ڈاکٹر ریاض توحیدی کے افسانوں میں کشمیر


ایک عہد میں چند ادیب ہی ایسے پیدا ہوتے ہیں جو اپنی قابلیت اور صلاحیت کے بل پر ادب میں مشہور، فائز المرام اور قارئین کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ علم وادب کی دنیا میں اپنی منفرد اور الگ پہچان بنانا اور اپنے قارئین کا حلقہ وسیع تر کرنے میں محنت، مطالعہ، تخیل، فکروسوچ اور منفرد اسلوب چاہیے تب جاکے کامیابی و کامرانی اور تحریرات و تخلیقات ادب عالیہ میں شمار کرنے کے لائق ہوجاتی ہیں۔ اس کے لیے جو پیمانے ناقدین نے مقرر کیے ہیں، ایک ادیب کو ان معیارات کی کسوٹی پر کھرا اترنا پڑتا ہے۔

اردو افسانے کی بات کی جائے تو اس کے جو مختلف ادوار ہمارے سامنے آتے ہیں، ان میں بہت سے نام ایسے ہیں جنہیں بہت جلد مقبولیت اور قبولیت حاصل ہوئی۔ جنہیں قبول عام حاصل ہوا انہوں نے افسانے کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا۔ اردو افسانہ کو پریم چند نے گاؤں کی بھینی بھینی خوشبو اور کھیت کھلیانوں کی بو باس دی۔ سعادت حسن منٹو نے افسانے کو طوائف کی زندگی کے شب روز دیے اور جنس کو بے باکی سے برتنے کا انداز سکھایا۔ کرشن چندر نے رومانوی فضا اور اظہار کی مختلف صورتیں عطا کیں۔

راجندر سنگھ بیدی نے ملائم احساس اور جزئیات نگاری سے نوازا۔ انتظار حسین نے اردو افسانے کو علامتی اسلوب اور داستانوی فضا دی۔ ان بین الاقوامی شہرت یافتہ افسانوں نگاروں کے علاوہ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے فکشن نگاروں نے اردو افسانے میں یہاں کے کہساروں کی خوبصورتی، آبشاروں کا رم جھم برسنا، حسین نظاروں کی منظر کشی، سسکتے لوگوں کی آہیں، کرب انگیز فریاد، مہندی لگے ہاتھوں کا پھیکاپن، بوڑھے کندھوں پر جوانوں کے جنازے جیسے موضوعات کو برتا۔

یہاں کے افسانہ نگاروں میں کچھ گمنام رہے اور کچھ نے بہت جلد قبولیت اور پذیرائی کے پائدان طے کیے ۔ پریم ناتھ پردیسی سے لے کر نور شاہ تک۔ ایسے بہت سارے نام سامنے آتے ہیں جنہوں نے نہ صرف کامیاب افسانے لکھے بلکہ اپنا انفرادی مقام بھی بنایا۔ ان کی بعد کی نسل کے افسانہ نگاروں میں ایک معتبر نام ڈاکٹر ریاض توحیدی کا ہے۔ انہوں نے اپنے منفرد افسانوی اسلوب، فکشن تنقید اور جدید موضوعات کو افسانوی پیکر میں ڈھالنے کی وجہ سے نہ صرف کشمیر بلکہ اردو کی افسانوں تاریخ میں اپنی ایک مخصوص شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ادب کے افق پر یہ درخشندہ ستارہ چہارجانب روشنی پھیلارہا ہے، جس کی وجہ سے یہ ادبی حلقوں میں نہ صرف اپنے منفرد اسلوب اور دلکش انداز بیان کی وجہ سے معروف ہیں بلکہ شہرت اور بلندی کے اس مقام تک جا پہنچا ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے ریاضت، تخلیقی صلاحیت اور فنی ہنرمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری نہ صرف تحقیق و تنقید کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں، جس کے جوہر وہ جہان اقبالؔ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبال شناس اور معاصراردو افسانہ تفہیم و تجزیہ میں دکھا چکے ہیں، بلکہ افسانہ لکھنے کے فن کے استاد بھی ہیں۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے ابھی تک منظر عام پر آچکے ہیں، کالے دیوؤں کا سایہ اورکالے پیڑوں کا جنگل۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کی افسانہ نگاری اوران کی تخلیقی سرگرمیوں سے متعلق وادی کشمیر کے ایک معتبر افسانہ نگار نور شاہ اظہار خیال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔

”ڈاکٹر ریاض توحیدی نے اپنی تخلیقی سرگرمیوں کا آغاز اس وقت کیا جب کشمیر پر آشوب دور سے گزر رہا تھا۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس دور کے بہت سارے حالات، واقعات اور بہت ساری باتیں ان کے ذہن میں جگہ بنا گئیں۔ ان کی اکثر کہانیوں کے کردار انسانی زندگی کی تلخیوں، الجھنوں اور ناکامیوں کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر اور خوشحال مستقبل کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔“

(پیش لفظ۔ کالے پیڑوں کا سایہ از نور شاہ)

مذکورہ اقتباس کے پیش نظرجب ڈاکٹر ریاض توحیدی کے افسانوں کاجائزہ لیا جائے تو ان کے بیشتر افسانوں میں کشمیر نظر آتا ہے۔ انہوں نے ایک محب وطن اور خوددار ادیب کی طرح اپنے افسانوں میں نہ صرف کشمیر کے رنج و الم کی دلدوز کہانیاں لکھی ہیں بلکہ وہ افسانے کے ذریعے کشمیر کی حالت زار کا پیغام دنیا تک پہنچانے میں بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔ ایک جینوئن افسانہ نگار کی حیثیت سے کشمیریوں کے درد و کرب، ا فراتفری، دکھ درد، بے چینی، گمشدہ افراد کے گھر والوں کی حالت زار، اپنوں کے انتظار میں حسرتوں سے تکتی نظروں کو بیان کرتے ہوئے ایک حساس اور ہمدرد ادیب کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔ جس کا اشارہ چند برس پہلے معروف نقاد پروفیسر قدوس جاوید نے یوں کیا تھا:

”ریاض توحیدی کواردو افسانہ کی روایت، شعریات اور موضوعاتی اور اسلوبیاتی رویوں کی آگہی ہے لہذا انہیں اپنی سوچ وفکراور تخلیقیت کے سرمایہ کو نہ صرف محفوظ رکھنا ہے بلکہ اسے اور بھی زیادہ مضبوط ومستحکم بھی کرنا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ اردو کی عام بستیوں میں بھی بحیثیت افسانہ نگار ریاض توحیدی اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ (مضمون: کالے دیوؤں کا سایہ۔ )

اور آج واقعی ریاض توحیدی کشمیر سے لے کر عالمی سطح پر بحیثیت افسانہ نگار اور ناقد اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

انتظار حسین کے بعد اردو افسانے میں علامتی اسلوب بہت کم ادیبوں نے اپنایا۔ جس بات کو زبان پر لانے سے خوف و کھٹکا لگے اس کو علامت کے تخلیقی غلاف سے ڈھانپ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی نے بھی علامت نگاری کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ان کے علامتی افسانوں میں کالے پیڑوں کا جنگل، کالے دیوؤں کا سایہ، سفید ہاتھی، سفید تابوت، سفید خرگوش اور کالے دیو، سفید جنگ، ہائی جیک، گلوبل جھوٹ، کشمیر نواز، دردکشمیر وغیرہ علامتی افسانے کی بہتریں مثالیں ہیں۔

”زمین حسن خیز کی پر سکون وجان بخش فجائیں۔ قرنوں سے۔ کالے دیوؤں کے آسیب سے سحر زدہ تھیں۔ یہ آفت زدہ وادی کشمیر نواز کے سنہرے خوابوں کی حسین تعبیر تھی اور اس کی ستم زدہ نسل، ایک مدت سے، کالے دیوؤں کے حکم جابری کی تابعداری کرتے ہوئے جھیل ولر کی منجمد سطح کے اوپر ننگے بدن

آسمان تلے جان لیوا سردی میں برف کے بت بنی ہوئی تھی۔
(افسانہ۔ کشمیر نواز)

”سفید ہاتھی آندھی کی طرح ان کے گلستانوں کی طرف بڑھ رہے تھے اور ان کے کھیت کھلیانوں کو تباہ کرتے جا رہے تھے۔ وہ اپنی لمبی لمبی سونڈوں کی بدبودار سانسوں سے ان خوشبو دار چمن زاروں کو زہر آلود کرتے

جا رہے تھے اور اپنے پتھر جیسے بھاری پاؤں سے ان چمن زاروں کے رنگ برنگے پھولوں کو مسل رہے تھے۔ ”(افسانہ: سفید ہاتھی)

