کورونا وائرس: انڈیا میں ایک ارب لوگوں کو کس طرح ویکسین دیں گے؟


انڈیا
جب ویکسین بنانے کی بات آتی ہے تو انڈیا اس معاملے میں ایک پاور ہاؤس ہے۔ یہ حفاظتی ٹیکوں کا ایک وسیع پروگرام چلاتا ہے، دنیا کی 60 فیصد ویکسین بناتا ہے اور اس ملک میں دنیا کے نصف درجن بڑے مینوفیکچررز رہتے ہیں جن میں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا بھی شامل ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین بنانے والا ادارہ ہے۔

ایسے میں تعجب کی بات نہیں کہ جب کووڈ 19 کے خلاف ایک ارب افراد کو قطرے پلانے کی بات کی جاتی ہے تو اس میں عزائم کی کمی نظر نہیں آتی ہے۔

انڈیا کا اس کے تحت 50 کروڑ خوراکیں حاصل کرنے کا منصوبہ ہے اور اگلے سال جولائی تک تقریباً 25 کروڑ لوگوں کو حفاظتی ٹیکہ لگانا چاہتا ہے۔

اس اعتماد کو ہر سال بڑی تعداد میں لوگوں کو ٹیکہ لگانے کے ریکارڈ سے تقویت ملتی ہے۔

انڈیا کا 42 سالہ پرانا حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام دنیا کے سب سے بڑے صحت کے پروگرامز میں سے ایک ہے جس میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد کو سالانہ دوا دی جاتی ہے۔

خاص طور پر نومولود اور حاملہ خواتین کو ہر سال تقریباً ایک درجن بیماریوں کے خلاف 390 ملین ویکسین کی مفت خوراک دی جاتی ہے۔

INDIA

ملک میں ان ویکسینز کو سٹاک کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کا بھی ایک قابل عمل الیکٹرانک نظام موجود ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے خلاف پہلی بار بالغ افراد سمیت ایک ارب افراد کو ٹیکے لگانا ایک مشکل اور غیر معمولی چیلینج ثابت ہوگا۔

انڈیا میں 30 ویکسین تیار کی جا رہی ہیں جن میں سے پانچ کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے میں ہیں۔ ان میں آکسفورڈ – ایسٹرا زینیکا ویکسین شامل ہے جس کا تجربہ سیرم کے ذریعہ کیا جارہا ہے اور ایک دیسی سطح پر تیار کیا جانے والا ٹیکہ بائیو ٹیک کے ذریعہ تیار کیا جارہا ہے۔

انڈیا کے محکمہ بائیو ٹیکنالوجی کی سکریٹری ڈاکٹر رینو سوروپ نے بی بی سی کو بتایا: ‘گھریلو سطح پر تیار کی جانے والی ویکسین اولین ترجیح ہے۔’

انڈیا

مائیکرو بائیوولوجسٹ اور لندن کی رائل سوسائٹی میں منتخب ہونے والی پہلی انڈین فیلو خاتون ڈاکٹر گگندیپ کانگ کا کہنا ہے کہ مختلف ویکسین میں سے ویکسین کے انتخاب سے لے کر اس کی تقسیم 'ہر چیز ایک بڑا چیلنج ہوگی۔'

انھوں نے کہا: ‘ہم اس کی پیچیدگی کو کم سمجھ رہے ہیں۔ انڈیا کی نصف آبادی کو ویکسین دینے میں کم از کم دو سال لگ جائيں گے۔’

یہاں کچھ اہم چیلینجز پیش ہیں:

سپلائی چین اور رسد

انڈیا میں تقریبا 27 ہزار ‘کولڈ چین’ اسٹورز موجود ہیں جہاں سے ویکسین کا سٹاک 80 لاکھ سے زیادہ مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔ (تقریباً تمام ویکسینز کو دو سے آٹھ ڈگری سنیٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں رکھنا ہوتا جسے کولڈ چین کہتے ہیں) کیا اتنا کافی ہوگا؟

انڈیا کو خود کار طور پر غیر فعال سرنجوں کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ دوبارہ استعمال سے اور ممکنہ طور پر دوبار انفیکشن کے خطرے سے روکا جا سکے۔

ملک کی سب سے بڑی سرنج بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے اگلے سال تک اس طرح کی ایک ارب سرنج تیار کرے گی۔

پھر میڈیکل گلاس کی شیشیوں کی مستقل فراہمی کے بارے میں سوالات ہیں۔ اور اس بڑے پیمانے پر ٹیکے لگانے کی مہم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طبی کوڑے کی بڑی مقدار کو ضائع کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

انڈیا کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں لگ بھگ چالیس لاکھ ڈاکٹر اور نرسیں شامل ہیں لیکن انڈیا کو کووڈ ویکسین کے لیے مزید افرادی قوت کی ضرورت ہوگی۔

انڈیا کی معروف بائیو ٹیکنالوجی انٹرپرائز بائیوکون کے بانی کرن مزمدار شاہ نے بتایا: ‘مجھے اس بات کی فکر ہے کہ کیا ہم دیہی انڈیا تک [تمام وسائل کو پہنچا] سکتے ہیں؟’

ابتدائی طور پر کسے ٹیکے لگيں گے؟

INDIA

اگلے سال ویکسین کی فراہمی سخت ہو جائے گی اور یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو سب سے پہلے ٹیکے لگیں یہ معاملہ مشکل ہو گا۔

مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن کا کہنا ہے کہ نجی اور سرکاری صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور ‘دوسرے محکموں کے فرنٹ لائن ورکرز’ کو پہلے کووڈ کی خوراک دی جائے گی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آسان نہیں ہوگا۔

وبائی مرض کے ماہر ڈاکٹر چندرکانت لہریا نے کہا: ‘ہمیں کبھی بھی ویکسین کی کافی فراہمی نہیں ہوگی۔ کہیں خوراک دینی ہے اس کی ترجیحات قائم کرنا ایک خاص چیلنج ہوگا۔’

اس بات پر غور کریں۔ ایسے ملک میں جہاں زیادہ تر ہیلتھ کیئر نجی شعبے کے پاس ہے تو کیا ایسے میں نجی صحت کے کارکنوں کو سرکاری کارکنوں پر ترجیح حاصل ہوگی؟ کیا مستقل کارکنوں کو معاہدوں پر کام کرنے والے افراد پر ترجیح ملے گی؟

اگر بزرگ افراد ابتدائی شاٹس کے اہل ہیں تو پھر مختلف ہم آہنگوں کی کس طرح ترجیحات تیار کی جائے گی؟

مثال کے طور پر اگر انڈیا میں ذیابیطس کے سات کروڑ سے زیادہ مریض ہیں جو دنیا میں دوسری سب سے زیادہ تعداد ہے تو کیا ان سب کو ایک ساتھ ترجیح دی جائے گی؟

تمام 30 ریاستوں میں ویکسین کے کام کو ایک ساتھ شروع کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تو کیا ان ریاستوں کو پہلے ویکسین ملے گی جو سب سے زیادہ متاثرہ ہیں؟

مساوات اور عدم تفریق کے بارے میں سوالات اٹھنے ناگزیر ہیں۔

لاکھوں خوراکوں کا ٹریک رکھنا

واشنگٹن میں قائم سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ میں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کے سلسلے کا مطالعہ کرنے والے پرشانت یادو کا کہنا ہے کہ اچھے ریکارڈ والے ویکسین بنانے والوں کے معاہدے کرنے سے انڈیا کو لوگوں کو نسبتاً تیزی سے خوراک کی فراہمی میں مدد ملنی چاہیے۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ روٹین حفاظتی ٹیکے لگانے کی کامیابی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کووڈ 19 ویکسین کی کامیابی کی بھی ضمانت ہوگی۔

ڈاکٹر یادو کہتے ہیں کہ ‘عام طور پر حفاظتی ٹیکوں کا انفراسٹرکچر بہت وسیع ہے لیکن یہ زیادہ تر سرکاری سطح پر چلائے جانے والے کلینکس کے لیے ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر بالغوں میں قطرے پلانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور بالغ سرکاری طور پر صحت عامہ کی دیکھ بھال کے مراکز میں باقاعدگی سے نہیں جاتے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس بار باضابطہ طور پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہی مسئلے کا حل ہے۔

مز شا اور انڈیا کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی خدمات انجام دینے والی کمپنیوں میں سے ایک انفوسیس کے شریک بانی نندن نیلکانی جیسے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے لیے انڈیا کو ‘آدھار’ کا استعمال کرنا چاہیے۔

آدھار ایک انوکھا شناختی کارڈ ہے جس میں 12 ہندسے ہوتے ہیں اور ایک ارب سے زیادہ افراد کو یہ جاری کیا جا چکا ہے اور اسی کے تحت انھیں فلاحی سکیموں تک رسائی ملتی ہے اور ٹیکس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔

نیلکانی نے ایک اخبار کو بتایا: ‘ہمیں ایک ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک کے طول و عرض میں ایک دن میں ایک کروڑ ٹیکے لگائے جاسکیں اور سب کو ڈیجیٹل ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے ٹریک کیا جا سکے۔’

رسائی میں فراڈ

ویکسین تک رسائی سے متعلق بدعنوانی کے بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔

ابتدائی شاٹس کے لیے منتخب ہونے والے لوگوں کی فہرستوں میں خود کو شامل کرنے کے لیے لوگ جعلی کاغذات کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے میں حکام دھوکہ دہی کو کیسے روک سکتے ہیں؟ اور دور دراز کے بازاروں میں جعلی ویکسین کی فروخت کو آپ کیسے روک سکتے ہیں؟

‘منفی واقعات’ کی نگرانی

کچھ لوگوں کو ویکسین کے ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔ حفاظتی ٹیکے لگنے کے بعد اس طرح کے ‘منفی اثرات’ کی نگرانی کے لیے انڈیا میں 34 سال پرانا نگرانی کا پروگرام موجود ہے۔

لیکن محققین نے دیکھا ہے کہ ضمنی اثرات کی اطلاع دینے کا معیار اب بھی کمزور ہے اور سنگین منفی واقعات کی تعداد متوقع تعداد سے کہیں کم ہے۔

منفی اثرات کی شفافیت سے اطلاع دینے میں ناکامی سے ویکسین کے متعلق افواہوں کا بازار گرم ہو سکتا ہے۔

انڈیا

اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟

یہ ممکنہ طور پر سب سے بڑا سوال ہے۔ کیا حکومت تمام خوراکیں حاصل کرے گی اور ریاست کے ذریعے چلائے جانے والے مفت یا سبسیڈی والے ویکسینیشن پروگرام کو شروع کرے گی؟ یا پھر مالدار ان خوراک کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرکے نجی تقسیم اور فروخت کے نظام کے ذریعے اسے حاصل کریں گے؟

ڈاکٹر لہریا جیسے ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک وبائی بیماری ختم نہیں ہوتی اس وقت تک حکومت کو ہر انڈین کو حفاظتی ٹیکے لگانے کا انتظام کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر شا جیسے دوسرے افراد کا کہنا ہے کہ نجی کمپنیاں اپنے ملازمین کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے رقم ادا کرسکتی ہیں۔

مسٹر نیلکانی کا خیال ہے کہ ابتدا میں تین سے پانچ ڈالر کا ویکسین کا خرچ آئے گا اور دوہری خوراک کام تقریباً 10 دالر تک خرچ آئے گا اس طرح ایک ارب 30 کروڑ لوگوں کے لیے خوراک کا حاصل کرنا مہنگا سودا ہے۔

اسی وجہ سے گگندیپ کانگ کا کہنا ہے کہ انڈیا جیسے ملک کے لیے ایک شاٹ والی اچھی ویکسین 50 روپے سے کم میں آنی چاہیے اور اس کی وافر مقدار فراہم کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp