بات ایک عارف کی


انسانی دنیا میں سماجی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے۔ دراصل انسان کو ان کے خصائل اور عادات کے سبب ہی مخلوقات میں افضل قرار دیا گیا ہے۔ مسابقت کے اس دور میں جب کہ لوگ باگ ایک دوسرے سے پہ سبقت لے جانے کے لئے غلطاں و پیچاں ہیں۔ اور اپنی تخلیقیت کے مقاصد کو سرے سے بھول بیٹھا ہے۔ دنیا پہ مادیت کا مہیب سایہ دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ صارفیت اور پروفیشنلزم کے دور ہمہ ہمی میں دکھیاروں کی رکھوالی کرنے والی جماعت معدودے چند ہے۔ جس کا شمار انگلی پہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر پاک ارواح، بلند حوصلہ، مخلص صفت مجاہد اور جذبۂ ایثار و قربانی سے لیس افراد پہ مشتمل ان جماعتوں کے کمسن راہرو اور قافلہ سالار اپنے تخلیقیت کے اغراض و مقاصد سے آشنا ہے۔ اور خدمت خلق میں بلاخوف و خطر خون جگر صرف کر رہا۔ ان جماعتوں سے وابستہ حضرات و خواتین اپنے حصے کا دیا بخوبی جلا رہا ہے۔ چونکہ انہیں کائنات میں پھیلی ہوئی انارکی، ظلم و بربریت اور سماجی نا انصافی کا قلع قمع کرنے کا دھن سوار ہے۔

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کے مصداق انسانی ہمدردی سے سرشار دل رکھنے والے افراد یہ چاہتے ہیں کہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ ہو جائے، سماجی انصاف کا بول بالا ہو، کوئی بھوک سے تلملا کر نہ مر جائے، کسی بے کس و مجبور پہ شب خون نہ مارا جائے کسی مظلوم کو ظلم کے بدلہ انصاف میں بیجا تاخیر نہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں سماج مثالی ہو جائے ان کی ضد اور اصرار ہوتا ہے کہ سبھوں کو ”زندگی جینے کا اختیار ملے“ ”حق ملے“ انصاف ملے ”

وسیع و عریض کائنات میں پھیلے ہوئے ان جیالوں کی زندگی کا مقصد سماجی خدمات اور معاشرہ کے فلاح و بہبود ہوتی ہے ایسے پاک روحوں کی موجودگی سے ہی وطن اور سماج کا مینار انصاف مانند شمع روشن ہے۔ جس کی ضیا پاشی سے کائنات کا ذرہ ذرہ شاداں و فرحاں ہے۔ ہر چہار جانب سے مایوس ہوچکے افراد کے لئے امید کی ایک کرن جو باقی ہے وہ یہی بے لوث و بے غرض جماعت ہے۔ جس کا ہر فرد ایماندار، فرض شناس اور انسانیت کی بقا اور تحفظ کے لئے ڈھال بن ایستادہ ہے۔

لکھنے پڑھنے کو ایک دنیا پڑی ہوئی ہے۔ غم ایسے کہ ضبط تحریر میں لایا جائے تو آنسوؤں کا سیلاب آ جائے۔ درد ایسا کہ ذکر ہو تو ٹیس اٹھے۔ اس درمیان لکھنے اور بولنے والوں پہ کچھ کہنا اور لکھنا ذرا مشکل ہوتا ہے اور پھر اگر بندہ لکھاری کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب، مصنف اور مؤلف بھی ہو تو سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نے بھی جتن کر لیا ہے اور تہیہ کر لیا ہے کہ خوبصورت سے بانکے اور سجیلے اولوالعزم نوجوان پہ خامہ فرسائی کیا جائے۔

جو دردمند انسانیت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ جن کی شستہ اور شائستہ تحریریں، سدھے سدھائے رپورٹنگ اور خوبصورت باتیں عالم تنہائی میں ہمیں ایک کائنات سے آشنا کرواتی ہے۔ جو اپنے بزرگوں کے معتمد اور دوستوں کے محبوب ہیں۔ اس طویل ترین تمہید کو پڑھتے پڑھتے آپ بھی شش و پنج میں ہوں گے لہذا صبر کریں میں کہے دیتا ہوں وہ ہمارے ہم سب کے، سیمانچل کو متھلانچل سے قریب کرنے والے کم عمر، قدآور اور مثالی شخصیت بصیرت و بصارت والے محمد عارف اقبال صاحب ہیں۔

انسانی کمالات اور خوبیوں سے متصف عارف کی زندگی عارفانہ ہے۔ عارف مطلب کر گزرنا ہے۔ عارف مشکل سے آسان کے متلاشی نہیں ہیں بلکہ وہ جوئے شیر کے لئے فرہاد بنے بغیر کوہکن بن جانے کا ہنر اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت قلیل مدت میں انہوں نے قابل ذکر تصنیفی اور تالیفی خدمات انجام دی ہیں جس میں ”باتیں میر کارواں کی“ ، ”امیر شریعت سادس، نقوش و تاثرات“ اور ”حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی، حیات و خدمات“ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے دیگر مقامات سے شائع ہونے والے معیاری اخبار و جرائد میں دو درجن سے زائد سیاسی، ادبی اور سوانحی مضامین تسلسل سے شائع ہو چکے ہیں۔ اس قلیل مدت میں موصوف کو کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

اور سرگرم صحافت کے ذریعہ زندگی کی نوید بن کر سماج کو راہ دکھا رہے ہیں، نوجوانوں کے لئے مشعل راہ عارف اقبال کی زندگی کسی بھی صحافی یا مصنف کی طرح جدوجہد سے پر ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ لوگ باگ کتنے باریک احساسات والا دل رکھتے ہیں۔ لیکن میرے محسوسات مختلف ہیں کتنا مشکل ہے کہ آدمی دس پیسہ بنانے کے بجائے انسانیت اور سماج کی رکھوالی کرے، مسائل و آلام میں بے خطر سروائیو کرے۔ لکھے پڑھے بولے اور کہے ایڈمنسٹریشن اور سرکار کو بیدار کرے، جھگڑے اور دست گریبان ہو جائے۔ صرف اس لئے کہ عوام کے حقوق کی پامالی نہ ہو، مظلوموں کو انصاف ملے اور مسائل کا سدباب ہو! اور بس باقی عارف کی عارفانہ اقبال مندی کے دوام کے لئے رب سے دعا گو ہوں! اللہ رب العزت صالح نوجوان کی فکری صلاحیتوں کو مہمیز کرے! حوصلوں کو جلا بخشے اور بامراد ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).