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری مسلسل اردو افسانے اور افسانوی تنقید کے گیسو سنوار رہے ہیں۔ آپ کے افسانے نہ صرف کشمیر کے ادبی رسائل و جرائد کی زینت بنتے ہیں بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح کے رسائل وجرائد میں بھی چھپتے رہتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں کشمیر کی ستم زدہ قوم کی آہوں، نالوں ’سسکیوں، المناکیوں اور گرد و پیش کے مظالم کی تصویر کشی کے حقائق کو فن کا جامہ پہنا کر فنی مہارت اور لوازمات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ زبان وبیان صاف، شائستہ اور اغلاط سے پاک ہے۔ واقعات کو تخیل کی پرواز سے پر اثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اردو کے بلند پایہ ناقد پروفیسر حامدی کاشمیری کے بقول:۔

”ان پر ( ریاض توحیدی) حقیقت نگاری کا اسلوب حاوی نہیں، وہ جانتے ہیں کہ فن کے رموز کیا ہیں اور ان کو اچھی طرح لفظوں میں منتقل کرتے ہیں۔ ریاض توحیدی کو زبان و بیان پر پورا عبور حاصل ہے۔ وہ افسانے کے واقعات کو بہت حد تک فرضیت میں مبدل کرتے ہیں اور یہی ان کے افسانہ نگاری کی پہچان ہے۔

(کالے دیوؤں کا سایہ۔ حامدی کاشمیری)

ڈاکٹر ریاض توحیدی ایک بہتریں انسان، دیدہ ور نقاد، باصلاحیت اور منجھے ہوئے افسانہ نگار اور ادیب ہیں۔ انہوں نے اردو افسانے میں مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح کے موضوعات کو عمدہ اسلوب میں برتنے کے ساتھ ساتھ بے باک انداز سے فنی عکاسی کی ہے۔ وہ نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ شعور کو بیدار کرنے والا اور منفرد فکر کا حامل تخلیق کار ہیں۔ بقول پروفیسر حامدی کاشمیری:

”نئی نسل، جس کی نمائندگی ریاض توحیدی کر رہے ہیں، گہرے شعور اور فکر و نظر کی تازہ کاری کے اوصاف کی حامل ہیں۔ توحیدی کی انفرادیت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ ’زہر ہلال کو قند‘ کی صورت عطا کرنے کے حق

میں نہیں ہیں۔ ”(تاثرات۔ حامدی کاشمیری)

ڈاکٹر صاحب کے افسانے ایک تازیانے کی طرح ذہن پر پڑتے ہیں اور فکر کو بیدار کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر نہ صرف فکر بیدار ہوتی ہے بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ کوئی کشمیری جب ان کے افسانے پڑھتا ہے تو اسے وہ اپنی ہی کہانی نظر آتی ہے۔ بڑی بے باکی، نڈرپن اور سچائی سے واقعات کو تخلیق کرتے ہیں۔ ریاض توحیدی ادب برائے تعمیر کے قائل ہیں۔ اپنے افسانوں سے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے اور ان میں انقلابی روح پھونکنے کے قائل ہیں۔ وہ افسانے میں گل و بلبل کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ سچائی کی وہ جوت جلانا چاہتے ہیں جس کی لو مدھم اور دھیمی پڑ گئی ہے۔ ان کے اپنے خیال میں :۔

”اردو کے بیشتر افسانوں میں سچائی کو خاموشی کے غلاف میں چھپایا جا رہا ہے اور ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت دونوں سچائیوں کو خاموشی کے قالب میں بند کیا گیا ہے۔ جس تحریر سے سوچ میں بدلاؤ نہیں آئے گا، انقلاب نہیں آئے گا وہ تحریر اثر پذیر قوت سے محروم رہ جاتی ہے۔“

(چند باتیں :کالے پیڑوں کا جنگل۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی)

کشمیر پچھلی کئی دہائیوں جس پرآشوب دور سے گزررہا ہے اس کی عکاسی ڈاکٹر ریاض توحیدی کے کئی افسانوں میں نظر آتی ہے جن میں سنگ باز، کالے پیڑوں کا جنگل، کالے دیوؤں کا سایہ، ناکہ بندی، ٹوٹتی جوانیاں، قتل قاتل اور مقتول، ڈپریشن، ہوم لینڈ، چھوڑ دو، گمشدہ قبرستان، جنازے، مشن القدس، میرا کشمیر، ہمارے بچوں کو بچاو اور دردکشمیر وغیرہ افسانے شامل ہیں۔ افسانہ ”سنگ باز“ میں دو ہم جماعت دوستوں کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔

گلستان ڈاکٹر اور بوستان انجینئر بننا چاہتا تھا۔ دونوں کے دل قوم کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔ گلستان خان ڈاکٹر اس لیے بننا چاہتا تھا تاکہ اپنے قوم کے سیکڑوں زخمیوں کا علاج کر سکے اور بوستان شاہ کے انجینئر بننے کے پیچھے یہ خیال کارفرما تھا کہ وہ اپنے قوم کے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر ازسر نو کر سکے۔ دونوں معصوموں کا خواب ادھورا رہتا ہے۔ کیونکہ کالے دیو ان کے جذبات کو برداشت نہیں کرتے ہیں اور انہیں ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔ لیکن افسانے کا اختتام مایوس کن نہیں ہے بلکہ سیاہ رات کا خاتمہ ہونے اور اجالا پھیلنے کے پرامید پیام پر ہوتا ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار زخمی طالب علم گلستان کے یہ الفاظ دیکھیں جو اسپتال میں دم توڑتے وقت غم زدہ ماں سے کہتا ہے :

”ماں۔ مجھے میرا زخمی دوست علاج کے لئے بلا رہا ہے۔ آس کے جسم سے خون بہہ رہا ہے۔ ماں۔ مایوس مت ہونا۔ اندھیرابھاگ رہا ہے۔ اور۔ اور اجالا آ رہا ہے۔“

(افسانہ:سنگ باز)

ابتر حالات کی وجہ سے آئے دن کے کرفیو اور بندیشوں کی وجہ سے یہاں کی عوام کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پریشان حال اور حالات کے مارے لوگوں پر کیا کیا بیتی ہے کو افسانہ ”ناکہ بندی“ میں موضوع بنایا گیا ہے۔

مصنف کے الفاظ میں۔

” بنجر زمین کے بنجر ذہن آدھی باسیوں نے سر سبز اور شاداب وادی کے بے مثل مہمان نواز انسانوں کا دانہ پانی بند کر رکھا ہے“

( افسانہ۔ ناکہ بندی)

بشر ملک کا پورا خاندان درہم برہم حالات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اپنے بچے کے لیے دودھ کے ڈبے کو بم کا نام دے کر اس کو ناحق قتل کیا جاتا ہے۔ ناکہ بندی سے ذہینی کوفت کے ساتھ معاشی بدحالی کے شکار بشیر ملک کے چار ماہ کا بچہ بھوک سے بلک رہا تھا۔ ماں سے نہ رہا گیا وہ اس کو اسپتال لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے درندوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتی ہے اور معصوم بچہ سمیت جان بحق ہوتی ہے۔ دخل یاب نے جنت نما ارض کو جہنم کا نمونہ بنایا ہے۔

موت کا ڈر، روز اٹھتے جنازوں سے پژمردہ کیفیات، بے یقینی، زندگی کے پچھے تیزی سے دوڈتی موت، ذہینی تناؤ، ویرانی کے مناظر، خون ٹپکتی لاشیش، خوشحالی کے خواب اور گھر کے اندر ہی محصور اور قیدی ہونے کا تذکرہ افسانہ جنازے میں کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ اس آفت زدہ بستی کی روداد سنا رہا ہے جہاں طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک جنازے اٹھتے رہتے ہیں۔

مختصر یہ کہ اگر کشمیر کو دیکھنا ہو توڈاکٹر ریاض توحیدی کے افسانوں کو دیکھنا پڑے گا۔ ان کی کہانیوں میں کشمیر کادردوکرب، ظلم وتشدد، محکومی و بے بسی، پسماندگی اورسماجی ہم آہنگی کا فنی مرقع پرتاثیرانداز سے نظر آئے گا۔ ریاض توحیدی کے افسانے مزاحمتی افسانے کی نمائندہ مثال ہیں۔ ان کے افسانہ کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر محمد اسلم اپنے ایک انگریزی مضمون Oozing Woundsمیں لکھتے ہیں :

’Dr Tawheedi Has used an appropriate expression to highlight the plight and pathos that Kashmiris have gone through endlessly for ages now. ”

جہاں اردو کی بستیاں آباد ہیں ڈاکٹر ریاض توحیدی کا نام بحیثیت افسانہ نگار گونج رہا ہے اور ان کی تخلیقات کو دیکھ کر یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں ان کے ادبی قد میں مزید اضافہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).