موت کے منہ سے واپس آنے والی کوہ پیما شکیلہ کے ٹو سر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے


19 جون 2019 کی شام ڈھلتے ہی سلسلہ ہندوکش میں موجود 5800 میٹر بلند میلون جونز کی چوٹی پر سرسراتی ہواؤں کی سیٹیوں اور خنکی میں شدت پیدا ہو گئی۔ اس دن صبح پہاڑ کے سینے پر رینگتی کوہ پیماؤں کی ایک چھوٹی سی قطار نظر آ رہی تھی مگر اب ایک تباہ کن برفانی تودہ گرنے کے بعد ان میں سے پانچ کوہ پیما متزلزل حوصلوں اور چوٹی سر کرنے کی شکستہ حسرتوں کے ساتھ واپس لوٹ چکے تھے۔ چوٹی سے صرف 500 میٹر کی دوری پر شمشال کے مقامی گائیڈ امتیاز کی لاش پڑی تھی اور ساتھ ہی زخموں سے چور ان کی چھوٹی بہن شکیلہ نیم دراز تھی۔ حادثے کے بعد اپنی جانیں بچا کر واپس لوٹتے کوہ پیماؤں کو شکیلہ کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی چنانچہ اس رات شمشال کی وادی نے اپنے دو باسیوں کا ماتم کیا۔ رات کی سیاہی وادی میں پھیلنے کے بعد چوٹی پر چڑھنا شروع ہوئی تو شکیلہ رستے زخموں اور منجمد ہوتی رگوں کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی۔

دوسری صبح دن کی روشنی پھیلنا شروع ہوئی، چوٹی سے ٹکراتی سائیں سائیں کرتی ہوائیں ذرا خاموش ہوئیں اور سورج کی کرنیں مدہم سی تمازت لیے شکیلہ کے لئے زندگی کی نوید بن کر اتریں اور اس نے ایک بار پھر آنکھ کھول کر چڑھتے ہوئے سورج کو دیکھا۔

ہر شمشالی کی طرح بلندیوں سے انسیت اور چوٹیوں کی رغبت امتیاز اور اس کی بہن شکیلہ کی گھٹی میں پڑی تھی۔ اپنے شوق کی تسکین کے لئے امتیاز نے شمشال آنے والے کوہ پیماؤں کے ساتھ ان کا سامان پیٹھ پر اٹھائے پورٹر کے طور پر پہاڑوں پر چڑھنا شروع کیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 15 سال تھی۔ بھائی کی دیکھا دیکھی شکیلہ کو بھی برف سے ڈھکی اور بادلوں میں چھپی خود سر چوٹیوں کی بلندیوں کو پاؤں تلے محسوس کرنے کا جنون چڑھ گیا۔

یہ روایتی پدرسری معاشروں سے دور شمشال کا سماج ہے جو غیرت اور روایت کے نام پر عورتوں کے خوابوں کے آگے بند باندھنے کا خوگر نہیں۔ امتیاز کی چچازاد بہن نادیہ بھی کوہ پیمائی کرتی اور منگ لک سر کی چوٹی سر کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ نادیہ کے ساتھ ہی شکیلہ بھی خوابوں کی مشعل تھامے شمشال کی آٹھ دوسری لڑکیوں کو لے کر نکلی اور یہی چوٹی سردیوں میں پہلی بار سر کر کے نئی تاریخ رقم کی۔ یہ ٹیم جنوری 2011 میں منفی 30 ڈگری میں 6050 میٹر بلند منگلک سر کی چوٹی پر اپنے حوصلوں کا علم ایستادہ کر آئی۔

shakeela (left)

خوابوں کی پیٹھ پر حوصلے کی تھپکی ہو تو وہ حدوں کے اسیر ہونا نہیں جانتے۔ چنانچہ شکیلہ اپنے بھائی کی حوصلہ افزائی سے اگلے سال صرف ایک ہفتے میں دو چھ چھ ہزار اور ایک پانچ ہزار میٹر بلند چوٹیاں سر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ پچھلے سال اٹلی سے کوہ پیماؤں کی ایک مہم میلون جونز سر کرنے شمشال پہنچی۔ امتیاز گائیڈ کی حیثیت سے ٹیم کا حصہ بنا اور شکیلہ بھائی کے ساتھ مہم میں شامل ہو گئی۔ ان کے خاندان کی ندیمہ بھی ان کے ہمراہ تھی۔ 7 افراد پر مشتمل یہ ٹیم 5300 میٹر کی بلندی سر کر کے 19 جون کی صبح چوٹی سے صرف 500 میٹر کے فاصلے پر تھی کہ ایک تباہ کن برفانی تودے نے انہیں آن لیا۔ خطرے کی اس گھڑی میں امتیاز کا آخری جملہ جو شکیلہ نے سنا یہ تھا ”ڈرو نہیں! کچھ نہیں ہوگا۔“ امتیاز نے آخری سانس تک اپنی بہن کا حوصلہ بلند رکھا۔

