بٹ گھرانوں کا فیضان۔۔اور لیموں کی ادھوری داستان!


\"waqar

ان دنوں ایکسپریس ٹی وی کے پروگرامنگ سیکشن میں دعوتوں کا موسم چل رہا تھا۔ ہر کچھ دن بعد کسی گھر میں اکٹھ ہوا کرتا۔ ان دعوتوں کے روح رواں پروگرامنگ سیکشن کے ہیڈ ایوب صاحب اور ان کے لطیفے ہوتے۔ ایسے ہی ایک دن کسی دعوت کے حوالے مینو پر بحث ہو رہی تھی۔ میں سمیرا لطیف کو کہہ رہا تھا کہ نہاری پر مجھے کیا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن لمبی والی سبز مرچ کو باریک کاٹنا ضروری ہے جبکہ ادرک کو کچھ اس طور تراش دینی ہے کہ رنگ خراب نہ ہو ۔ ابھی میں دھنیے کی بابت بتانا ہی چاہ رہا تھا کہ ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک خوبرو سمارٹ سا لڑکا فیضان بٹ جو چھلاوے کی طرح حاضر غائب ہوتا رہتا تھا کا رنگ لال ہو چکا ہے۔ آنکھوں میں ایک نمی سی ہے اور لگ رہا ہے جیسے ابھی رو دے گا۔ میں خاموش ہو گیا۔۔
پوچھا۔۔بٹ کیا ہوا ہے؟
بٹ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔استاد جی سبز مرچوں کی بات آئندہ نہیں کرنی بالخصوص اگر کوئی ہری مرچ کو باریک کاٹ کر نہاری کے اوپر ڈالنے کی بات کرے تو میں رو پڑتا ہوں، پھر بٹ اٹھا اور میرے گھٹنو ں کو چھوتے ہوئے کہا۔۔استاد جی مائنڈ نہیں کرنا بس آپ کو اس معاملے کی حساسیت کا نہیں پتہ ۔ لیکن آپ احتیاط تو کر سکتے ہیں۔

\"faizan-butt-1\"یہ کہہ کر بٹ باہر نکل گیا اور میں اور سمیرا حیرانگی سے اس کو جاتا دیکھتے رہے۔

یو ٹیوب پر ایسی ویڈیوز دستیاب ہیں جو دس دس گھنٹوں کے سفر پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یعنی ٹرین کے انجن کے سامنے کیمرہ لگا ہے اور سفر کو ریکارڈ کر رہا ہے ۔ اسی ریکارڈنگ کو بعد میں یو ٹیوب پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ میں اس طرح کی ویڈیوز کو بہت دیکھا کرتا تھا۔ لیکن دیکھتا اس طور تھا کہ جیسے میں خود سفر کر رہا ہوں۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ اگر آپ ٹرین پر سفر کر رہے ہوں تو ہر تھوڑی دیر بعد ٹرین روک تو نہیں سکتے۔ اس لیے سفر شروع کرنے سے پہلے میں ڈیپارٹمنٹ میں اعلان کرتا کہ میں فلاں جگہ سے فلاں جگہ جا رہا ہوں ، کسی نے کوئی ضروری بات کہنی ہو تو کہہ لے۔
میرے ساتھ ایکسپریس اخبار کے مستقل کالم نگار اصغر عبداللہ بیٹھتے تھے۔ ہزار نظریاتی اختلافات کے باوجود وہ بھی میرے اس سفر کا احترام کرتے ۔ کبھی کبھی اٹھتے اور کیفے سے مونگ پھلیاں اور ریوڑیاں میری میز پر رکھ دیتے ۔ میں زہر آلود نظروں سے دیکھتا تو کہتے۔۔معذرت چاہتا ہوں لیکن یہ مونگ پھلیاں اور ریوڑیاں لایا ہوں تاکہ آپ کا سفر خوشگوار گزرے ذرا دل بھی بہلا رہتا ہے۔ لیکن اس حرکت کے علاوہ وہ کبھی پریشان نہ کرتے۔ (ایک دو دفعہ کسی ضروری کام کی وجہ سے ایک چٹ پر انہوں نے کچھ لکھا اور میری طرف بڑھا دیا جس پر مجھے ایک سخت ردعمل دینا پڑا لیکن اصغر عبداللہ جو ناول نگار عبداللہ حسین کے دوست تھے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے تھے پھر انہوں نے کبھی چٹ پر بھی کچھ نہ لکھا چاہے قیامت ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے)
ایسے ہی ایک دن جولائی میں ، شدید برفباری کے دوران ماسکو سے سینٹ پیٹر برگ جا رہا تھا۔ آٹھ گھنٹے کا سفر تھا۔ گھنے جنگل تھے ۔ درختوں پر برف لدی تھی۔ کہیں گھنٹوں بعد کوئی ذی روح پر نظر پڑتی۔ راستے میں آنے والے سٹیشن ویران تھے ۔شاید کسی سٹیشن پر اکا دکا سواری اپنے کتے کے ساتھ بینچ پر بیٹھی ہوتی۔ میں سفر میں مگن تھا کہ فیضان بٹ داخل ہو ا۔ مجھے کھینچتے ہوئے کہنے لگا ۔۔استاد جی گل سنو۔۔
میں حواس باختہ ہوگیا۔ میرے منہ سے صرف اتنا نکلا کہ بٹ دفع دور ہو جاؤ میں سینٹ پیٹر برگ جا رہا ہوں۔

\"faizan-butt-3\"بٹ نے ایسے کہا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔استاد جی دفعہ کرو سینٹ پیٹر برگ نوں۔۔گڑھی شاہو دی ایک گل سن لو۔۔
بٹ کبھی جپھی ڈالتا کبھی ہاتھ باندھتا اور کہتا۔۔استاد جی قسمے صرف ایک گل سن لو۔۔تہاڈی مہربانی صرف ایک گل۔۔فیر بھانویں سینٹ پیٹر برگ جاؤ یا لالہ موسیٰ۔
میں غصے کو پیتا ہونٹ چباتا بٹ کے ساتھ ہو لیا۔ ڈیپارٹمنٹ سے باہر نکل کر راہداری میں کھڑے ہو گئے
بٹ کہنے لگا، استاد جی گل پوری سننی اے فیر بھانویں گولی مار دیو۔۔ لیکن پلیز ۔۔
میں نے کہا اچھا جلدی سے شروع کرو۔۔
بٹ کی آنکھیں سراپا شرارتی تھیں۔ اس کو جاننے والے جانتے ہیں کہ بٹ آدھی باتیں آنکھوں سے کرتا تھا۔ ساتھ ساتھ ہنستا بھی جاتا۔ اس قدر توانائی شاید ہی میں نے کسی میں دیکھی ہو۔
بٹ اور اسکی آنکھیں کہنے لگیں۔۔ استاد جی اماں نے کل شام کو چھ بجے پائے گلانے کے لیے ہانڈی کو آگ پر رکھا۔
پوری رات گلتے رہے گلتے رہے گلتے رہے گلتے رہے گلتے رہے گلتے رہے ۔۔
بس کر دے ۔۔ میں نے کہا
استاد جی دس بجے صبح یہ حالت تھی کہ ہڈی کو ہاتھ لگاؤ تو ابلے آلو کی طرح نرم محسوس ہو۔۔
یہ کہہ کر بٹ فرط جذبات سے رکوع میں چلا گیا۔ اس کے لگاتا ہنسنے کی آواز مزید زہر لگ رہی تھی۔
میں نے کہا۔۔بٹ تو نے یہ بتانے کے لیے میرے سفر کا ستیاناس کیا ہے
کہنے لگا نئیں نئیں اصل گل اگے آئے گی۔ استاد جی میں بے بے کو کہا کہ تو اب ہانڈی بنا اور میں لوازمات بناتا ہوں۔ میں نے ہری مرچیں لیں۔ لمبی تو تھیں ہی چمکدار ایسی کہ نگاہ نہ ٹھہرے اور ٹھہرے تو ہری مرچوں میں اپنا چہرہ ایسے دکھائی دے جیسے صاف آئینے میں دکھائی دیتا ہے۔
میں واپس جانے لگا تو بٹ نے بھاگ کر میرا راستہ روکا۔ ہاتھ باندھ کر کہنے لگا ۔۔استاد جی گل پوری سننی اے ۔۔
میں رک گیا اور بٹ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔ ہری مرچوں کو میں نے لمبائی میں باریک کچھ اس طرح کاٹا کہ لچھے سے بن گئے۔ ہری مرچ کے بیجوں کو پھینکا نہیں بلکہ علیحدہ سے ایک جگہ اکھٹاکر کے رکھ دیا۔ استاد جی ہری مرچوں کا پچیس فی صد حسن اس کے بیجوں میں چھپا ہے۔۔
پھر میں نے دھنیا اور پودینہ کی گڈیوں کو ملا دیا اور ان باریک کاٹنا شروع کیا۔ استاد جی چھوٹا چھوٹا ۔۔سمجھتے ہیں ناں آپ ۔۔
میں واپس بھاگا ہی تھا کہ بٹ نے مجھے آلیا۔۔کہنے لگا میرا آپ کا مذاق تھوڑا ہے ۔ اصل میں ایک سنجیدہ بات کرنی تھی لیکن تمہید ضروری تھی۔ میں بادل ناخواستہ بٹ کے ساتھ پھر واپس مڑا۔

\"faizan-butt-2\"استاد جی ادرک کاٹنے کو لوگوں نے پتہ نہیں کیا سمجھ رکھا ہے۔
بڑا ہی باریک کام ہے خدا کی قسم ۔ خوشبو برقرار رکھنے کے لیے ایک خاص زاویے سے کاٹنا پڑتا ہے۔
میں نے غصے سے کہا۔۔ بٹ بہت ہو گئی اب ختم کرو یہ سب ۔۔ مجھے پتہ ہے جو سنجیدہ بات تم نے کرنی ہے۔
بٹ پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا اور رکوع میں چلا جاتا۔
ایک ہاتھ پیٹ پر رکھا تھا ۔ آنکھوں میں پانیوں کے پیچھے شرارت رقص کرتی تھی۔
میرا ایک بازو بٹ نے زور سے پکڑ رکھا تھا۔ ہنستے ہنستے ایک بہت ہی قلیل وقفے میں اس نے سانس بحال کرنے کی کوشش کی ۔۔
میں نے ہاتھ چھڑا لیا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ بٹ نے بڑی مشکل سے پھر مجھے آلیا۔۔
سانس کی بحالی کے دوران اس کے منہ سے مشکل سے ایک لفظ نکلا وہ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر۔۔
استاد ۔۔۔جی۔۔۔وہ۔۔لی۔۔۔لی۔۔لیم۔۔۔لیموں
پتہ نہیں یہ کیسا لمحہ تھا کہ میں اپنی بے بسی ۔۔۔یا بٹ کے چہرے کو دیکھ کر ۔۔ہنس ہنس کر اس طرح دہرا ہوا کہ دفتر کے فرش پر پھسکڑا مارے بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی فرش پر فیضان بٹ ہنستے ہنستے فرش پر لیٹ چکا تھا۔
ایک دفعہ دفتر میں بیٹھے بیٹھے بٹ کے منہ سے نکلا تھاکہ ۔۔میں اور میرا بھائی گھر میں ایک دوسرے پر چھریوں سے حملہ آور ہو گئے۔۔
میں نے کہا بٹ کیا کہہ رہے ہو۔۔ مارنا تو دور کی بات ۔۔تمھارا جیسا آدمی چھری اٹھا بھی کیسے سکتا ہے؟
بس استاد جی بات ہی کچھ ایسی ہو گئی تھی۔ انسان کو تقدیر ایسے اندھے موڑ پر لے آتی ہے جب سگے بھائی پر بھی چھری اٹھانی پڑ جائے۔ اس نے بھی مجھے چھریاں ماری تھیں ۔ یہ کہہ کر بٹ بازو کی آستین چڑھا کر ہمیں نشانات دکھانے لگا۔
میں نے پھر کہا لیکن بٹ ہوا کیا تھا۔۔
بٹ کہنے لگا ۔۔ استاد جی میرے حصے کے پائے کھا گیا تھا۔
ہم دفتر کے سارے دوست حیران ہو کر بٹ پر جھکے پڑے تھا۔ بٹ تمھارا دماغ خراب ہے یعنی پائے کے لیے تم لڑ پڑے۔۔
بٹ نے جواب دیا۔۔ یار اس نے کوئی میرا موٹر سائیکل لے کر نہیں بیچ دیا تھا نہ ہی میری کسی گرل فرینڈ کو لے گیا تھا کہ اس کو معاف کردیتا کہ چلو خیر ہے بھائی ہے چھوڑو۔ معاملہ یہ تھا کہ وہ میرے حصے کے پائے کھا گیا تھا۔

\"faizan-butt-4\"
یہ سن کر مجھے پھر وہ دن یاد آ گیا جب ہری مرچوں کے تذکرے پر بٹ نے کہا تھا ۔۔۔۔ استاد جی مائنڈ نہیں کرنا بس آپ کو اس معاملے کی حساسیت کا نہیں پتہ ۔ لیکن آپ احتیاط تو کر سکتے ہیں۔

بس ایسا ہی تھا ہمارا بٹ۔ میڈیا کے تمام چینلز میں مقبول۔ آدھی جگت زبان سے ادا کرتا آدھی آنکھوں سے۔ دور سے آتا دکھائی دیتا تو وہ زمین بھی خوبصورت دکھائی دیتی۔ ایک دفعہ کچھ مذموم مقصد کے لیے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے پاس گیا اور کہا کہ فلاں جگہ آپ نے میرے والد یا بڑے بھائی کے طور پر آنا ہے ۔ اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ مان گئے۔۔کیوں مان گئے؟

اس سوال کا جواب وہ جانتے ہیں جو فیضان بٹ کو جانتے ہیں۔ بھلا فیضان بٹ کو انکار کون کرے۔
گھر میں باتھ روم کے گیزر سے آگ لگی ۔ ایک ہفتہ آئی سی یو میں رہا اور فوت ہو گیا۔
دل کرتا ہے اس کی قبر پر جاؤں اور کہوں ۔۔بٹ میں لعنت بھیجتا ہوں سینٹ پیٹر برگ پر۔۔لیموں سے داستان کو آگے بڑھا۔۔میں سنتا ہوں!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments