”کاون“ ہاتھی اور عافیہ صدیقی


میں نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں قید ”کاون“ ہاتھی پر دو کالم لکھے۔ آج میرا ارادہ کچھ اور لکھنے کا تھا کہ مجھے اپنی ہونہار شاگرد کا فون آ گیا۔ میں اس فون کا ذکر کچھ دیر بعد کروں گی۔ پہلے یہ خبر کہ کاون بہ حفاظت کمبوڈیا کے وسیع و عریض قطعے میں پہنچ گیا ہے جہاں اپنے ساتھیوں سے اس کی دعا سلام شروع ہو چکی ہے۔ اس کے ہمراہ جانے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کاون نے سفر کے دوران ہرگز پریشان نہیں کیا۔

وہ معمول کے مطابق کھاتا پیتا بھی رہا۔ اونگھتا بھی رہا اور اپنے کمپارٹمنٹ میں بہت پر سکون رہا۔ ایسے جیسے وہ ہوائی سفر کرنے کا عادی ہو۔ ”کاون“ دنیا کا ”تنہا ترین“ ہاتھی قراردیا گیا جس کی آزادی کے لئے سوشل میڈیا پر ایک زور دار مہم چلی۔ اس مہم کو امریکی گلوکارہ ”شیر“ (Cher) نے آگے بڑھایا۔ جانوروں کے حقوق اور دیکھ بھال کی ساری تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کاون مظلومیت، اذیت اور تنہائی کی ایک علامت کے طور پر ابھرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ جب معاملہ اسلام آباد کی ہائیکورٹ پہنچا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک بہت ہی یاد گار فیصلہ دیتے ہوئے کاون کو آزاد کرنے اور دنیا کے کسی موزوں مقام پر پہنچانے کے احکامات جاری کر دیے۔

یہ تمام تفصیلات اب منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اسلام آباد کا چڑیا گھر خالی ہو گیا ہے۔ دو زخمی ریچھ رہ گئے ہیں جنہیں اسی ہفتے اردن روانہ کر دیا جائے گا۔ ”کاون“ کی کہانی دراصل ”انسانیت“ کی کہانی ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو دل دیا، جذبہ دیا، سوچ دی اور عمل کی توفیق بھی بخشی۔ جانوروں سے محبت، ان سے ہمدردی، ان کی عمدہ دیکھ بھال ہمارے دین کی تعلیمات کا اہم جزو ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں حضور پاک ﷺ کی احادیث مبارکہ کا ذکر کیا تھا۔

افسوس کی بات ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے ہمارا رویہ جانوروں سے دوستانہ نہیں۔ یہ امر باعث شرم ہے کہ پاکستان تحفے میں ملنے والے ایک ہاتھی کی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکا۔ اب جہاں کہیں بھی ”کاون“ کا ذکر آتا ہے پاکستان کا حوالہ آتا ہے، پاکستان کے چڑیا گھروں کی زبوں حالی کا ذکر آتا ہے اور ان چڑیا گھروں کے کار پردازوں کا ذکر آتا ہے جو جانوروں کی خوراک بھی خود ہڑپ کر جاتے ہیں۔ یقیناً قابل داد ہیں وہ خواتین و حضرات جنہوں نے سوشل میڈیا پر کاون کے لئے ایک زبردست مہم چلائی۔

اس مہم میں ”چوپایہ“ نامی تنظیم کا کردار سب سے نمایاں رہا۔ اور پھر امریکی گلوکارہ شیر (Cher) نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالا۔ وہ کاون سے ملنے امریکہ سے پاکستان آئی۔ اسے یہاں سے الوداع کہا اور پھر یہاں سے کمبوڈیا پہنچ کر ہوائی اڈے پر کاون کا استقبال کیا۔ اس ساری مشق پر کروڑوں روپے کے اخراجات آئے لیکن ہاتھی کو نجات دلانے کے لئے اسے کوئی بھاری قیمت نہ سمجھا گیا۔

میری شاگرد نے کاون پر لکھے میرے کالموں پر پسندیدگی کا اظہار کرنے کے بعد کہا۔ میڈم، کیا ساری دنیا میں کوئی ایسی تنظیم نہیں ہے، گلوکارہ شیر جیسی کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو سوشل میڈیا پر عافیہ صدیقی کے بارے میں آواز اٹھائے جو پچھلے سترہ سالوں سے امریکہ کے جیل خانے میں بند، پتہ نہیں کیسی کیسی مصیبتیں برداشت کر رہی ہے۔ معلوم نہیں، اب اس کا ذہنی توازن بھی ٹھیک رہا ہے یا نہیں۔ جن تنظیموں کو چوپایوں، جانوروں اور درندوں کا اتنا خیال ہے کہ وہ ان کے لئے کروڑوں روپے بھی خرچ کرتی ہیں، سوشل میڈیا پر مہمیں چلاتی ہیں، عدالتوں میں بھی جاتی ہیں، کیا انہیں انسانوں کے پاؤں میں پڑی زنجیریں نظر نہیں آتیں؟

