اف یا واہ۔ یعنی افواہ


افواہ کیا ہے؟ سوال پیدا ہو گیا نہیں نہیں یہ سوال کا پیدا ہونا ہی افواہ ہے۔ دراصل افواہ اردو کے دو لفظوں سے بنا ایک الفاظ ہے۔ جس میں پہلا لفظ اف ہے جس میں پیش کو آرام دے کر صرف اف لیا گیا اور پھر واہ کو اس کے ساتھ رشتہ میں جوڑ دیا اس سنگین امتزاج سے وجود میں آنے والے الفاظ کو افواہ کہا اور لکھا گیا۔ افواہ میک اپ کر کے آئے تو اسے انگریزی میں پروپیگنڈا کہا جاتا ہے اور اگر بغیر میک اپ کر کے آ جائے تو جھوٹ کہلاتا ہے۔

ویسے اس کے مترادف الفاظ میں بے پرکی، بازاری خبراور اڑائی ہوئی خبر شامل ہے پر میرے معصوم کراچوی ذہن کے نزدیک اس سے مراد ”ٹوپی“ بھی ہے۔ کیونکہ ٹوپی یعنی سفید جھوٹ اور افواہ یعنی کالا جھوٹ۔

افواہ کی بالکل آسان تعریف ؛ اس تعریف سے مراد Definition والی تعریف ہے ورنہ یہ الفاظ کسی تعریف کے قابل تو نہیں۔ بہرحال افواہ کی آسان ترین تعریف یہ ہے کہ کوئی ایسی ”خبر“ جس کی فوری طور پر تصدیق نہ ہو سکیں مگر عوام میں بہت کم وقت میں مشہور ہو جائے بلکہ عوام بھی اس کو حقیقت سمجھ بیٹھے۔ افواہ اڑتی نہیں ہے بلکہ اڑائی جاتی ہے اور اڑانے والے کا مقصد مخالف کے طوطے اڑانے ہوتے ہیں۔ اس افواہ کے پیچھے کوئی سیاسی داؤ پیچ بھی ہو سکتا ہے یا پھر کوئی ذاتی مقصد بھی یا فقط عزتیں اچھالنے ہی مقصود ہوتا ہو۔ لیکن تمام افواہوں کو ذرا سائیڈ میں رکھ کر یہ بات تو سو اور ہزار فیصد درست ہے کہ افواہ اڑانے والا کردار دراصل خود مشتبہ ہوتا ہے جو اپنے اٌڑے اٌڑے کردار کی عکاسی کرتے ہوئے مشتبہ باتیں پھیلاتا اور اچھالتا ہے۔

افواہ نہ صرف سیاست و حکومت کے لئے ضروری ہے بلکہ سسرال اور میکے کی خواتین کا بھی کمال اور موثر ہتھیار ہے۔ باوثوق ذرائع کی دانش کے مطابق دور قدیم میں افواہ اڑانے کا پہلا ذریعہ خواتین تھیں اور آج بھی خواتین ہی اس مقام پر فائز ہیں اور سوشل میڈیا بتدریج دوسرے نمبر پر موجود ہے۔ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ”جب دو خواتین بیٹھتی ہیں تو اندازے سے تیسری خواتین کے بارے میں جو کانٹے جھڑتی ہیں وہ چوتھی خاتون کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اس وعدہ سے کہتی ہیں کہ تم کسی کو نہیں بتاؤگی مگر وہ چھوتی خاتون کسی کو تو نہیں بتاتی بلکہ سب کو بتادیتی ہیں۔“ پیر صاحب دراصل چار شادیاں کرچکیں ہیں اور نئے نئے دولہا میاوں کو کامیاب شادی ٹپس کی کلاسز دیتے ہیں۔ کیونکہ چار چار بیویوں کو بیک وقت سنبھالنے والے ”پیر صاحب“ ہی ہوسکتے ہیں۔

ارے ہم افواہ پر تھے اور خواتین تک جا پہنچیں۔ ویسے یہ خواتین بھی عجب جاذبہ رکھتی ہیں، ہر تلخ موضوع ان کے قدموں تک پہنچ کر قدم بوسی کرنے لگتا ہے۔ بھئی افواہ کا موضوع ہے اور ہم اتنا سچ سچ کہہ رہے ہیں۔ اب تو موضوع کو کچھ خوراک دینی ہی ہے تو بات یہ ہے کہ افواہ ایک ہی وقت میں تین قسم کے لوگوں پر اثر ڈالتی ہے۔ پہلی قسم جو افواہ کو سن کر اف کرتے ہیں اور دوسرے افو کرتے ہیں اور تیسری قسم واہ واہ کرتی ہے۔ کیونکہ اڑائی جانے والی افواہ پہلی قسم کے لوگوں کے لئے اف کا درجہ رکھتی ہے جو ان کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

دوسری قسم معاشرے کے شریف لوگ ہوتے ہیں یہ واحد دو نمبر ہیں جو شریف ہیں تو بھئی اس افواہ سے معاشرے میں غلط فکر قائم ہوتی ہے جو ان کے لئے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اسی طرح تیسری قسم وہی ہوتی ہے جنھیں افواہ سے فائدہ پہنچتا ہے اور وہ واہ واہ کرتے ہیں اور دراصل یہ ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو افواہ کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ یعنی جھوٹ کے دادا اور افواہ کے ابو ہوتے ہیں۔

افواہ ویسے اتنے کام کی چیز ہے کہ بہت سے لوگ افواہ اڑا اڑا کر دیکھتے ہیں کہ بھئی ہم کتنے مشہور ہیں۔ ایک شاعر اپنی غزل میں اپنی مشہوری چیک کرنے کے لئے فرماتے ہیں

جس کو سن کر مرے دروازے پہ لگ جائے ہجوم
اس طرح کی کوئی افواہ اڑائے کوئی
بات اس سے بھی آگے نکل گئی اور مرنے مرانے کی افواہ تک پہنچ گئی۔ ایک اور غزل میں شاعر فرماتے ہیں
آتا ہے کون کون ترے غم کو بانٹنے
زاہد تو اپنی موت کی افواہ اڑا کے دیکھ

اب دیکھئیے افواہ کیسے کیسے گل کھلارہی ہے تو بھئی ہمارا فقط یہ ہی مشورہ ہے کہ افواہ سے دور رہیں اور سچ کا دامن تھامئیے ورنہ ایسا نہ ہوں آپ بھی علاقے اور سسرال میں ”پھینکوں“ کے نام سے مشہور ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).