ناگورنو قرہباخ: سابق سوویت علاقوں میں روس کا اثر و رسوخ کیوں گھٹ رہا ہے؟
قفقاز کی پہاڑیوں کے درمیان واقع دادی ونک نامی گاؤں میں ایک آٹھ سو سال پرانی خانقاہ موجود ہے، جس کے باہر روسی افواج کا پڑاؤ ہے۔ آرمینیا سے تعلق رکھنے والے راہب فادر ہووہانس فوجی دستوں کا استقبال کرنے ہیں اور مسکراتے ہوئے فوجیوں کا یہاں آنے پر شکریہ ادا کیا۔
ناگورنو قرہباخ کے متنازع علاقے کے گرد مامور دو ہزار روسی فوجیوں میں سے ایک سپاہی بتاتا ہے کہ ان کو احکامات ملیں ہیں کہ یہاں موجود قدیم عبادت گاہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
اس سپاہی نے مجھے بتایا کہ عام طور پر روس ہی اس علاقے میں امن کے قیام کا ضامن رہا ہے۔ دادی ونک کلبجر ضلعے میں واقع ہے جو ان بہت سے علاقوں میں سے ایک ہے جو آرمینیا نے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت آذربائیجان کو واپس کر دیے ہیں۔
روس کے نزدیک یہ معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس خطے میں اب بھی ماسکو کا اثر و رسوخ برقرار ہے تاہم حالیہ چھ ہفتوں کی جنگ نے روس کی طاقت کی حدود بھی واضح کر دی ہیں اور گذشتہ صدیوں کی روسی سلطنت کے مقابلے میں یہاں اس کا اثر قدرے کم ہے۔
ترکی کے لیے نادر موقع
تاہم اس سب کے دوران ترکی روس کے اپنے ہی علاقے میں ایک حریف طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور آذربائیجان کی آرمینیا (جو روس کا اتحادی ہے) کو شکست ترکی کے تعاون سے ہی ممکن ہوئی۔
اور تو اور، جنگ بندی کے معاہدے کی نگرانی کے لیے نیٹو اتحادی ترکی کے نمائندے بھی یورپ کے اس جنوبی خطے کا رخ کریں گے۔
سیاسی امور پر نظر رکھنے والے مبصر کونسٹینٹن وان ایگرٹ کا کہنا ہے کہ قرہباخ میں جو کچھ ہوا وہ خطے میں روس کے لیے کسی تباہی سے کم نہ تھا۔
’عملی طور پر ہم نے دیکھا کہ روس کی تربیت یافتہ آرمینیا کی فوج کو ترکی کی حمایت یافتہ آذربائیجان کی فوج نے شکست سے دو چار کیا۔‘
ان کے مطابق صدر اردوغان کے دور حکومت میں ترکی نے خطے میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔
’خطے میں موجود ترکی، چین اور ایران جیسی دیگر طاقتیں اس سے یہ نتیجہ اخذ کریں گی کہ وہ ماسکو سے زیادہ مشاورت کرنے یا کریملن کے خوف کے بغیر وسطی ایشیائی خطے میں اپنے پیر جما سکتے ہیں۔
دادی ونک سے 15 منٹ کی مسافت پر آرمینیا کے زیر انتظام قرہباخ کا علاقہ ہے۔ یہاں بھی روسی فوجی موجود ہے جو آرمینائی آبادی کی حفاظت کر رہے ہیں۔
لیکن قریب واقع گاؤں گیتاوان میں لوگ انھیں دیکھ کر اتنے خوش نہیں ہیں۔
مقامی شہری اریک نے مجھے بتایا کہ آرمینیا کے لوگ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ پوتن بہت اچھے رہنما ہیں اور وہ ان کے حامی بھی ہیں۔ ’تاہم اس معاہدے کے تناظر میں صرف ایک دستخط سے پوتن نے آذربائیجان کو بہت کچھ دے دیا ہے۔ یہ بہت غلط ہے۔‘
ہر کوئی یہ رائے نہں رکھتا۔ جب میں نے کچھ آرمینیائی فوجیوں سے بات کی جو قرہباخ سے واپس لوٹ رہے تھے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ روس کے مشکور ہیں جس نے اس جنگ کا خاتمہ کروایا۔
ایک فوجی نے کہا کہ اگر یہ جنگ جاری رہتی تو ہم سارے مارے جا چکے ہوتے۔ ان کے مطابق ’ہمارے (آرمینیا) کے مقابلے میں آذربائیجان کے پاس بہت پیسے، ہتھیار اور فوجی اسلحہ ہے۔‘
روس کو آس پڑوس سے چیلنجز کا سامنا
رواں برس سابق سویت یونین کے خطے میں کئی مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
بیلاروس میں لوگوں نے ایک ایسے آمر کی طاقت کو للکارا جسے روس کی حمایت حاصل ہے۔ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ماسکو کا الیگزینڈر لوکاشینکو کے معاملے میں صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے اور ان کی حمایت کی وجہ سے بیلاروس میں روس مخالف جذبات ابھر رہے ہیں۔ بیلاروس میں ایسا پہلے کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔
اکتوبر میں کرغزستان میں ایک انقلاب نے بھی روس کو مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔
گذشتہ ماہ کریملن نے مالدووا کے صدارتی انتخابات میں شکست پانے والے امیدوار کی حمایت کی تھی۔ مغرب نواز سمجھے جانے والی سیاسی رہنما مایا سیندو نے ماسکو کے حامی سمجھے جانے والے موجودہ حکمران ایگور دودون کو شکست دی۔
تاہم مالدووا میں رونما آنے والی صورتحال کے باوجود روس ابھی بھی ہمسایہ ممالک پر کسی نہ کسی طرح اپنا اثرورسوخ قائم رکھے ہوئے ہے۔
روس کے فوجی دستے مالدووا میں بھی موجود ہیں۔ بلکہ یہ کہیے کہ مالدووا کے ایک آزاد خطے، ٹرانز نیسٹر، میں روس کے فوجی سرکاری طور پر امن قائم رکھنے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔
ایسا کرنے سے کریملن کو ناصرف خطے میں سیاسی سبقت حاصل ہوتی ہے بلکہ اگر مالدووا کی سیاسی قیادت ماسکو کے اثرورسوخ سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ اس سے بھی نمٹ سکتا ہے۔
مالدووا کی نو منتخب صدر نے مجھے دارالحکومت چیسیناؤ میں ملاقات کے دوران بتایا کہ ان کا مقصد یورپی یونین کے قریب ہونا ہے اور انھیں امید ہے کہ ایک دن ان کا ملک یورپی یونین کا رکن بن جائے گا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا روس ایسا ہونے دے گا، کیا روس مالدووا کو یورپی یونین کا حصہ بننے کی اجازت دے گا؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا انتخاب ہو گا۔ ’آخر کار یہ ہمارے آزاد اور خود مختار ملک کا فیصلہ ہے کہ ہم نے ترقی کا کون سا ماڈل چننا ہے۔‘
جب میں نے یاد دلوایا کہ ان کے ملک میں 15 ہزار روسی فوجی موجود ہیں تو انھوں نے کہا: ’یہ سچ ہے مگر کہ ہم ان فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں اور ہم اب بھی اس حوالے سے اپنے مطالبے پر قائم رہیں گے۔‘
‘ان ممالک کو جانا ہو گا‘
کیا روس کو اپنے پڑوس میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کا کوئی فائدہ بھی ہوگا؟
ماسکو کارنیگی سینٹر کے سینیئر محقق الیگزینڈر گوبیوف کا کہنا ہے کہ اگر آپ حساب لگائیں کہ روس اس خطے میں اپنا اثر برقرار رکھنے کے لیے کتنے وسائل جھونک رہا ہے اور اس کے بدلے میں اسے کتنا معاشی فائدہ ہو رہا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک گھاٹے کا سودا ہے۔
’لیکن کریملن کا ان ممالک کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ہے اور فیصلہ کرنے والوں میں زیادہ تر افراد ایسے ہیں جو ماضی میں جاسوس اداروں سے منسلک رہے اور انھیں ہر طرف خطرہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک سابق سوویت ممالک میں اپنا اثر برقرار رکھنا بہتر سیکیورٹی کے لیے ناگزیر ہے۔‘
اور علاقائی طاقتوں کے علاوہ چین، ترکی، امریکہ اور یورپی یونین کے ہوتے ہوئے اب شاید روس کا دائرہ اثر محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
- خاتون فُٹ بال شائق کو گلے لگانے پر ایرانی گول کیپر پر 30 کروڑ تومان جُرمانہ عائد: ’یہ تاریخ میں گلے ملنے کا سب سے مہنگا واقعہ ثابت ہوا‘ - 24/04/2024
- ’مغوی‘ سعودی خاتون کراچی سے بازیاب، لوئر دیر سے تعلق رکھنے والا مبینہ ’اغوا کار‘ بھی زیرِ حراست: اسلام آباد پولیس - 24/04/2024
- جنوبی کوریا کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس فیسٹیول کی منسوخی: ’یہ میلہ خواتین کے لیے نہیں کیونکہ ٹکٹ خریدنے والے زیادہ تر مرد ہیں‘ - 24/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).