ملتان جلسہ


گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو کورونا کے خطرے کے پیش نظر جلسے جلوس سے روکنے کی اخلاقی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گلگت میں انتخابات کے موقع پر خود وزیراعظم اور ان کے وزراء ہزاروں لوگوں کے اجتماعات سے ایس او پیز کی دھجیاں اڑا کر خطاب کرتے رہے، جونہی مگر اپنا سیاسی مقصد پورا ہوا کورونا کو آڑ بنا کر نہ صرف اجتماعات پر پابندی کا اعلان کر دیا بلکہ اپوزیشن سے مطالبہ شروع کر دیا کہ وہ اس پابندی کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی احتجاجی تحریک ختم کر دے۔

اس کے بعد بھی لیکن اپنی روش نہ بدلی، ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے سے صرف دو روز قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر جنہیں تحریک انصاف کا سمجھدار چہرہ سمجھا جاتا اور جو کورونا کی صورتحال کی مانیٹرنگ اور بچاؤ کے اقدامات تجویز کرنے کی خاطر قائم کیے گئے ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ بھی ہیں، نے ایک بڑے مجمعے سے خطاب کیا جس میں کورونا سے بچاؤ کی خاطر بتائی جانے والی احتیاطی تدابیر ان کے سامنے پامال ہوتی رہیں۔

اسی دن جماعت اسلامی کا بھی بونیر میں بھرپور اجتماع ہوا جس سے امیر جماعت سراج الحق نے خطاب کیا، اس جلسے کی ویڈیوز اور تصاویر بھی موجود ہیں کہ ان میں ایس او پیز کا کتنا خیال رکھا گیا۔ سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کے یہ دونوں اجتماعات کورونا کے پھیلاؤ میں اتنے ہی مددگار نہیں جتنا پی ڈی ایم کا جلسہ؟ اس کے بعد مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن کے دیگر رہنما یہ کہنے اور سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ یہ کیسا کورونا ہے جو صرف پی ڈی ایم کے جلسوں اور ریلیوں سے پھیلتا ہے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے کارکنوں اور ہمدردوں کو کچھ نہیں کہتا۔

حکومت کی نیت پر پہلے ہی شکوک و شبہات تھے مگر اب اس بات میں بالکل ابہام نہیں رہا کہ وہ کورونا کی آڑ لے کر اپنی سیاسی مشکلات میں کمی لانا چاہتی ہے۔ حکومت اگر واقعی کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر تشویش میں مبتلا ہوتی تو وہ کبھی بھی جلسے کے طے شدہ کھلے مقام کے بجائے ایک تنگ جگہ جلسہ کرنے پر اپوزیشن کو مجبور نہ کرتی۔ معلوم نہیں حکومت کو ایسے مشورے کون دیتا ہے جو اس کے لیے ہمیشہ جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔

جلسہ اگر آرام سے ہونے دے دیا جاتا تو زیادہ سے زیادہ یہ ایک دن کے لیے توجہ کا باعث ہوتا لیکن حکومت کی طرف سے اسے روکنے کی بھونڈی اور ناکام کوششوں کے طفیل یہ کئی دن پہلے سے ہیڈ لائنز اور تبصروں کی زینت بنا رہا اور امید ہے مزید کئی روز بنا رہے گا۔ اس سے پہلے بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جلسے ہوئے، ان جلسوں کی وجہ سے کیا بھونچال آ گیا، یہ جلسہ بھی اگر حکومت سکون سے کرنے کی اجازت دے دیتی تو بھی یقیناً کوئی قیامت نہیں آنے والی تھی۔

مقررہ تاریخ سے کئی دن قبل ہی لیکن حکومت نے نہ صرف قلعہ قاسم باغ جانے والی تمام سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرا دیں بلکہ شہر کے تمام داخلی و خارجی راستوں کو بھی بند کر دیا۔ اس حماقت کے بعد جب عین وقت پر جلسے کی اجازت دی گئی، تب ہی اگر قلعہ قاسم باغ کو جلسے کے لیے کھول دیا جاتا تو ہو سکتا ہے، عین وقت پر اپوزیشن جلسہ گاہ میں بہت بڑی تعداد میں لوگ لانے میں ناکام رہتی جس کا نقصان یقیناً اپوزیشن کو ہونا تھا، لیکن اس حماقت سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کے بجائے حکومت نے الٹا اپنی طاقت کا بھرم بھی کھو دیا۔

دوسری طرف اس جلسے سے اپوزیشن بھرپور فائدے میں رہی، سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی نے اٹھایا۔ گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ تھی، اپوزیشن جماعتوں کے اس مشترکہ شو کو، یوم تاسیس کے نام پر اس نے قابو کر لیا اور وہاں اسے سیاسی قوت دکھانے کا موقع مل گیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پچھلے انتخاب میں نشستیں ہارنے کے بعد جن کا خاندان سیاسی منظر نامے پر کہیں نظر نہیں آ رہا تھا، حتی کہ پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں جنہیں زیادہ اہمیت نہیں مل رہی تھی، ان کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔

یوسف رضا گیلانی خود اور ان کے بیٹے، حکومت کی طرف سے لگائے گئے تماشے اور چھپن چھپائی کے کھیل کی وجہ سے تین چار دن ٹی وی اسکرینوں پر چھائے رہے۔ کورونا کا شکار ہونے کے سبب بلاول بھٹو زرداری قرنطینہ میں تھے، اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلز پارٹی نے آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کی سب سے چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو کو بھی کامیابی سے سیاست میں لانچ کر دیا۔ اگرچہ آصفہ بھٹو کی تقریر لکھی ہوئی اور نہایت مختصر تھی لیکن حاضرین کی طرف سے ملنے والی پذیرائی کے بعد یہ کہنا یقیناً غلط نہ ہوگا کہ جس مقصد کی خاطر ان سے خطاب کرایا گیا وہ مقصد پیپلز پارٹی نے کماحقہ حاصل کر لیا۔

ملتان جلسے کی ایک اور خاص بات مریم نواز کی تقریر تھی۔ مریم نواز کی شہرت سخت اور جارحانہ لہجہ ہے اور وہ کھلے عام ایسی باتیں کہہ ڈالتی ہیں جو بڑے بڑے سیاستدان بند کمروں میں کہنے سے کتراتے ہیں۔ ان کی پذیرائی کی بھی شاید یہی وجہ کیونکہ ہمارے ہاں عوام اپنی لیڈر شپ سے بہادری کی توقع کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی بات اور ہے وہ اس وقت ملک سے باہر موجود ہیں، لیکن پی ڈی ایم کے اسٹیج پر بیٹھ کر جس طرح مریم نواز نے پچھلے تمام جلسوں میں کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دل کی بھڑاس نکالی یہ بلاشبہ بہادری اور اپنی جگہ درست مگر، اس کے علاوہ بھی لوگ ان سے کچھ سننے کے خواہاں تھے۔

حالیہ تقریر میں انہوں نے اسی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے پہلی بار عمران خان کی ”ایمانداری“ کا پول کھولنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں آٹے چینی اسکینڈل اور فرنس آئل کی وجہ سے ایل این جی امپورٹ میں کی گئی تاخیر سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ دیا۔ چونکہ اپوزیشن کے خلاف تحریک انصاف کا تمام تر انحصار کرپشن کی گردان پر مبنی ہے لہذا ایسے وقت میں جب اپوزیشن اسے گھر بھیجنا چاہتی ہے میرے خیال میں حکومت کے اپنے اسکینڈلز کو اجاگر کرنا نہایت ضروری تھا۔

اب پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ تیرہ دسمبر کو لاہور میں ہوگا اور حکومت نے اس جلسے کو نہ روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ خبر نہیں یہ فیصلہ حکومت نے ملتان والی غلطی کا ادراک کرتے ہوئے کیا ہے یا اسے کسی نے سمجھایا ہے اپوزیشن اگر مینار پاکستان گراؤنڈ بھرنے میں کامیاب بھی ہو گئی تو یہ اس کے لیے اتنا نقصان دہ نہیں ہوگا جتنا کہ طاقت کے استعمال سے جلسے کو روکنا۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ حکومت اپنی بات پر قائم رہتی ہے یا نہیں، کیونکہ ملتان جلسے سے قبل بھی فواد چوہدری نے کہا تھا کہ عمران خان کی پالیسی ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں کو نہیں روکنا۔

اس کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے اور تاحال بھی لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے اپوزیشن کو جلسے کی اجازت نہیں دی۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ گومگو کی اس پالیسی کی وجہ سے اس کی ساکھ مزید خراب ہو رہی ہے۔ ملتان کے تجربے کے بعد حکومت نے دیکھ لیا اگر وہ جلسے کی اجازت نہیں دے گی، اپوزیشن پھر بھی جلسہ ضرور کرے گی لہذا بہتر یہی ہوگا کہ جلسے کی اجازت دے دی جائے۔ اجازت اگر نہ دی گئی تو اپوزیشن کے تیور بتا رہے ہیں وہ پیچھے نہیں ہٹے گی جس کا نتیجہ لازما تصادم کی صورت میں نکلے گا اور اس صورتحال کا سراسر نقصان حکومت کو ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).