میں جو سچ کہوں


تم جانتے ہو کیا دنیا میں بہت سے خوبصورت لوگ بھی ہیں اس قدر خوبصورت کہ ہم جیسے لوگ جو ساری زندگی حسن کو پیروں کی دھول سمجھتے آئے ان کی نگاہیں بھی چند لمحوں کے لیے انہیں داد دینے کے لیے رک جاتیں اور سوچنے پہ مجبور ہو جاتیں کہ کیسا حسن ہے یہ۔ شاید حسن یوسف

بس یہ چند لمحوں کی ہی بات ہوتی پھر قدم خودبخود آگے بڑھ جاتے قدموں کا کیا ہے یہ تو طبلے کی تھاپ پہ نا چتی ہوئی طوائف کو دیکھ کر بھی رک جاتے۔ تم سمجھ تو گئے ہو گے حسن کی اوقات ہماری نظر میں۔ ہم نے حسین چہروں کو بازاروں میں بکتے دیکھا ہے اور حسین جسموں کو لب سیئے اس دنیا کی چکی میں پستے۔ ان حسین لوگوں کے صرف حسن کا طوطی بولتا ہے جبکہ سوچ کوزے میں بند اور زبان تالو سے چپکی ہوئی اور تم سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ یہ چار دن کی چاندنی ہے اور پھر اندھیری رات ہے اور لافانی کیا ہے صرف ہماری روح، سوچ، الفاظ اور عمل جو تب بھی باقی رہیں گے جب ہم مٹی ہو رہے ہوں گے۔

ہم انسانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کے پاس وہ نگاہ ہی نہیں جو روح تک پہنچ پائے۔ مادے سے بنے ہیں نا سو مادہ پرستی ہی کرتے رہیں گے اور ہمارے نزدیک روحوں تک صرف عامل با بے ہی پہنچ سکتے اور مزے کی بات یہ کہ ان بابوں کو بھی صرف بد روحیں ہی ملتیں اب تم یہ مت کہنا کہ اچھی روحیں ہی نا پید ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ کسی بھی شے کو پانے کے لئے چاہ چاہیے ہوتی ہے آپ حسن کی چاہ کرو گے آپ کو حسن ملے گا۔ آپ پیسے کی چاہ کرو گے دولت کے انبار لگیں گے۔ آپ روح کی چاہ کرو گے تو وہ مل جائے گی یہاں تک کہ تم کسی اپنے جیسے کی چاہ کر لو تو وہ مل جاتا۔ تم سمجھ رہے ہو گے کہ شاید میں کسی خواب میں زندہ ہوں نہیں میں اسی دنیا میں ہی ہوں میں نے ان سب کو ہوتے دیکھا ہے ہاں یہ ہو سکتا کہ میری اور تمھاری چاہ کی اصطلاح تفرق فرق ہوں

تو پس ثابت یہ ہوا کہ آخرکار جب ہر چاہت نے پورا تو ہونا ہی ہے تو کیوں نا ہم چاہ یوسف کی بجائے کسی با مقصد سوچ کی چاہ کر لیں۔

مجھے لگتا ہمارے ہاں بامقصد سوچ ناپید ہے اگر کہیں غلطی سے کہیں نظر آ بھی جائے تو ہم وبا وبا کا شور مچاتے یا تو اسے مجمعے سے بہت دور مٹی تلے دبا دیتے ہیں یا تیل ڈال کہ زندہ جلا دیتے کیونکہ ہماری نگاہ کو اسے دیکھنے کی عادت ہی نہیں رہی۔ نتیجتاً ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا جہاں ہماری سطحی نگاہیں دولت، حسن اور عہدے کے علاوہ کچھ اور دیکھ ہی نہیں پاتی۔ بامقصد سوچ اور اخلاقی قدریں جائیں بھاڑ میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).