جہان حیرت۔ ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک


یوں تو دنیا میں بے شمار لوگ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب آتے جاتے رہتے ہیں لیکن بہت ہی کم لوگ اپنی ان مصروفیات یا سیاحت کو قرطاس پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ادبی ذوق کی حامل شخصیات اپنی سفری مصروفیات کو خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں قلم بند کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ مایہ ناز سائیکاٹرسٹ، علمی و ادبی و فکری شخصیت جناب ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک صاحب نے اپنی پہلی کتاب ”پاکستانی معاشرہ، ایک سماجی و نفسیاتی تجزیہ“ کے بعد اپنے پانچ ممالک، پانچ شہر اور پانچ چاندنی راتوں کے پرفسوں مناظر پر مشتمل مختصر سفر کو کتابی شکل ”جہان حیرت“ میں ترتیب دے کر سفرنامہ پڑھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے جب ”جہان حیرت“ عطا کی تو وہیں بیٹھے بیٹھے پیش لفظ کی قرات کے ساتھ ساتھ جب ورق گردانی کی تو الفاظ کی جڑت، نثر کی روانی، تاریخ اور منظر نگاری نے تو ایک ہی نشست میں کتاب پڑھنے پر آمادہ کر لیا۔

ڈاکٹر صاحب نے روس، جاپان، ترکی، ازبکستان اور ہندوستان کے شہروں کو اپنی نظر سے دیکھا ہے اور اسے ایک نئے انداز سے پیش کیا ہے۔ انھوں نے قدیم سفرناموں سے ہٹ کر جدید سفرنامے کی روایت کو نکھارا ہے اور اسے تنوع عطا کیا ہے۔ چشم دید واقعات کو تخلیقی پیکر میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے اسے آسان کر دکھایا ہے۔ ”جہان حیرت“ میں ان کے خوبصورت بیانیہ پیرائے اظہار سے ہر جگہ کشش کا احساس ہوتا ہے۔

نیز انھوں نے دل آویز اسلوب، شگفتہ نثر اور تاریخی حقائق سے اپنے سفر کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ میری طرح آپ بھی ”جہان حیرت“ پڑھنے کے بعد یہی محسوس کریں گے کہ ڈاکٹر صاحب جہاں بھی گئے ہیں قارئین کو ساتھ لے کر گئے ہیں۔ منظر کشی کو اس دلکشی سے بیان کیا ہے کہ قاری خود کو انہی علاقوں میں موجود پاتا ہے۔ بعض مقامات پر ان کی نثر شاعری کے قریب تر چلی جاتی ہے۔ بر محل استعارے، تشبیہات، کنائے اور صنعتیں ان کی نثر کو نہ صرف ادبی لطافت عطا کرتی ہیں بلکہ قاری کی جمالیاتی احتیاجات کی تسکین کا باعث بھی بنتی ہیں۔

وہ فطری مناظر، دن اور رات کی کیفیات، سمندر کے مناظر کو بیان کرتے ہوئے، رنگ و بو اور صوت و آہنگ سے تحرک دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے قاری حسن کے جلووں کی کیفیات میں ڈوب جاتا ہے۔ بعض الفاظ و تراکیب سے ڈاکٹر صاحب کی حسرت بھی نظر آتی ہے، جیسا کہ ماسکو میں ”ماریا شراپوا“ کے لان ٹینس میں بغیر ماریا کے فوٹو بنوانا۔ ملتان کے دوست کا واڈکا کے لیے استعمال ہونے والے منقش گلاس خریدنا اور ڈاکٹر صاحب کا بے ساختگی سے لکھا یہ جملہ حساسیت سے کم نہیں ”اب علم نہیں کہ ان گلاسوں کا کیا استعمال کرتے ہیں، آسمان جانے ملتان جانے“ ۔