کیا انہیں انسانوں کی آزادی، ان کے حقوق کا کچھ خیال نہیں؟ کیا عافیہ صدیقی جانوروں سے بھی زیادہ گئی گزری ہے۔ ”۔ وہ پتہ نہیں اور کیا کچھ کہتی رہی۔ فون بند ہو گیا لیکن مجھے یوں لگا جیسے وہ بچی اب بھی بولے جا رہی ہے۔ اس کی باتیں مسلسل میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور میں مسلسل اپنے آپ سے وہی سوال کر رہی ہوں جو اس طالبہ نے مجھ سے کیے تھے۔

عافیہ 2003 میں کراچی میں واقع اپنے گھر کے نواح سے اٹھائی گئی۔ بچوں سمیت اس کے غائب ہو جانے پر شور تو اٹھا لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ چار پانچ سال بعد وہ مبینہ طور پر غزنی میں پائی گئی۔ اس پر ایک بھونڈا سا الزام لگا کہ اس نے امریکی سپاہیوں سے بندوق چھین کر ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ ایک غیر ملکی خاتون صحافی نے بتایا کہ اس نے بگرام جیل خانے میں ایک خاتون کی چیخیں سنی ہیں جو یقیناً عافیہ تھی۔

اسے امریکہ لے جایا گیا۔ عدالت لگی اور امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ تک تعلیم حاصل کرنے والی پاکستان کی ذہین و فطین بیٹی کو 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ گھر سے غائب ہوئے اب اسے سترہ برس ہو گئے ہیں۔ وہ اس وقت ٹیکساس کی ایک جیل میں پڑی ہے جہاں نہ جانے کس طرح کی اذیتیں اس کا مقدر بنی ہوئی ہیں۔ جارج بش، اوبامہ، اور ٹرمپ میں سے کوئی اڑتالیس سالہ پاکستانی بیٹی کے لئے رہائی کا پروانہ جاری نہ کر سکا۔

پاکستان میں آمر پرویز مشرف کا دور تمام ہوا۔ زرداری صاحب کی صدارت آئی۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے۔ کسی نے امریکیوں کو قائل کرنے کی کوشش نہ کی کہ خدا کے لئے اب یہ بیٹی ہمیں واپس کر دیں۔ پانچ برس تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی۔ نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ ان کے لئے بھی شاید یہ کوئی بڑی ترجیح نہ تھی۔ اڑھائی سال سے عمران خان وزیر اعظم ہیں۔ کہا جاتا ہے ان کی ٹرمپ سے اچھی دوستی ہوئی لیکن عافیہ کے لئے ان کی طرف سے کوئی آواز نہ اٹھی۔

عافیہ ہی کیا؟ مقبوضہ کشمیر پر نظر ڈالیے۔ فلسطین پر نگاہ کیجیے۔ کیسے کیسے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں؟ کس طرح معصوم عورتوں کی عصمتیں لٹ رہی ہیں۔ بے گناہ لوگ گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کتنے جیل کی کوٹھریوں میں گل سڑ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے لئے بنی تنظیمیں خاموش ہیں۔ اس لئے کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ میں سوچتی ہوں اگر کاون بھی کلمہ گو مسلمان ہوتا تو یقیناً نہ شیر (Cher) کے خون میں ہمدردی جوش مارتی نہ ”چوپایہ“ یا کوئی اور تنظیم متحرک ہوتی۔

میں اپنی ہونہار شاگرد کو کیا بتاؤں کہ یہ دنیا اپنے اصول اور معیار رکھتی ہے۔ اسے ”کاون“ تو نظر آ جاتا ہے، عافیہ صدیقی یا اس جیسی سینکڑوں، ہزاروں نظر نہیں آتیں۔ کیونکہ ان کا تعلق اسلام سے ہے۔ اور مسلمان ان کے نزدیک کاون جتنے حقوق بھی نہیں رکھتے۔

کاون واقعتاً خوش قسمت ٹھہرا۔ آج وہ کمبوڈیا میں آزادی کے دن گزار رہا ہے۔ کاش ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی آزادی نصیب ہو۔ کاون کے ماں باپ تو کب کے چل بسے، البتہ عافیہ صدیقی کی بوڑھی دکھی ماں کی آنکھیں آج بھی دروازے پہ لگی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).