اچانک حج پر


آپ چھٹی جا رہے ہیں راستے میں حج کرتے ہوئے جائیں۔ میں چونکا۔ میرے سینیئر کولیگ میجر جمیل انور ( بعد میں بریگیڈئیر ریٹائر ہوئے ) مجھ سے مخاطب تھے اور ایسی روانی میں کہہ گئے جیسے کوئی راولپنڈی سے لاہور جا رہا ہو اور اسے کہا جائے کہ گوجرانوالہ میں فلاں کام کرتے جانا۔ سر یہ کیسے ممکن ہے؟ میں نے ناقابل عمل گردانتے ہوئے سوال کیا۔ ایسا ممکن ہے اور آپ ضرور جائیں گے۔ ایک لمبی بحث کے بعد میں نے حامی بھر لی۔ جاتے ہوئے کہنے لگے گھر جا کر بھابھی کو بھی تیار رہنے کا بتا دیں۔

میں سوچتا رہ گیا ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے اللہ تعالی کسی کی جھولی میں عطائے عظیم ڈال دے۔ کہاں میں جس نے کبھی اس متبرک جگہ جانے کا ارادہ بھی نہ کیا ہو اور کہاں وہ ذات لم یزل جو اچانک مجھے اپنے با برکت گھر میں آنے کی سعادت بخشے۔ اللہ اللہ یہ سب اسی کا کرم ہے ورنہ یہ احقر تو خانہ خدا کو بچپن میں صرف بزرگوں کی تسبیح کے امام کے نکے میں سے ایک آنکھ بند کر کے شوق سے دیکھا کرتا اور محظوظ ہوتا۔ اپنی آنکھوں سے حقیقت میں دیکھنے کا تو وہم و گمان بھی نہ تھا۔

اپنے اندر تلاطم بلا خیز لئے میں گھر پہنچا۔ ساری بات بیگم کو بتائی۔ ہماری بیٹی کی عمر اس وقت آٹھ ماہ تھی اس لئے بیگم کا اتنے چھوٹے بچے کے ساتھ سفر حج پر جانا اور مناسک حج ادا کرنا مشکل تھا لہذا یہ طے پایا کہ وہ پاکستان چلی جائیں گی اور میں فریضہ حج ادا کرنے کے بعد پاکستان پہنچ جاؤں۔ اگلے ہی روز میں نے اپنے کمانڈنگ افسر سے بات کی اور انہوں نے میری درخواست پر زور تجویزی تحریر کے ساتھ آگے بھیج دی۔ کچھ دنوں بعد آرمی ہیڈ کوارٹرز سے میری چھٹی منظور ہو کر آ گئی۔ حج سیزن کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہمارے شہر جاس سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر کانو میں سعودی کونصلیٹ موجود تھا وہاں سے حج کے لئے ویزا و دیگر ضروریات کے اندراج کا انتظام ہو گیا۔

فیصلہ تو احکم الحاکمین نے پہلے سے لکھ رکھا تھا مگر حج ویزا لگنے کے بعد دنیاوی اہتمام حجت بھی پورا ہوا اور وہ عظیم سعادت جس کے لئے لوگ منتیں اور مرادیں مانتے ہیں اس قادر مطلق نے بیٹھے بٹھائے میرے نصیب میں لکھ دی۔

جدہ کے لئے میری ائر فرانس کی فلائٹ پیرس سے روانہ ہونی تھی جہاں میں ایک روز قبل پہنچ گیا تھا۔ پیرس سے نائیس ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے جہاں اس فلائٹ کا سٹاپ اوور تھا۔ نائیس سے جدہ چھ گھنٹے کا سفر خوشگوار رہا۔ تقریباً آدھے سفر کے بعد کچھ لوگ کہنے لگے کہ راستے میں میقات آئے گا اس لئے احرام باندھ لیں۔ لہذا میں نے بھی واش روم جا کر وضو کیا اور احرام باندھ لیا اور دو رکعت نفل ادا کیے اور اس کے بعد تلبیہ۔ اگر چہ اس فلائٹ کے تمام مسافروں کا قصد حج نہ تھا اس کے باوجود صدائے تلبیہ کی روح پرور گونج نے سماں باندھ دیا تھا۔

سبحان اللہ رب ذوالجلال نے کیا نظم و ضبط نافذ کیا ہے کہ ریگ صحرا میں ایک لکیر کھینچ دی اور کسی کی کیا مجال کہ بغیر پابندی احرام اس کو عبور کرے چاہے وہ پا پیادہ ہے یا شاہی سواری پر یا فضا کی بے کراں وسعتوں میں، ہوش میں ہے یا نیند میں یا ایمبولینس میں بے ہوش پڑا ہے، عورتیں مرد بچے بوڑھے جوان سب ہی ایک جیسے ملبوس ایک ہی صدا لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور خانہ خدا کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

ہماری فلائٹ جدہ لینڈ کر چکی تھی۔ بس کے ذریعے ہم حج ٹرمینل پہنچ گئے۔ ان دنوں نیا حج ٹرمینل ( موجودہ) تعمیر ہو چکا تھا مگر مستعمل نہ تھا اس لئے ہم پرانے ٹرمینل پر ڈراپ کر دیے گئے جہاں ضروری ابتدائی کارروائی میں چند گھنٹے صرف ہوئے جس کے بعد ہم ائرپورٹ کی عمارت سے باہر ایک کھلی جگہ میں آ گئے۔ یہاں ایک چھوٹی سی عمارت تھی جس کے سامنے ایک بہت ہی کشادہ جگہ میں بے شمار لوگ موجود تھے۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ اس عمارت کے اندر سب نے اپنے پاسپورٹ ضروری کارروائی کے لئے جمع کروائے ہوئے ہیں اور اب اس انتظار میں ہیں کہ کب واپس ملیں۔

میں نے بھی اندر جا کر اپنا پاسپورٹ جمع کروا دیا۔ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد کسی سے دریافت کیا کہ کتنی دیر میں پاسپورٹ واپس ملے گا۔ جواب سن کر میں پریشان ہوا اور تصدیق کے لئے ایک دو اور لوگوں سے پوچھا، سب کا جواب یہی تھا کہ اگر بہت جلدی ملا تو کل تک ملے گا اور زیادہ وقت لگے تو انتظار کا دورانیہ ڈیڑھ دن تک ہو سکتا ہے۔

یہ جگہ دراصل حاجی کیمپ کا حصہ تھا جو چاروں اطراف سے بند اور باہر جانے کے لئے گیٹ لگایا گیا تھا مگر بغیر پاسپورٹ دکھائے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ اس جگہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ دیگر اشیائے ضرورت کے سٹال بھی موجود تھے۔ میں نے پہلے تو بھوک مٹانے کا انتظام کیا اور بعد میں ایک فوم کا گدا جس کی چوڑائی دو فٹ ہو گی، ایک چادر اور ایک ہوا سے پھلانے والا تکیہ خریدا۔ میرا خیال تھا کہ آئندہ چند روز یہی مختصر سامان ساتھ رکھوں گا تا کہ زائد بوجھ اٹھانے سے بچا رہوں۔

اس کے علاوہ ایک کمر والی بیلٹ بھی خریدی جو احرام کی حالت میں پہنی جاتی ہے تا کہ اس کی جیبوں میں کرنسی اور ضروری دستاویزات رکھی جا سکیں۔ تقریباً سارے ہی لوگ گروپ کی شکل میں تھے۔ کوئی بڑا گروپ تو کوئی چھوٹا۔ سب اپنی اپنی پسند کی جگہوں پر پڑاو ڈالے انتظار کے مختلف مراحل میں تھے۔ جن کو پاسپورٹ واپس مل رہے تھے ان کے چہروں پر خوشی کے تاثرات عیاں تھے۔ میں نے بھی ایک نسبتاً صاف جگہ پر گدا بچھایا تکیے کو پھلایا اور چادر اوڑھ کر لیٹ گیا۔ اس طرح کے نظم و ضبط سے مبرا ہجوم کہ جس کی ضروریات و نقل و حرکت انتہائی غیر متوقع اور غیر واضح ہوں کے اندر سونے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ میرے ارد گرد کی جگہ کسی بھی وقت کسی نہ کسی کی گزر گاہ بنتی رہی۔ دن بھر کی تھکاوٹ نیند کی آغوش میں دھکیلنے میں معاون رہی۔

صبح نماز سے فارغ ہونے کے بعد قریبی خورد و نوش کی دکان سے ناشتہ کیا اور پاسپورٹ واپس ملنے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ چند گھنٹوں کے انتظار کے بعد پاسپورٹ واپس مل گیا۔ گدے کو رول کر کے باندھ لیا اور ہینڈ بیگ اٹھا کر کیمپ سے باہر نکلا۔ گیٹ کے نزدیک ہی کھڑی جی ایم سی ویگن کے ڈرائیور سے کچھ لوگ گفت و شنید کر رہے تھے میں بھی ان کے ساتھ شریک ہو گیا۔ مکتہ المکرمہ کے لئے دس ریال فی سواری کرایہ طے پایا اور ہم بیٹھ گئے۔

یہ کرایہ حج سیزن والا تھا ورنہ عام حالات میں دو ریال ہوا کرتا تھا۔ یوں محسوس ہوا کہ اب تک کی کارروائی ایک دیباچہ تھی اور حقیقت میں سفر حج کا آغاز اب ہوا ہے۔ ویگن بھر گئی تھی جونہی ڈرائیور نے گاڑی کو حرکت دی تلبیہ کی مسحور کن آواز بلند ہوئی جو تمام راستہ ماسوائے چھوٹے چھوٹے وقفوں کے جاری رہی۔ کبھی اونچی کبھی آہستہ جب پڑھانے والے کی آواز مدہم ہونے لگتی تو یہ فریضہ کوئی دوسرا سنبھال لیتا۔ راستے میں میقات کے قریب ایک دفعہ پھر سے پاسپورٹ کی پڑتال کی گئی۔

جدہ سے مکتہ المکرمہ 90 کلو میٹر کا سفر ہے جو ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا۔ جیسے جیسے مکہ شریف کے نزدیک ہوتے گئے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں۔ اس متبرک شہر کو دیکھنے کی آرزوئیں دلوں میں مچلنے لگیں جہاں نبی آخر الزمان کا اس دنیا میں ظہور ہوا جہاں اللہ کا وہ گھر ہے جس کے بارہ میں قرآن پاک میں ارشاد ہوا کہ پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے مبارک ہے اور تمام جہانوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔ اس میں پکی نشانیاں اور مقام ابراہیم ہے جو اس میں ( اس گھر میں ) داخل ہوا امن میں آ گیا۔

اللہ کی طرف سے لوگوں پر جو کہ استطاعت رکھیں حق ہے کہ بیت اللہ کا حج کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ ( سورہ العمران آیت 96۔ 97 ) ۔ ساتھ ہی ذہن میں آ رہا تھا کہ رہائش کا کوئی انتظام نہیں کیا ہوا اور حاجیوں کی آمد تقریباً تمام ہو چکی ہے جب کہ ہوٹل اور رہائش گاہیں بھر چکی ہیں۔ پھر خیال آیا مروج ہے کہ اگر کسی نامور میزبان کے ہاں جائیں تو میزبان تک پہنچنے میں بہت انتظام کئیے ہوتے ہیں کہ مہمانوں کو پریشانی نہ ہو دنیا داری تو دنیا کی ہوئی مگر ہمارا تو میزبان اللہ ہے۔

اچانک حرم شریف کے سامنے گاڑی رکی اور مسافر باہر نکل آئے۔ چند لمحوں کے لئے میں اپنا لائحۂ عمل سوچ ہی رہا تھا کہ ایک فرشتہ آ گیا اور پوچھا لگتا ہے کہ آپ پریشان ہیں۔ میں نے کہا بس یوں ہی پہلی دفعہ آیا ہوں اس لئے سوچ رہا ہوں کس طرف جانا ہے۔ کہنے لگا کیا آپ کا رہائش کا انتظام ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ کہنے لگا ہمارا ایک ساتھی آنا تھا وہ نہیں پہنچا، آپ اس کی جگہ ہمارے ساتھ رہیں جتنے پیسے اس نے دینے تھے وہ آپ دے دیں۔ میں راضی ہو گیا۔ فرشتے نے میرے منع کرنے کے باوجود میرا سامان اٹھا لیا اور آگے چلنے لگا۔ جی ہاں میرے لئے وہ فرشتہ ہی تھا۔

رہائش کی جگہ قریب ہی تھی۔ ایک گلی کے اندر مکان کی تیسری منزل پر ایک بڑا سا کمرہ جس میں آٹھ لوگ رہائش پذیر تھے۔ کمرے کے باہر صحن کو عبور کر کے کونے میں بڑا سا واش روم تھا۔ میں فریش ہوا۔ وضو بنا کر واپس کمرے میں آیا۔ جونہی میں بیٹھا آگے کھانا رکھ دیا گیا۔ مجھے کھانے کا کہا اور بتایا کہ وہ لوگ پہلے سے کھانا کھا چکے تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں اماں جی جو کہ اس فرشتہ صفت انسان کی والدہ تھیں، گرم گرم روٹی بنا رہی تھیں۔

اس دور میں حاجی صاحبان پاکستان سے خشک راشن لے کر روانہ ہوا کرتے تھے۔ ایک خاتون اس کمرے میں اور تھیں اور یہ سب لوگ آپس میں رشتہ دار تھے۔ کھانے کے بعد وہ صاحب کہنے لگے کہ اب عمرہ کرنے چلیں۔ پوچھا پہلے کبھی عمرہ کیا ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ کہا کوئی بات نہیں فکر نہ کریں۔ معلوم ہوا کہ اعلی حضرت آزاد کشمیر میں کسی مسجد کے خطیب ہیں۔ عام طور پر لوگ حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنے کی کتاب پڑھ کر روانہ ہوتے ہیں مگر نائجیریا میں مجھے ایسی کتاب میسر نہ ہو سکی لہذا میں اس بابت فکر مند تھا۔ الحمدللہ میری راہنمائی کے لئے اللہ رب العزت نے کیا خوب انتظام فرمایا۔ خطیب صاحب نے پوری شد و مد کے ساتھ مجھے عمرہ کروایا اور ہمہ وقت میرے ساتھ رہے۔ اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

حرم شریف کی طرف جاتے ہوئے جہاں سڑک ختم تھی وہاں سے سیڑھیاں نیچے اترتی تھیں۔ اس جگہ سے حرم شریف کا بہت خوبصورت نظارہ تھا جو آج بھی میرے ذہن میں روز اول کی طرح نقش تازہ ہے۔ بعد میں کئی دفعہ یہاں کھڑے ہو کر میں اس ویو سے محظوظ ہوتا رہا۔ چار دہائیاں پہلے کی بات ہے تب تک حرمین کی پہلی توسیع بھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر مسجد الحرام کا بیرونی صحن شروع ہوتا تھا۔ خانہ کعبہ کو دیکھنے کے لئے دل بیتاب ہوا جا رہا تھا۔

جلدی سے صحن عبور کیا۔ اندر جانے سے پہلے خطیب صاحب نے بتایا کہ تلبیہ پڑھنا ختم کرو اور مسجد میں داخلہ کی دعا پڑھو اور مزید کہا جب خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو پلک جھپکنے کے بغیر دیکھتے رہو اور دعائیں کرتے رہو، یہ قبولیت کی ساعتیں ہوتی ہیں۔ ایسا ہی کیا اور دعا کے بعد جی بھر کر اس متبرک گھر کے نظارے سے آنکھوں کو جلا بخشی جس کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے کی اور اللہ نے اس گھر کو وہ توقیر و عزت بخشی کہ جس کی مثال نہیں۔

اہل ایمان کو اس مطہر گھر کا طواف کرنے کا حکم فرمایا اور اس وقت سے لے کر تا قیامت کوئی ساعت نہ ہو گی کہ یہ سلسلہ رکے۔ اللہ کے حبیب ﷺ جب تشریف لائے تو اللہ نے اس گھر سے ان کی محبت کو دیکھتے ہوئے اور ان کے دل کی کیفیت کو جانتے ہوئے اس گھر کے رخ میں سجدہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اور حکم پر ایسا عملدرآمد ہوا کہ نماز کے دوران ہی سب کے رخ مبارک خانہ کعبہ کی طرف ہو گئے۔ ( سورہ بقرہ آیت 144 ) سبحان اللہ۔ اتنا پر شکوہ اور ذی شان اللہ کا گھر ہی ہو سکتا ہے۔

خانہ کعبہ کی زمین سے اونچائی 14 میٹر ہے۔ باب کعبہ والی دیوار 12.84، حطیم والی دیوار 11.28، رکن شامی اور یمانی کی درمیانی دیوار 12.11 اور رکن یمانی اور حجر اسود کی درمیانی دیوار 11.52 میٹر ہیں۔ چاروں کونوں کو نام دیے گئے ہیں حجر اسود والا کونہ رکن جنوبی کہلاتا ہے اور اس کے بعد طواف کے رخ میں بالترتیب رکن عراقی، رکن شامی اور رکن یمانی کہلاتے ہیں۔ جنوبی دیوار میں سونے کا دروازہ نصب ہے جو ایک سال پہلے یعنی کہ 1979 میں بنایا گیا تھا اس سے قبل چاندی کا دروازہ ہوا کرتا تھا۔

دروازے اور حجر اسود کی درمیانی جگہ ملتزم کہلاتی ہے جو دعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے لوگ اس جگہ سے لپٹ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ رکن عراقی اور شامی کے درمیان کی جگہ کو گولائی میں ایک دیوار گھیرے ہوئے ہے یہ جگہ حطیم کہلاتی ہے۔ ابتدا میں حطیم والی جگہ خانہ کعبہ کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ خانہ کعبہ کی اس دیوار کے اوپر چھت سے ایک پرنالہ باہر نکلا ہوا جو کہ سونے کا بنا ہوا ہے اور میزاب رحمت کہلاتا ہے۔ چھت پر بارش کا پانی اس کے ذریعے حطیم میں گرتا ہے مطوفین کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسے میں میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہوں۔ رکن شامی اور یمانی کی درمیانی جگہ میں ہمیشہ رش نسبتاً کم ہو جاتا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شمال کی طرف صحن زیادہ کشادہ ہے۔

کعبہ سے نظر ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا کہ خطیب صاحب نے کہا چلیں عمرہ شروع کرتے ہیں۔ میں چلتا گیا۔ حجر اسود کے سامنے آ کر ہم رکے اور بھیڑ ہونے کی وجہ سے انہوں نے استلام سے طواف شروع کروایا

طواف کے بعد مقام ابراہیم پر نوافل ادا کیے اور مناجات کیں۔ ابراہیم علیہ السلام سے میرا والہانہ لگاو ہے کہ وہ ہمارے ہادی و راہنما حضرت محمد ﷺ کے جد امجد ہیں۔ اس کے بعد آب زم زم پیا جس کی وجہ سے تازہ دم ہونے کا احساس ہوا۔ آب زم زم کے فوائد اور ہمارا عقیدہ اپنی جگہ۔ اس چشمہ کے معجزاتی اجرا کا عقیدہ بھی اپنی جگہ، میں اس سے ہٹ کر کہتا ہوں کہ چاہ زم میں سے اتنی مقدار میں پانی کا اخراج کہ لاکھوں لوگ روزانہ کئی دفعہ پیئیں بھی اور اپنے ساتھ لے کر بھی جائیں پھر بھی کنویں میں پانی کی سطح کم نہیں ہوتی جبکہ ہزاروں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے اور انشاءاللہ رہے گا، کیا یہ معجزہ نہیں؟

اب ہم صفا پہاڑی پر پہنچ گئے اور مسنون طریقہ سے سعی کی ابتدا کی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عمرہ کے عمل کا مشقتی جز ہے۔ مگر مشقت تو وہ تھی جو حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کی پہاڑیوں کے درمیان کٹھن راستہ اور موسم کی سختی کے ساتھ ساتھ اپنے لخت جگر کی فکر بھی دامن گیر تھی۔ آج کل تو موسم کی سختی سے مبرا ہموار راستہ بنا ہوا ہے اور جو جسمانی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لئے سواری کا بھی انتظام موجود ہے۔ سعی کے بعد بال کٹوا کر عمرہ سے فارغ ہو کر واپسی کی راہ لی۔ ( جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).