مبارک ہو


پانی ہمیشہ پستی کی جانب ہی بہتا ہے ایسا ہی معاملہ علم و فضل کا بھی ہے ’یہ بھی اسی کی طرف بہتے ہیں جو عاجز ہو کر مانگے۔ اسی کو سیراب کرتے ہیں جس میں جذب کی صلاحیت ہو۔ اسی کو فائدہ پہنچاتے ہیں جو یہ فیض آگے منتقل کر سکیں۔ اپنا کوئی بھی اچھا عمل‘ کوئی گیان دھیان کی بات ’کوئی بہترین ٹوٹکہ یا کوئی بھی باعمل نصیحت جو کسی کے کام آ جائے اور فائدہ مند ہو بانٹ دینی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خاص رحمت آپ سے چھن جائے۔ مثل مشہور ہے کہ جو کنواں دوسروں کو سیراب نہ کرے وہ جلد خشک ہوجاتا ہے۔

بھلے وقتوں کی بات ہے کہ علم دینے والے علم بانٹنے کے ساتھ تربیت کا بھی اہتمام کرتے تھے اور گاہے بگاہے زندگی اور اس سے منسلک مختلف پہلووں پہ راہنمائی فرماتے رہتے تھے۔ آج کے دور میں ایسی بات بتانے کا رواج کم ہو گیا ہے کیونکہ ہم نے ہر مسئلے کے حل کے لئے گوگل سے راہنمائی لینی سیکھ لی ہے لیکن اس قدر جدیدیت کے بادجود بہت سے سوال ابھی بھی جواب کے منتظر ہیں اور یہ علم صرف گیانی لوگوں ہی سے مل سکتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے کشکول کی ضرورت نہیں صرف کشکول سا دکھنے کی ضرورت ہے۔ باقی سب کام خود ہی ایک منظم طریقے سے ہوتا چلا جائے گا۔

2009 ء کے وسط میں پہلی گاڑی لی تو کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی ’کچھ اس لئے بھی کہ اس وقت سوشل میڈیا کا ہماری زندگیوں میں اتنا زیادہ عمل دخل نہیں تھا‘ دوم کہ گاڑی بھی کوئی رولس رائس تو تھی نہیں کہ جس کا چرچا ہوتا۔ ایک چھٹی والے دن سائیٹ پہ جانا پڑا تو ہمارے مینجر صاحب کا فون آیا کہ فلاں جگہ آ جاو ساتھ میں چلتے ہیں۔ تو مقررہ وقت پر وہاں پہنچ گیا۔ صاحب پہلے ہی سے موجود تھے اور انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے گاڑی سے اترتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم منزل کی جانب گامزن تھے۔

انور صاحب بلاشبہ اپنے کام میں ماہر اور کام ہی کی بیناد پر اپنا نام اورعزت بنانے والے شخص ہیں۔ ان سے کام کے علاوہ بھی بہت کچھ سیکھا جو شاید پوری عمر کام آتا رہے گا۔ انور صاحب نے پوچھا کہ کیا آپ رینٹ کی گاڑی لے کر آئے تھے۔ میں نے نفی میں جواب دیا کہ نہیں ’یہ میری اپنی گاڑی ہے۔ تو انہوں نے حیران ہو کے پوچھا کہ یہ کب لی اور آپ نے بتایا ہی نہیں۔ میں نے وہی دو وجوہات ان کو بتائیں تو انور صاحب نے کمال نصیحت کی اور کچھ ایسی وضاحت سے کی کہ سب کس بل نکل گئے۔

کہنے لگے کہ کوئی بھی اچھی خبر ملے یا زندگی میں کچھ اچھا کرو یا زندگی کوئی اچھی خوشخبری لے آئے تو سب کو بتاو ’اپنے جاننے والوں کو‘ اپنے دوستوں کو ’اپنے عزیزوں کو‘ اپنے رفقاء کو اور اپنے ساتھیوں کو ضرور بتاو۔ یہ سب لوگ آپ کو مبارک باد دیں گے۔ اس بات کی وضاحت میں کہنے لگے کہ لفظ ’مبارک‘ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ یہ بات/خوشی/خبر آپ کو راس آ جائے۔ یہ ایک طرح سے دعا ہے یعنی لوگ آپ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ جتنے زیادہ لوگوں کو بتائیں گے اتنی ہی زیادہ دعائیں پائیں گے اور معلوم نہیں کس کی دعا قبول ہو جائے اور وہ خوشی آپ کو ایسی راس آئے کہ اس کی وجہ سے زندگی ہی بدل جائے۔

یہ بات پہلے معلوم نہ تھی اور نہ ہی کسی نے ایسے سمجھایا تھا اور غالب امکان ہے کہ یہ بات شاید گوگل بھی ایسے نہ سمجھا پائے جیسے انور صاحب نے سمجھائی۔ فی زمانہ بھی کچھ ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ آسمانوں سے رزق وافر مقدار میں اترتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ ہے تو اسے دوسروں میں بانٹ دیجئے ’یقین جانیے کم نہیں ہوگا۔ رزق صرف پیسا ہی نہیں ہے یہ بہت ساری اور چیزوں کا بھی مجموعہ ہے۔ دوسروں کے حصے کی خوشیاں ان تک پہنچانے کی اپنی سی سعی کرتے رہیں‘ اللہ کریم خود ہی آپ کو درست جگہ اور درست ضرورت مند کے پاس نا محسوس طریقے سے پہنچا دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).