سینٹ پیٹرز برگ کے دریائے نووا کی رنگین و جمیل اور مخلوط طرز کی راتوں کی دلنشیں منظر نگاریاں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ”کشتی کا سفر اتنا رومان انگیز اور شہر کا حسن اس طرح ملکوتی ہوتا ہے کہ عام انسان بھی شاعر بن جاتا ہے“ ۔ مطالعے کے دوران کئی ایک مناظر ایسے آتے ہیں کہ پڑھنے والا چونک اٹھتا ہے۔ یہ کتاب عام سفر ناموں سے مختلف ہی نہیں بہت مختلف ہے۔ مناظر کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا گیا بلکہ مناظر کی داخلیت کو پوری جزئیات سمیت گرفت کیا گیا ہے۔ نظر کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کو روشن رکھنے اور تحیر کی دنیا میں سیاحت کرنے کا موقع ہر ہر باب میں ملتا ہے۔

جاپان میں برسوں سے مقیم پاکستانیوں سے ملاقات اور ان کی جاپانی بیویوں کے ہاتھوں پکے دیسی گوشت پلاؤ کی پر خلوص دعوت دینا واقعی پاکستانیوں کے خلوص کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن ان کا اپنی جاپانی بیویوں سے اس سوچ پر شادی کرنا کہ واپس پاکستان جاتے ہوئے ”طلاق“ دیں گے، ان کی اس سوچ پر افسوس ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے ”ہیچو جی“ کی مسجد میں ادا کی جانے والی عید الضحی کی نماز کے بعد بکرے کی قربانی کا ذکر نہ کر کے ہم جیسے گوشت خوروں کو جھنجوڑنے کے برابر ہے۔

ہیرو شیما، ترکی استنبول کی تاریخ لکھ کر ڈاکٹر صاحب نے کئی چھپے گوشوں کو پیش کر کے مورخین و محققین کے لیے تحقیق کے نئے دروازے کھول دیے۔ ثمرقند کی مساجد، مزارات، مدرسوں اور خاص کر امیر تیمور کی تعمیر کردہ مسجد کی تاریخ اور نادر شاہ کے ہاتھوں تاراجی اور لوٹ مار کی دلفگار الفاظ سے منظر نگاری آنکھوں میں نمی کا باعث بنی۔ ہندوستان کے سفر کو جس ادبی و ثقافتی رنگ کے ساتھ پیش کیا یہ واقعی ڈاکٹر صاحب کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے، چاہے وہ جے پور کا راج مندر نامی سینماء ہو، اجمیر شریف میں خواجہ غریب نواز کی درگاہ ہو، پرانی دلی کا لال قلعہ ہو، قطب مینار ہو یا پھر آگرہ کا تاج محل ہو۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی مٹی میں ایسی کشش ہے کہ ڈیرہ وال کہیں بھی ہو وہ اپنے شہر کے باسی کو ڈھونڈ نکالے گا۔ مٹی سے یہی محبت دلی میں ڈاکٹر صاحب کو ان اشخاص کے پاس لے گئی جنہوں نے خونی تقسیم کے وقت ڈیرہ کی سرزمین کو خدا حافظ کہا اور آج بھی ڈیرہ کی مٹی کو اپنے پاس مقدس تبرک کے طور پر رکھا ہوا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 204 صفحات مع تصاویر پر مشتمل سفر نامہ ”جہان حیرت“ تخیل کی رفعت، منفرد اسلوب، ذرف نگاہی، جودت طبع کے اعتبار سے انفرادیت کا حامل ہے۔ کہیں داستانوں جیسی رومان انگیز تحیر کی فضا، کہیں تصوف کی جھلک ما بعد الطبعیاتی کیفیت سے مزین، دلکش اور منفرد تشبیہات و استعارات اور خاص کر تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین مستند تحقیقی مواد اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ پانچ ممالک کی کی ثقافتوں، تہذیبوں، تاریخوں اور اجتماعی نفسیات کے بیان کا مرقع ہے جسے محنت، جانفشانی اور خلوص سے رقم کیا گیا ہے۔ مجھے اس سفرنامے کے مطالعے کے دوران بالکل بھی نہیں لگا کہ یہ کوئی کتاب یا سفری روداد ہے بلکہ مجھے یہی محسوس ہوا کہ میں خود وہاں سفر کر رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).