امریکہ: مبینہ رشوت کے عوض ‘صدارتی معافی’ کی تحقیقات


وائٹ ہاوس (فائل فوٹو)

امریکہ کی ایک عدالت کی جانب سے سامنے آنے والی بعض دستاویزات کے مطابق محکمۂ انصاف صدارتی معافی کے لیے مبینہ طور پر رشوت دیے جانے کے الزام کی تحقیقات کر رہا ہے۔

یہ دستاویزات امریکہ کی ڈسٹرکٹ کورٹ فار دی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے چیف جج کی جانب سے منگل کو جاری کی گئی ہیں جن میں اس معاملے میں ممکنہ طور پر ملوث افراد کے نام حذف کر دیے گئے ہیں۔

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ وفاقی پراسیکیوٹرز نے اگست کے آخر میں سرکاری تحویل میں لی گئی کچھ ڈیجیٹل ڈیواسز کے مواد تک رسائی کے لیے عدالت سے رُجوع کیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق وفاقی پراسیکیوٹرز نے ایک وکیل اور اس کے مؤکل کے درمیان ہونے والے ای میلز کے تبادلے کے ریکارڈ تک رسائی کی اجازت طلب کی تھی۔ دستاویزات میں وکیل اور اس کے مؤکل کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ امریکی قانون کے تحت وکیل اور مؤکل کے درمیان ہونی والی گفتگو کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور حکام اس گفتگو کو کسی مقدمے کی کارروائی میں استعمال نہیں کر سکتے۔

پراسیکیوٹرز نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وکیل اور اس کے مؤکل کے درمیان ہونے والے ای میل کے اس تبادلے کو قانونی تحفظ حاصل نہیں رہا کیوں کہ تیسرے فریق کو بھی اس گفتگو تک رسائی دی گئی تھی۔

پراسیکیوٹرز نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان ای میلز سے اُنہیں بعض ایسے ثبوت مل سکتے ہیں جن میں صدر کی جانب سے کسی مجرم کی سزا میں کمی یا اسے معافی دلانے کے لیے بعض نامعلوم افراد نے وائٹ ہاؤس کے سینئر اہلکاروں کے ساتھ بطور لابیسٹ کام کیا۔

ان کاغذات میں اس الزام کا بھی ذکر ہے کہ صدارتی معافی کے بدلے سیاسی فائدہ حاصل کیا گیا۔

وائٹ ہاؤس نے ان دستاویزات کے بارے میں وائس آف امریکہ کو مؤقف دینے سے معذرت کی ہے۔ البتہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی معافی سے متعلق تحقیقات کی رپورٹس کو ‘فیک نیوز’ قرار دیا ہے۔

https://twitter.com/realDonaldTrump/status/1333979211745341441

دریں اثنا اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے مشیروں سے اپنے بیٹوں ایرک اور ڈونلڈ جونیئر، بیٹی ایوانکا ٹرمپ اور وکیل روڈی جولیانی کو پیشگی صدارتی معافی دینے سے متعلق مشورہ کیا ہے۔

‘اے بی سی’ نیوز نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ صدر نے اپنے مشیروں سے اس بارے میں بات کی ہے۔

تاہم روڈی جولیانی نے ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ سے ایسی کسی بھی گفتگو کی تردید کی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ “نیویارک ٹائمز نے دوبارہ جھوٹ بولا ہے۔ میں نے ایسی کوئی بھی گفتگو نہیں کی جسے انہوں نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے چلایا ہے۔”

ابھی تک صدر ٹرمپ کے خاندان یا ان کے وکیل پر کسی بھی الزام میں فردِ جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ ایسی کسی بھی پیشگی صدارتی معافی کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔

امریکی قانون صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ وفاقی دائرۂ اختیار میں آنے والے جرائم کے مرتکب افراد کو معاف کر سکتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کے مخالفین یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے قریبی ساتھیوں کو نوازنے کے لیے اس اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

ابھی تک صدر ٹرمپ نے چند ہائی پروفائل کیسز میں نامزد یا سزا یافتہ اپنے قریبی ساتھیوں کو صدارتی معافی دی ہے۔

حال ہی میں صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کے اپنے سابق مشیر مائیکل فلن کو صدارتی معافی دینے کا اعلان کیا تھا۔

فلن کے خلاف 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق تحقیقات کے دوران تفتیشی افسران سے غلط بیانی کے الزام میں قانونی کارروائی جاری تھی اور استغاثہ نے انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنانے کی سفارش کی تھی۔

صدر ٹرمپ نے رواں سال اپنے ایک اور دیرینہ ساتھی راجر اسٹون کو جیل جانے سے چند دن پہلے ہی صدارتی معافی دے دی تھی۔ راجر اسٹون کو ایک عدالت نے سات مختلف الزامات میں 40 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa