زندگی کی انتظار گا ہ سے میں نے کیا سیکھا؟


”ہم فوری طور پر تیار کردہ ایک نسل ہیں : فوری فارمولہ۔ ڈبے کا دودھ پیا ہے۔ سیٹلائٹ ٹی وی۔ GPS نیویگیشن، آن لائن چیک ان، ہر شے تو خودکار ہے، اب تو پنکھا بند کرنے کے لئے بھی اٹھنا نہیں پڑتا۔ ہم ہمیشہ پلگ ان اور وائرڈ رہتے ہیں۔ ہم اپنی انگلیوں کی جنبش پر جوابات لینے کے عادی ہیں۔ خدا کے ساتھ ہماری بات چیت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟ کیا اس ڈیجیٹل اور تکنیکی انقلاب نے ہمیں بے صبرا بنا دیا ہے، بے چینی بڑھا دی ہے۔“

ہماری اس نسل کو اس وقت اگر کسی شے سے نفرت ہے تو وہ ہے ”انتظار“ ۔ بھئی ہم کریں بھی کیوں؟ ہم بہت بے صبرے ہیں، کیونکہ اب ہمیں کتابیں، جنتریاں اور لغت کھنگالنے کی ضرورت نہیں، ہم کسی سوال کا جواب ڈھونڈنے، پرانے بادشاہوں اور سنتوں کی طرح جنگلوں میں نہیں نکل جاتے بلکہ ”گوگل“ کر لیتے ہیں۔ ایک وقت کی روٹی بنانے کے لئے اب ہمیں گھنٹوں چکی نہیں پیسنی پڑتی، ہم شاپنگ پر جانے کے لئے اتوار کا انتظار نہیں کرتے، بلکہ دفتر میں بیٹھے بیٹھے جوتے، کپڑے، ہر شے آن لائن منگوا لیتے ہیں۔

اور تو اور فلم دیکھنے جانا ہے تو لمبی قطار میں لگنے کا تردد نہیں کرتے بلکہ دو دن پہلے ہی آن لائن ٹکٹ بک کروا لیتے ہیں۔ اپنی پسند کا گانا سننے کے لئے گھنٹوں ریڈیو نہیں سننا پڑتا، آر جے کو کال نہیں ملانی پڑتی بلکہ بس گوگل کرتے ہیں۔ مطلب ہر چیز ہماری انگلی کی جنبش پر ہے، جلدی جلدی، سب کچھ ہو جا تا ہے، ہمیں سب کچھ کر لینے کی بہت جلدی بھی رہتی ہے۔

جب ہم اپنی زندگیوں میں اتنی جلدی مچائے ہوئے ہیں، لیکن اپنے رب کو جلدی جلدی سب کرنے کا نہیں کہہ سکتے، اس نے ہر شے کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے، ہم رات کے تین بجے خواہش نہیں کر سکتے کہ بس فوراً سورج نکل آئے اور میں جلدی سے دفتر کا کام نبٹا آؤں۔ اسی لئے تو کچھ چیزیں ہیں جن کا ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی انتظار کر نا پڑتا ہے۔

نوکری کی درخواست یا انٹرویو کے بعد دفتر سے کال کا انتظار
کسی بیماری کے خدشے کی بنا پر تشخیص کا انتظار
شادی ہو جانے کا انتظار
ملک سے باہر بیاہ کر جانا ہے تو شوہر یا بیوی سے ملنے کے لئے ویزے کا انتظار
اپنے پسندیدہ کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کا انتظار

یہ سب ایسی چیزیں ہیں جنہیں ہم گوگل کر کے حاصل نہیں کر سکتے۔ جبکہ ہماری سرشت میں شامل ہے کہ ہمیں انتظار کرنا بالکل بھی پسند نہیں، ان تمام صورت احوال میں غیریقینی کی کیفیت سرفہرست ہوتی ہے۔ مگر ہم اس غیریقینی کی کیفیت کو بھی اپنی بہتری کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ انتظار گاہ وہی نہیں جس میں ہم بیٹھ کر گاڑی، ٹرین یا فلائٹ کا انتظار کرتے ہیں، بلکہ زندگی بھی تو ایک طرح کی انتظار گاہ ہی ہے، جس میں بہت ساری چیزوں کے ہو جانے کا ہمیں انتظار رہتا ہے۔ میں نے اپنی اس انتظار گاہ میں بیٹھ کر کیا سیکھا ہے وہ آج میں آپ کو بتاتی ہوں۔

