یہ رت ضرور بدلے گی!


ہر آنے والا دن اذیت ناک اور افسوس ناک محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے ایسا نہیں بھی ہو گا مگر غالب اکثریت کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے کیونکہ ایک طرف معاشی حالات ہیں جو خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب سیاسی صورت حال ہے جس میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ ہماری اجتماعی صحت بھی بدحال ہے۔ تعلیم و تربیت کا زبردست فقدان ہے مگر اب بھی حکمران طبقوں کو اس کی فکر نہیں وہ اپنے مفادات کو پیش نظررکھے ہوئے ہیں اور باہم دست و گریبان دکھائی دیتے ہیں۔

اور یہ بات بڑی عجیب ہے کہ سبھی عوام کے لیے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کو خوشحالی اور پر سکون بنانے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ ویسے سچ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں یا یہ کہہ لیجیے کہ اہل اقتدار و اختیار کبھی بھی آزادانہ پالیسیاں نہیں بنا سکے۔ شروع دن سے ہمارے اوپر مغربی ممالک نے احکامات جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے کہ یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا۔ ان کی خواہشات کا احترام اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ ایک تو ان کے زیر اثر عالمی مالیاتی ادارے تھے تو دوسرے ان کی مرضی کے بغیر کسی بھی حکومت کا قائم ہونا مشکل ہوتا لہٰذا ان کی ”تابعداری“ میں تہتر برس بیت گئے۔

اس دوران ہمارا ایک بازو ہم سے الگ ہو گیا۔ سماجی حالت مسلسل بگڑتی رہی قومی سوچ پروان نہ چڑھ سکی ہر حکمران کا ایجنڈا غیر عوامی ہوتا اس کی کوشش ہوتی کہ وہ عوام کے بجائے اپنے ”مغربی دوستوں“ کو خوش کرے لہٰذا آج ایک تلخ اجتماعی صورت حال نے جنم لیا ہے اس کے باوجود ہماری سیاسی جماعتیں اور دیگر ذمہ داران ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہو رہے وہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے میں مصروف ہیں کہ اس نے اتنا قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اور اس نے اتنا اخبارات اور ٹیلی ویژن کیس سکرینوں پر نفرت آمیز بیانات کو پڑھ، دیکھ اور سن رہے ہیں۔

لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔ یہ اقتدار والے اور اقتدار سے باہر حضرات آخر کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آپس میں لڑیں نہیں یہ سوچیں کہ عوام کے مسائل کس طرح حل کرنے ہیں۔ سرحدوں پر منڈلاتے خطرات سے کیسے نمٹنا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ وباؤں کو کیسے شکست دینا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں ایک ایسی وبا بھی آنے والی ہے جو انسانوں کے دماغوں پر خطرناک اثرات مرتب کرے گی۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور کچھ قوتیں ہمارے ساتھ کیا اقدامات اٹھا نے والی ہیں ان سے متعلق سوچ بچار نہیں ہو رہی۔ بس اقتدار کے لیے ہر کوئی کوشاں ہے کوئی اسے بچانے کے لیے اور کوئی اسے حاصل کرنے کے لیے حکمت عملیاں بنا رہا ہے؟

اس سیاسی کشمکش میں زندگی زخموں سے چور ہو چکی ہے آخر وہ کب تک ستم سہہ سکتی ہے تہتر برس تو ہو گئے ہر برس اسے یہ آس رہی کہ وہ دکھوں سے نجات پا لے گی اسے راحتیں میسر آئیں گی۔ امن کی فضا میں کھل کر سانس لے گی مگر ہر برس اس پر بھاری ہوتا گیا۔ اسے اپنی راہ میں کانٹے بکھرے ہوئے ملے جس پر اسے چلنا تھا وہ مجبور تھی کہ اسے جینا تھا مگر کسی نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا کہ وہ سسک رہی ہے۔ تڑپ رہی ہے۔

افسوس صد افسوس کہ اسے کسی نے دلاسا بھی نہیں دیا۔ کسی جانب سے حوصلہ افزا صدا نہیں سنائی دی۔ سبھی نے اپنا مقصد حاصل کیا اور آگے بڑھ گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ لوگ لاتعلق سے ہونے لگے ہیں انہیں اپنی ذات کے علاوہ کسی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ سوچ ان کی یکسر بدل چکی ہے۔ مزاج میں غیر سنجیدگی در آئی ہے۔ اس کے ساتھ بے زاری بھی ان میں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ زندگی کو ایک بہت بڑا بوجھ سمجھنے لگے ہیں تو غلط نہ ہو گا؟

بہرحال ہمارے بزرگ پھر بھی تھوڑی سکون بھری زندگی بسر کر گئے۔ اب تو سکون نام کی کوئی چیز باقی نہیں لہٰذا ہر دن سوچوں اور آہوں میں گزرتا ہے نوجوان طرح طرح کے سہانے خواب دیکھتے ہیں مگر پورے نہیں ہوتے ٹیلنٹ کو کوئی پوچھتا تک نہیں۔ وہ اپنے آپ آگے بڑھے تو بڑھے۔

ہر لمحہ خوف، ہر سانس ایسے جیسے دوہری دھار کا خنجر چلے اور ہر چہرہ اداس! کتنے بے بس ہیں ہم لوگ کہ جو کرنا چاہتے ہیں نہیں کر پاتے کرنے کا ارادہ کرتے بھی ہیں تو رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں مگر کیا یہ سب ایسے ہی چلے گا۔ کوئی سویرا بھی ہو گا؟

یہ رت بدلے گی یا خزاں کی زردی یونہی ہر سمت پھیلی رہے گی۔ اس کا جواب نہیں میں ہو سکتا ہے مگر ان لڑائیوں، الزام تراشیوں اور ہنگامہ آرائیوں کا ختم ہونا شرط ہے لہٰذا دست بستہ عرض ہے اپنے حکمران طبقوں سے کہ وہ اب ہی ان عوام کا کچھ سوچ لیں کہ یہ ہمیشہ آپ کے پیچھے بھاگتے رہے ہیں۔ انہوں نے اقتدار تک پہنچانے کا راستہ ہموار کیا آپ کے کاروباروں کو ترقی دلوائی اور آپ لوگوں نے خوب مزے لوٹے مگر ان کے لیے وہ کچھ نہ ہو سکا جو انہوں نے سوچا۔

تسلیم کہ ہم بڑی طاقتوں کے زیر اثر رہے ہیں جنہوں نے ہماری آزادیاں چھین لیں اس کے باوجود کچھ اختیارات آپ کے پاس تھے مگر آپ نے انہیں اپنے لیے استعمال کیا۔ لہٰذا اب جب ہم بدل گئے ہیں اور ہماری پالیسیاں ایک نیا انداز اختیار کرنے جا رہی ہیں تو بھی کیا غریب عوام محروم منزل رہیں گے نہیں کیونکہ ہم جن کے ساتھ مل کر نئے سفر کا آغاز کرنے جا رہے ہیں، ان میں زندگی زخمانے والی کوئی سوچ نہیں لہٰذا اب آزاد فضاؤں میں جینے کا موقع مل رہا ہے جسے ضائع نہیں کیاجانا چاہیے۔ اور یہ جو جھگڑے ہیں مل بیٹھ کر ختم کر لیے جائیں۔ امید کے دیے کو بجھنے سے بچانا ہو گا چند اختیار کے لیے ہمیں گریبانوں تک نہیں پہنچنا۔ یہ ہمیشہ کسی ایک کے پاس نہیں رہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے اسی میں سب کی بہتری ہے چشم تصور سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک نئی صبح طلوع ہو رہی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).