مذہبی انتہا پسندی کا سیاسی پہلو


معاشرہ میں دن بدن بڑھتے ہوئے مذہبی تشدد اور ریاست کی آنکھیں بند پا کر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ریاست اتنی غیر ذمہ دار کیوں ہو گئی ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں تیسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر مذہبی تشدد کا استعمال کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ مرد حق کے علاوہ ایسا کون سا سیاسی رہنما تھا جس نے مذہب کا استعمال نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ قائد عوام کو بھی اپنے وزیروں کو ہدایت دینی پڑتی تھی کہ سوشلزم کا مذہبی پہلو ڈھونڈ کر نکالا جائے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہی اتنا مذہبی تشدد کیوں پایا جاتا ہے اور اسی طرح اگر ہم تاریخی پس منظر سے دیکھیں تو ہمیں مذہبی تشدد سے بھری تاریخ ملتی ہے اور ریاست آج کی طرح ہمیشہ خاموش۔ ورنہ سیاسیات اور مذہب تعلیم کا تو زیادہ زور ہی انصاف اور مساوات ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے معاشرہ کی موجودہ صورتحال سے لے کر صدیوں پیچھے تک تشدد ہی تشدد ملتا ہے۔ اس کا جواب ڈھونڈنا چاہیں تو تاریخی پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ جب خلافت موروثی بادشاہت میں تبدیل ہوئی تو سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے، کیونکہ سیاسی اختلاف سے بادشاہ اور وقت کی سیاسی اشرافیہ کو ہمیشہ سے خطرہ رہا ہے۔ لیکن جب مذہب کے اندر فرقے بننے لگے تو اس کے بعد ریاست ہمیشہ سے خاموش اور مذہبی تشدد اپنی انتہا میں نظر آتا رہا ہے۔ جب یونانی فلسفہ عرب سرزمین میں داخل ہوتا ہے تب اور زیادہ تشدد نظر آتا ہے۔ اور ہر اختلاف کو چاہے وہ سیاسی تھا، معاشی تھا، یا معاشرتی تھا ہمیشہ مذہبی پس منظر میں ہی دیکھا گیا۔

یہاں اصل مسئلہ سمجھنے کا ہے۔ تو جناب والا اصل مسئلہ اختلاف تھا اور یہ اختلاف شعوری تھا عقلی تھا اور دلیلی تھا اور اس وقت کی سیاسی اشرفیہ کے لیے ناقابل قبول تھا۔ کیونکہ اس اختلاف نے بعد میں ارتقائی شعور بننا تھا اور اس شعور نے بہت سارے سوالات کو جنم دینا تھا اور اس وقت کی سیاسی اشرفیہ کے لیے مسائل پیدا کر سکتا تھا۔ لہذا ہر اختلاف کو مذہبی آڑ میں دیکھا گیا اور اختلاف کو جبر و تشدد سے روکنے کا کام کیا گیا۔ سیاسی جبر کی ایک حد ہوتی ہے مگر مذہبی تشدد۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان فلاسفر کبھی بھی کسی خاص سیاسی نظام پر نا بات کر سکے اور نہ لکھ سکے اور یونانی سیاسی فکر کے اندر خلیفہ اور خلافت ڈھونڈتے نظر آئے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک معاشرہ نہ مذہبی طور پر نہ سیاسی طور پر پر کوئی سمت متعین نہ کر سکا اور تقلید پر ہی زیادہ زور دیا گیا۔ اسی طرح تقلید نے ہمیشہ تشدد کو ہر دور میں نئے طریقے سے نافذ کرنے کی کوشش کی۔ معاشرہ سیاسی اختلاف کے بجائے مذہبی و مسلکی تقسیم میں نظر آیا۔ یہی صورت حال ہمیں ہندوستان میں نظر آتی ہے کہ سیاسی اختلاف کو سرے سے برداشت ہی نہیں کیا جاتا تھا مگر معاشرتی سطح پر عوام کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے مذہبی سیاست کا سہارا لیا جاتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ بادشاہ وقت کبھی ایک مسلک سے منسلک نظر آتے تو کبھی دوسرے سے اور عوام تقسیم در تقسیم۔ تنقید اور نقل سے جبر اور تشدد کو اس حد تک معاشرے میں پھیلایا گیا کہ آج بھی قتل و غارت کو برائی نہیں بلکہ ثواب کے لئے فتویٰ ڈھونڈے جاتے ہیں۔ جب برصغیر میں انگریزوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کے لیے راستہ ڈھونڈنے جا رہے تھے تب بھی مذہبی طبقہ جنگ و جدل کی بات کرتا رہا۔ دوسری طرف جدید سیاسی جدوجہد بھی مذہبی سہارے سے نہ نکل سکی اور اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان بنانے میں تمام مسلکوں کا کردار نظر آتا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد سیاسی حالات پہلے جیسے تو نہ رہے مگر سیاسی مفادات کو پورا کرنے کے لیے مذہب کو ایک نئے سرے سے ڈھالا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ قائد اعظم سب سے زیادہ پریشان پاکستان کے آئین کی وجہ سے تھے زیادہ تر دنیا کے مختلف آئینوں کو مطالعہ کرتے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قائداعظم کی کی وفات تک سیاسی طبقے سے اور نہ ہی مذہبی طبقے سے آئین کو مذہبی بنانے کے لیے شدت نظر آتی ہے۔

مگر قائداعظم کی وفات کے چند ماہ بعد ہی ہمیں 12 مارچ 1949 کو ایسی قرارداد نظر آتی ہے جہاں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے اپنی زندگیوں کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے قابل بنایا جائے گا، مگر اس کے بعد ریاست سیاسی مفادات کے تحت کبھی مولانا مودودی اور کبھی امیر تحریک لبیک کے پیچھے ہی نظر آئی اور پھر مسلمان بنانے کے عمل نے کافر ہی پیدا کیے اور معاشرہ جہالت، جبر اور تشدد میں ڈوبتا چلا گیا کہ اب قتل و غارت اور جبر و تشدد کو ایک مذہبی فریضے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف سیاسی اشرفیہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے کبھی امیرالمومنین اور کبھی ریاست مدینہ جیسے نعروں سے عوام کو ورغلاتی رہی۔

ہمارے معاشرے میں مذہبی تشدد جان بوجھ کر سیاسی طور پر پھیلایا جا رہا ہے۔ لوگ سیاسی طور پر پہلے ہی شعور سے دور ہو کر ازم اور شخصیت پرستی میں عقیدہ کی حد تک گرفتار ہیں۔ تقسیم در تقسیم سے عوام مسائل کی طرف توجہ نہ ہوں۔ اپنے حقوق کی بات نہ کر سکیں۔ انصاف اور مساوات کے لیے انقلاب برپا نہ کر سکیں۔ اشرافیہ کا سٹیٹس کو ایسے ہی چلتا رہے جیسا کہ صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).