یہ ذہن میں بٹھا لیں، ہر چیز اللہ کے کنٹرول میں ہے۔ چاہے آپ کو لگتا بھی رہے کہ وہ آپ کی نہیں سن رہا! اللہ تعالیٰ سورۃ العنکبوت میں فرماتا ہے کہ اللہ کی طرف سے ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ بعض اوقات ہمیں لگ رہا ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہو رہا، یا ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں، ہماری زندگی کہیں کسی ایک مقام پر رک گئی ہے یا کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا تو یقین مانیے کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے جو ہماری نظر سے مخفی ہوتا ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت مخفی ہوتی ہے۔

مجھے بھی آج سے کچھ سال پہلے اور اب بھی یوں ہی لگتا ہے کہ میری زندگی میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا، یا پھر فلاں چیز ہو جاتی تو کیا تھا، ایک دم سے بے چینی آن گھیرتی ہے، یوں لگتا ہے جیسے کسی منزل کے بغیر ہی سفر ہے کہ کٹتا ہی چلا جا رہا ہے، کہاں پہنچنا ہے، کچھ خبر نہیں۔ لیکن پھر جب گزرے وقت پر نظر دوڑاؤں تو لگتا ہے ہاں واقعی اگر میں کسی ایک مقام پر رک جاتی تو آج جہاں ہوں وہاں نہیں ہوتی، جو ایکسپوژر جو تجربہ اب میرے پاس ہے وہ اگر نہ ہوتا تو کیا ہو تا؟

پھر دل کو تسلی ملتی ہے ہاں فلاں وقت بھی خدا میرے ساتھ تھا، ہاں اس وقت بھی اس نے مجھے کسی گھڑے میں گرنے سے بچا لیا تھا، ہاں فلاں وقت بھی میں کسی باغ میں جانے کو بے چین تھی لیکن اس خدا نے مجھے روک لیا تھا، ہاں وقت آنے پر یہ باور ضرور کروا دیا تھا کہ وہ سبز باغ، درحقیقت کنواں تھا، لیکن تب مجھے پتہ نہیں تھا۔ ان گزرے سالوں میں چاہے بظاہر چیزیں میرے قابو میں نہیں تھیں، لیکن جس کے قابو میں تھیں اس نے مجھے گرنے نہیں دیا، گرایا بھی تو ٹوٹنے نہیں دیا، توڑا بھی تو دوبارہ جوڑ دیا، جوڑا بھی تو نشانوں پر سونے سے رفو گری کر دی، اب وہ نشان بھی میری شان بڑھاتے ہیں، مجھے ”میں“ بناتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے میری والدہ بیمار تھیں، وہ اسپتال میں تھیں اور میں باہر کوریڈور میں بیٹھی تھی۔ میرے فون کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور میرے پاس چارجر بھی نہیں تھا۔ میں انتظار گاہ میں بیٹھی انگلیاں چٹخاتی رہی یا وہاں سالوں پرانے رسالوں کی ورق گردانی کرتی رہی۔ میرے بھائی کے چارجر اور کھانا لے آنے تک میں نے وہاں گزرے ہر سیکنڈ کو محسوس کیا بلکہ اس سے نفرت بھی کی۔ یہی تو ہم زندگی میں کرتے ہیں، جب ہمیں کسی چیز کے ہونے کا انتظار ہو تا ہے، زندگی کے کسی اگلے مرحلے میں داخل ہونے کے لئے بے چین ہوتے ہیں لیکن صرف اس وجہ سے کہ آپ تکنیکی طور پر انتظار کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اس درمیانی توقف سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔

غیریقینی کی صورتحال اور شکوک و شبہات کا یہ وقت ایسا ہو تا ہے جب ہم اپنے رب سے اپنا تعلق مزید مضبوط بنا سکتے ہیں، اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں تاکہ جب اچھا وقت آئے تو ان کا استعمال کیا جا سکے زندگی کی انتظار گاہ، میں بیٹھ کر اس وقت کو اپنے لئے بہتری و ترقی کے ایک موسم کے طور پر دیکھیں اور جب آپ ”لمحہ“ بالآخر پہنچیں گے تو آپ اس سے کہیں زیادہ تیار ہوجائیں گے۔ زندگی کے الجھے سوالوں کے جوابات کا انتظار کرنا انتہائی صبر آزما ہو سکتا ہے، لیکن مناسب نقطہ نظر کے ساتھ، آپ ان کٹھن لمحات کی طرف جب مڑ کر دیکھیں گے تو یقیناً ان کا مطلب اور ان سے سیکھے سبق کو جان جائیں گے۔ بس آپ بھی ہمت نہ ہاریں بلکہ انتظار گاہ میں گزرتے ہر لمحے سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہاں یہ مت بھولئے کہ آپ کو زندگی کے کس مرحلے کا انتظار ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).