ہٹلر: نمیبیا کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدوار ایڈولف ہٹلر جن کا دنیا فتح کرنے کا کوئی عزم نہیں


دوسری عالمی جنگ میں جرمنی پر حکومت کرنے والے ایڈولف ہٹلر کے ہم نام نمیبیا کے ایک سیاست دان نے بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ہے تاہم ان کے دنیا فتح کرنے کے کوئی ارادے نہیں۔

ایڈولف ہٹلر یونونا گذشتہ ہفتے اومپنڈا حلقے میں کونسلر منتخب ہوئے تھے۔

جرمن اخبار بِلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے زور دیا کہ ان کا نازی نظریے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

کسی زمانے میں جرمنی کی کالونی رہنے والے اس ملک میں دوسرے جرمن ناموں کی طرح ’ایڈولف‘ کوئی غیر معمولی نام نہیں ہے۔

ایڈولف ہٹلر یونونا حکمران جماعت سواپو پارٹی کے امیدوار ہیں جس نے نوآبادیاتی نظام اور سفید فام اقلیتوں کی حکمرانی کے خلاف مہم چلائی ہے۔

یونونا نے اعتراف کیا کہ ان کے والد نے ان کا نام نازی رہنما کے نام پر رکھا تھا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’شاید وہ ہٹلر اور ان کے نظریات کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ہٹلر کی دیوانی ساوِتری دیوی

فتح کا دن آٹھ مئی: جب برلن میں نازی دور کا اختتام ہوا

نامعلوم افراد نے ہٹلر کے ساتھی ’قصاب‘ کی قبر کھود ڈالی

تقریباً 85 فیصد ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے والے یونونا بتاتے ہیں کہ ’بچپن میں، میں نے اسے بالکل عام نام کے طور پر دیکھا لیکن بڑے ہونے پر مجھے احساس ہوا کہ یہ آدمی تو پوری دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا اور میں ایسی کوئی خواہشات نہیں رکھتا۔‘

یونونا کہتے ہیں کہ ان کی اہلیہ انھیں ایڈولف بلاتی ہیں اور تمام لوگ انھیں اسی نام سے جانتے ہیں لہذا وہ اسے تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

1884 اور 1915 کے درمیان نمیبیا افریقہ کے ایک ایسے خطے کا حصہ بھی تھا جسے ’جرمن جنوب مغربی افریقہ‘ کہا جاتا تھا۔

جرمن سلطنت نے 1904-08 کے دوران ناما، ہیریرو اور سان کے مقامی افراد کی جانب سے کی گئی بغاوت کے دوران ہزاروں افراد کو قتل کیا۔ کئی مورخین اسے ’بھولی ہوئی نسل کشی‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔

اس سال کے شروع میں نمیبیا نے جرمنی کی جانب سے 10 ملین یورو معاوضے کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس رقم پر نظر ثانی کے لیے بات چیت جاری رکھیں گے۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد نمیبیا جنوبی افریقہ کے کنٹرول میں آگیا تھا اور 1990 میں اس نے آزادی حاصل کر لی تاہم یہاں ابھی بھی بہت سے شہر ایسے ہیں جن کے نام جرمن میں ہیں۔ اس کے علاوہ جرمن زبان بولنے والوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت بھی موجود ہے۔

نمیبیا کی تحریک آزادی سے بائیں بازو کی پارٹی سواپو نے جنم لیا اور 1990 سے وہ ملک پر حکمرانی کر رہی ہے لیکن ماہی گیری کی صنعت میں رشوت کے الزامات کے بعد اس پارٹی کی حمایت میں کمی آئی ہے۔

گذشتہ ماہ کے انتخابات میں سوپو کو 30 بڑے شہروں اور دیہاتوں میں ناکامی کے بعد وہاں کا کنٹرول کھونا پڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp