف رسموں کے ذریعے ان خداؤں کی رضا و رغبت کے لئے انسان نے ابتدائی طور جو کاوشیں کیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ رسومات کی شکل اختیار کرتی گئیں اور پھر ثقافتی رنگ میں ڈھل گئیں یا شعور و آگاہی کے نور میں ماند پڑ گئیں۔ وقت پر بارش نہ ہونے اور زیادہ بارشوں سے فصلوں کی تباہی، فصلوں کے لگنے والے کیڑوں سمیت تمام آفات کا علاج صرف دیوتاؤں اور خداؤں کی خوشنودی میں ہی مضمر تھا۔ جوں جوں انسان نے اپنی علم اور حکمت سے ان آفات کا علاج دریافت کیا دیوتاؤں اور خداؤں کی خوشنودی کے لئے ادا کی جانے والی رسومات میں کمی آتی گئی یا پھر پرستش اور بندگی کے اطوار بدل گئے۔ آج سب سے زیادہ فصلیں اگانے والے ممالک میں ایسی رسمیں سب سے کم ادا کی جاتی ہیں کیونکہ ان ممالک میں سائنس نے انسانی وہم اور گمان کو تشخیص اور علاج میں بدل دیا ہے۔

ثقافت کا ایک رخ طاقت ور طبقے کی بالا دستی کا بھی ہے۔ معاشرے کے بالادست طبقات ان رسومات سے جو ثقافت کے درجے پر ادا کی جاتی ہیں کے ذریعے اپنی طاقت کی دھاک کمزور لوگوں پر بٹھا دیتے ہیں۔ قبائلی سردار، جاگیردار، مذہبی پیشوا، پروہت اور حاکم ان رسومات کی آڑ میں اپنی بالادستی کو قائم رکھتے ہیں۔ بالادستی کے وسیع پس منظر میں عورتوں پر مردوں کی بالا دستی بھی شامل ہے۔ عورت کی دیوداسی کے طور پر مندر میں پروہتون کے لئے جسم فروشی کے ذریعے سکے کمانے سے شوہر کی موت پر بیوی کی ستی ہونے تک تمام رسومات مردوں کی بالادستی اور عورتوں کی زیردستی پر منتج ہوتی ہیں۔

 وقت کے ساتھ نہ آگ کے پرستار آذر جمشید کی برکات رہیں اور نہ ہی یونان کے سورج دیوتا کی کرامات اور اور نہ سرسوتی کی لیکن لوگوں نے نوروز، نیو ائیر اور بیساکھی اور بسنت کے میلے کو اپنے ہی رنگ میں ڈھال کر دوام بخش دیا۔ ثقافتی تہوار عوامی رنگ میں ڈھل کر جب نکھر گئے تو ان کی حیثیت مذہبی سے زیادہ عوامی ہوئی اور ثقافتی گیت اور ناچ مزاحمت کی علامت بھی بن گئے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد نوروز کے جشن پر نئے مذہبی حاکموں کی جانب سے پابندی کو عوام نے یکسر مسترد کر دیا۔ آج بھی ایران میں نوروز اسی جوش و جزبے سے منایا جاتا ہے جو انقلاب سے پہلے تھا۔ پاکستان کے پنجاب میں مسلم لیگی حکمرانوں نے بسنت پر پابندی لگا کر دیکھ لی جو کامیاب نہ ہو پائی کیونکہ اب بسنت کوئی مذہبی تہوار نہیں بلکہ اس پر عوامی رنگ آچکا ہے۔

ثقافتی میلوں اور تہواروں میں گائے جانے والے مذہبی اور دعائیہ گیت وقت کے ساتھ ساتھ عوامی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ بادشاہوں اور پیشواؤں کی خوشنودی کے لئے گائے جانے والے گیت وقت کے ساتھ ساتھ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔ تاریخ عالم بتاتی ہے کہ نئے آنے والے مذاہب اور عقائد نے پرانے رسوم کی بھر پور مخالفت کی اور مٹانے کی کوشش کی مگر جو رسوم عوامی رنگ میں ڈھل چکی تھیں وہ جاری رہیں اور جو جبر کی بنیاد پر قائم کی گئیں تھیں بے نام و نشان ہوگیئں۔ بدلتی دنیا میں جب سائنس کے علوم انسان پر کائنات کے راز آشکار کر دیں گے تو انسان اپنی پہچان اپنے فرسودہ ہوتے عقائد میں نہیں ڈھونڈسکے گا بلکہ اپنی شناخت کے لئے خود کو اپنی ثقافت اور تہذیب سے جوڑنے کی کوشش کرے گا۔ ایسے میں صدیوں پرانی ثقافتی اقدار کو بھی نئے زمانوں کے بدلتے اسلوب سے ہم آہنگ ہو نا ہوگا۔ ورنہ وہ جامد مذہبی عقائد کی طرح مفقود ہو جائیں گے۔

ثقافتی ورثہ انسان کو اپنے جغرافیائی، معاشی اور معاشرتی حقائق کے اندر جینے کے لئے توانائی دیتا ہے۔ ثقافت کو نہ تو ایک عقیدے کی طرح جامد کرکے بندشیں لگانی چاہئیں اور نہ اس کو مکمل طور مٹا کر پہچان کی بنیاد کو ختم کرنا چاہیے۔ آنے والے وقتوں میں عالمگیریت کے عفریت کے مدِ مقابل جب قوموں اور انسانی نسلوں میں بقا کے بعد پہچان کے بحران کا سامنا ہوگا تو یہ ثقافتی ورثہ ہی شناخت کا ذریعہ بن جائے گا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments