ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔


وہ نہ اہل تشیع کا تھا اور نہ اہل سنت کا۔ وہ مسلمانان ہند کا مشترکہ سرمایہ تھا۔ اس کی حیثیت قوم کے سرپرست اعلی کی تھی۔ ’اتحاد امت‘ اس کے لیے ایک نعرہ محض نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی کانفرنس کا موضوع اور نہ کسی جلسے کے بینر کی جلی خط میں تحریر محض تھی بلکہ وہ اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ موجودہ ہندستان میں وہ اتحاد امت کا سب سے بڑا موئد تھا اور زندگی بھر اس کے لئے سرگرداں رہا۔ مسلکی موشگافیوں سے بے نیاز اتحاد امت کی بہت سادہ سی تدبیر اس نے تلاش کر لی تھی جو اکبر الہ آبادی کے شعر کی شکل میں یوں ہمیشہ اس کے لب پر آجاتی۔

اکبر کا کیش و مسلک کیا پوچھتی ہو منی
شیعہ کے ساتھ شیعہ، سنی کے ساتھ سنی

اس کی حیثیت ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک سائبان کی تھی۔ وہ ایک شجر سایہ دار تھا جس کے سائے میں ہندستانی مسلمانوں کا سواد اعظم سکون قلب اور راحت جان حاصل کرتا تھا۔

وہ ایک ناصح بھی تھا اور ایک با عمل واعظ بھی۔ اس کی باتوں میں تاثیر تھی۔ ہر طبقے میں اس کی بات بڑے غور سے سنی جاتی تھی۔ اس کے ہر ایک لفظ میں جادو تھا۔ وہ لمبی لمبی اکتا جانے والی تقریریں نہیں کرتا تھا۔ بلکہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں کمال مہارت سے اپنی باتیں رکھنے کے فن سے واقف تھا۔ اسے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر آتا تھا۔ اس کی باتیں دل پر تیر کی طرح اثر کرتی تھیں۔ وہ ایک با عمل انسان تھا۔ جس کی تبلیغ کرتا تھا خود اس پر عمل کرتا تھا۔

وہ ایک ایسا عالم دین تھا جو مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم کے حصول کو زندگی کی معراج قرار دیتا تھا۔ اس نے قوم کی تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے عملی اقدامات کیے اور کئی تعلیمی اداروں کا قیام کیا۔

وہ ایک ایسا گوہر کمیاب تھا جس کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہے گی۔ بقول شاعر:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
*کنوینر، انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، مشرق وسطیٰ شاخ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).