برفانی تودے نے امتیاز کی جان لے لی اور شکیلہ وہی 24 گھنٹے زخمی حالت میں پڑی رہی۔ ان کی ٹیم تتر بتر ہو کر واپس لوٹی۔ فوج کے ہیلی کاپٹر بارہا کوششوں کے باوجود خراب موسم کی وجہ سے ان تک نہ پہنچ سکے۔ آخرکار مقامی لوگوں نے ہی ایک ٹیم تشکیل دے کر بھیجی جس نے امتیاز کی لاش اور زخمی شکیلہ کو نیچے وادی میں پہنچایا۔

میلون جونز سر کرنے کے بعد ان بہن بھائیوں کا ایک خواب 8611 میٹر بلند K 2 سر کرنے کا تھا مگر امتیاز کی موت کے بعد شکیلہ کی آنکھوں میں اب شکستہ خوابوں کی کرچیاں تھیں مگر شکیلہ کا تعلق اس خطے سے ہے جہاں کے لوگ نہ صرف خواب دیکھنا جانتے ہیں بلکہ خواب ٹوٹنے کی صورت میں ان کی کرچیاں سنبھال رکھنے اور انہیں دوبارہ جوڑنے کا ملکہ بھی انہیں حاصل ہے۔

مستنصر حسین تارڑ جب شمشال گئے تھے تو اس وقت وہاں تک سڑک نہیں جاتی تھی۔ وادی میں ایک ٹریکٹر تھا جسے کسی فوجی جنرل نے پرزے کھول کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں پہنچایا تھا۔ وادی پوری دنیا سے کٹی ہوئی تھی۔ پھر وہاں کے مکینوں نے خواب دیکھا۔ شمشال سے پسو پہاڑوں کو چیرتی 30 میل لمبی سڑک کا خواب۔ شمالی علاقہ جات میں اس وقت آغا خان رورل سپورٹ پروگرام انقلابی طور کام کر رہا تھا۔ شمشالیوں کو امید بندھی اور انہوں نے اس ادارے کے چیئرمین شعیب سلطان سے سڑک بنانے کی درخواست کی مگر شعیب سلطان کے پاس اتنے بڑے منصوبے کے لئے وسائل نہ تھے سو انہوں نے معذرت کی۔

شمشالیوں نے اس شکستہ خواب کی کرچیاں بکھرنے نہ دیا اور خود ہی خاموشی سے پہاڑوں پر پھاؤڑا چلانے لگے۔ کچھ عرصے بعد شعیب سلطان نے دیکھا تو 30 میں سے 14 میل تک سڑک تیار ہو چکی تھی۔ وہ ان کے حوصلوں کے سامنے پسیج گیا اور ان کی معاونت شروع کی۔ سرکار کو بھی ہوش آ گیا اور پسو سے شمشال تک سڑک بننے سے دنیا سے ان کا رابطہ قائم ہوا۔

اسی وادی کی شکیلہ بھی ٹوٹے خوابوں کو جوڑنے میں مصروف ہے۔ لڑکیوں کے ہاسٹل میں کھانا پکا کر 8 ہزار روپے ماہانہ کی قلیل تنخواہ پاتی ہے۔ امتیاز کے بعد گھر کا چولہا جلانے کی ذمہ داری بھی شکیلہ پر آن پڑی ہے۔ پچھلے دنوں کسی نے کیا خوب لکھا تھا کہ شکیلہ کی کہانی آٹھ ہزار کے دو ہندسوں کی کہانی ہے۔ ایک آٹھ ہزار وہ جو شکیلہ تنخواہ پاتی ہے اور دوسرا آٹھ ہزار K 2 کی بلندی جسے وہ سر کرنا چاہتی ہے۔ میلون جونز کی 5800 میٹر بلندی سر کرنے کے لئے چلنے والی شکیلہ کو 5500 میٹر کی بلندی پر سفید برف کو اپنے اور اپنے بھائی کے لہو سے سرخ کر کے واپس لوٹنا پڑا تھا۔ اب وہ 8611 میٹر بلند K 2 کی چوٹی پر اپنے قدموں کے نشان ثبت کر کے ثابت کرنا چاہتی ہے کہ حالات نے اس کے خواب تو توڑ دیے تھے مگر اس کے حوصلے نہ توڑ سکے اور اگر حوصلے ثابت و سالم ہو تو پھر ٹوٹے ہوئے خواب دوبارہ جوڑنا ناممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).