اِنسانی رشتوں کو گُھن کیوں لگا۔


انسانی زندگی رشتوں سے عبارت ہے۔ ان رشتوں کو رحمت و زحمت بنانا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم بالعموم اپنے خیالات میں گم رہتے ہیں اور شاید اسی لیے دوسروں کے آئینے میں صرف اپنا ہی عکس دیکھ پاتے ہیں۔ ندا فاضلی بھی اسی سبب شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا

اپنے حصار سے نکل کر دوسروں سے ہمکلام ہونا اور ان کی ان کہی کو بھی سن لینا محنت طلب اور مشکل کام ہے اور انسان اپنے لیے آسانیاں ڈھونڈنے کا آرزو مند رہتا ہے۔ جب دوسرے ہمیں مدد کے لئے پکارتے ہیں تو انہیں خبر ملتی ہے کہ انہیں بچانے کا ہم میں یارا نہیں ہے۔ شاید ہم میں صرف دوسروں کو مریض اور خود کو ڈاکٹر بنانے کا یارا ہے۔ جو نہی کوئی ہمیں اپنا مسئلہ بتاتا ہے ہمارے ذہن میں ان کے مسئلے کا حل متشکل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ مسئلے کا آخری حل تو مسئلہ بیان کرنے والے کے پاس ہی ہوتا ہے، ہمارا کام تو بس اس کے گونگے احساسات کی تفہیم ہے۔ وہ مفلوک الحال تو بس ہمارے آئینے میں اپنی بے بسی کی تصویر دیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے کیا معلوم کہ ہمارے ذہن کی سینما سکوپ سکرین پر تو ہمہ وقت اپنی خواہشات اور خوابوں کی فلم چلتی رہتی ہے۔ ہماری بانسری میں تو گھاس پھوس بھرا ہوتا ہے اس لیے نوائے بشر اس میں گزرنے سے قاصر رہتی ہے۔

ہمارے رشتے سطحی نوعیت کے بن گئے ہیں کیونکہ دوسروں سے تال میل کے نتیجے میں ہمارا یقین پختہ ہو گیا ہے کہ کسی کو ہمارے حال دل جاننے سے دلچسپی نہیں ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہماری اپنی زبان بھی ہمارے قلب کی رفیق نہیں رہی ہے۔ ہمارے مکالمے سیاسی امور کی بابت گفتگو تک محدود ہو گئے ہیں یا پھر موسم کی گرمی سردی ہماری باہمی گفتگو کا موضوع بنی رہتی ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں جھانکنے کے عمل کو ہم بھاری پتھر سمجھ کر چومتے ہیں اور پھر فوراً ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ جو انسان معاشی اعتبار سے تگڑا ہوتا ہے وہ رشتوں کی اہمیت سے دھیرے دھیرے بے نیاز ہوتا جاتا ہے۔ اس کا سرمایہ اسے وہ تحفظ فراہم کر دیتا ہے جو اس کے رشتوں نے فراہم کرنا تھا۔ دولت مند آدمی صرف اس سے رشتہ بناتا ہے جو اس کی معاشی حیثیت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ باقی ماندہ رشتے تو اس کے نزدیک وہ خیرات ہوتے ہیں جن کے وجود کا علم صرف اس ہاتھ کو ہوتا ہے جو خیرات کے عمل میں مبتلا ہے۔ مساکین بھی صرف ضرورت کے رشتے بناتے ہیں جو ضرورت پوری ہونے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔ یوں انسانی رشتے ان دنوں اکثر و بیشتر مادی منفعت کی نذر ہو جاتے ہیں۔

ہم دوسروں کی حقیقی مدد اسی صورت کر سکیں گے جب ہمارے ذہن کا آسمان اپنے خیالات کے بادلوں سے پاک ہو گا۔ جب ہماری اپنی ذات نرگس کا پھول بن کر مہکے گی تو ہم سے وابستہ رشتے صرف ہماری تعریف و تو صیف کر کے ہی رشتوں کا بھرم قائم رکھ سکیں گے۔ شاید ہم سب کو ایسے رشتوں کی طلب ہی نہیں ہے جو ہمیں ہمارا اصلی چہرہ دکھانے پر تیار ہوں۔ ہمیں تو صرف اپنے پجاریوں میں اضافہ مطلوب ہے۔

لوگ ہم سے مدد نہیں چاہتے وہ تو ہماری آنکھوں میں اپنی پہچان دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہماری آنکھیں کیونکہ ہمارے اپنے اندر کھلتی ہیں اس لیے ہمیں باہر کا منظر ہمیشہ دھندلا نظر آتا ہے اور یوں ہم سے مدد چاہنے والے حقیقی وجود کی بجائے سایہ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور ہم ان کی تقویت کی بجائے ان کے ضعف کا باعث بن کہ رہ جاتے ہیں۔

میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).