عمران خان اکیلے ہیں یا اپوزیشن متحد نہیں ہے؟


گزشتہ روز میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان نے یہ اعتراف کیا کہ اپوزیشن کے اعتماد میں اضافہ ہؤا ہے۔ انہوں نے اگرچہ اسے ممکنہ طور پر ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ قرار دیا جس کی گواہی اب وفاقی وزیر شیریں مزاری نے یہ کہتے ہوئے دی ہے کہ ’حکومت کے پاس معلومات ہیں کہ پی ڈی ایم کو بیرون ملک سے امداد مل رہی ہے‘۔ روز نامہ ڈان کو دیے گئے انٹرویو میں البتہ وہ ان معلومات کا کوئی ثبوت موجود ہونے کی تصدیق نہیں کرسکیں۔ ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان سیاسی طور سے تنہا ہیں۔ اور ایک پیج پر موجود جس دوسری قوت پر وہ بھروسہ کرتے ہیں، کیا وہ اس کی مکمل اعانت سے محروم ہو رہے ہیں؟

وزیر اعظم اور تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی اس حد تک تو مبنی بر حقیقت ہے کہ اس وقت انہوں نے ملک کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ محاذ آرائی شروع کی ہوئی ہے۔ صرف وہی سیاسی جماعتیں یا گروہ حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں جو کسی نہ کسی طور سے اقتدار کا حصہ ہیں۔ اس لین دین میں البتہ تحریک انصاف بھی ان گروہوں کی اسی قدر محتاج ہے جتنا ان سیاسی عناصر کو اقتدار تک رسائی کے لئے عمران خان کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ (ق) ہو یا متحدہ قومی موومنٹ، ان دونوں کو بھی حکومت سے مرکز کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں متعدد شکایات ہیں۔ مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ کے ماضی پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ حکومتی اشتراک میں ان کی شمولیت بھی ایک پیج ہی کی کرامت ہے۔ اگر کسی صورت نام نہاد سول ملٹری تعاون کمزور پڑتا ہے تو حکومت کی ڈوبتی کشتی کو چھوڑنے والوں میں سرفہرست مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم ہی ہوں گی۔

ملک میں بظاہر اس سیاسی انتشار کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں۔ لیکن پاکستانی سیاست میں ظاہری سطح سے کسی اختلاف، بے چینی یا ہلچل کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان تہ دل سے یہ مان رہے ہوں کہ انہیں فوج کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے لیکن اگر اپوزیشن کے ساتھ تصادم کی صورت حال حقیقی مقابلہ کی شکل اختیار کرتی ہے تو ان کا یہ خیال باطل ثابت ہو۔ ملکی اسٹبلشمنٹ کو سیاسی مہرے چلنے کا تجربہ عمران خان اور ان کے قریب ترین رفقا میں سب سے زیادہ ہے۔ بلکہ عمران خان نے جب اقتدار کے لئے سیاسی راستہ بدلنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے نتیجے میں وہی لوگ ان کے قریب آئے تھے جن کی وفاداریاں درحقیقت اپنے مفادات یا دوسرے لفظوں میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اب ان میں سے کچھ لوگ اگر عمران خان کی آنکھیں اور کان بنے ہوئے ہیں تو اس بازی میں درحقیقت وزیر اعظم بے بس ہی دکھائی دیں گے۔

اپوزیشن کی طرف سے ملک میں حکومت گرانے کی جس مہم کا سلسسلہ شروع کیا گیا ہے، اس میں اسٹبلشمنٹ کو خاموش لیکن اہم ترین کردار کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اگر معاشی، سیاسی اور دیگر معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر قیمت پر عمران خان کی حمایت جاری رکھے گی تو اپوزیشن آدھا پاکستان بھی سڑکوں پر لے آئے تو بھی سیاسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اپوزیشن کو اگر کسی تبدیلی کے براہ راست اشارے موصول نہ ہوئے تو وہ بھی احتجاج کو کسی انتہائی مقام تک لے جانے سے گریز کرے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جمہوری تحریک میں شامل جماعتوں میں پیپلز پارٹی بھی شریک ہے جو اپنے سیاسی حجم و حیثیت کے علاوہ سندھ میں حکومت قائم کئے ہوئے ہے۔ کسی بھی سیاسی تصادم کی صورت میں پیپلز پارٹی کا اسٹیک سب سے زیادہ ہوگا۔ اسے ایک طرف سندھ کی حکومت سے محروم ہونا پڑے گا تو دوسری طرف اسمبلیوں سے استعفوں کی صورت میں وہ سینیٹ میں اپنی سیاسی قوت قائم رکھنے میں بھی ناکام رہے گی۔

کہا جاسکتا ہے کہ غیرمتزلزل طور سے اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنے رہنے کی صورت میں اگر واقعی نئے انتخابات ہوتے ہیں تو شاید پیپلز پارٹی کو سندھ میں دوبارہ حکومت مل جائے گی۔ تاہم ایسی کسی سیاسی تصویر میں سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوگا جو پنجاب اور مرکز میں اقتدار تک پہنچنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ اس لئے یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا کہ پیپلز پارٹی کیا کسی جمہوری اصول کی خاطر دیرینہ حریف مسلم لیگ (ن) سے مزید ایک مرحلے میں بازی ’ہارنے‘ پر تیار ہے یا وہ عین وقت پر کوئی ایسا سیاسی پینترا بدل سکتی ہے جس سے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں شروع کی گئی احتجاجی تحریک کا خاتمہ بالخیرہوجائے۔ ملکی سیاسی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں لہذا اس مرحلے پر کوئی بھی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ البتہ یہ طے ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک اگرچہ جمہوری قوتوں کو بااختیار کرنے کے لئے شروع کی گئی ہے لیکن آئینی بالادستی کے نعرے کے درون خانہ سیاسی ضرورتیں اور مفادات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کو متحد ہونے کے باوجود اسمبلیوں سے استعفے دینے کے سوال پر سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد اگرچہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کی اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ 31 دسمبر تک سب ارکان اپنے استعفے پارٹی قیادت کے پاس جمع کروادیں گے لیکن اس دوران میڈیا میں بدستور یہ بحث ہورہی ہے کہ کیا واقعی پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفے دے کر سندھ حکومت سے دستبردار ہوجائے گی؟ اگرچہ یہ امکان ہے کہ اپوزیشن کے استعفوں کی صورت میں ایسا سیاسی بحران پیدا ہوجائے گا کہ نئے انتخابات ناگزیر ہوجائیں۔ لیکن اول تو ملکی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ اپوزیشن نے کسی اختلاف پر اتنی بڑی تعداد میں اتفاق رائے سے اسمبلیوں سے استعفے دیے ہوں۔ دوسرے ایسا سنگین بحران پیدا ہونے کی صورت میں جمہوریت کو عارضی طور سے لپیٹ دینے کا خطرہ بھی موجود ہے ۔ اس افسوسناک لیکن ممکنہ متبادل کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی اپوزیشن کے لئے بیک وقت استعفے دینے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ وہ یہ آخری قدم اسی وقت اٹھائے گی جب اسے اس کے ’نتیجہ‘ کے بارے میں پہلے سے کوئی یقین دہانی حاصل ہو گی۔

اسمبلیوں سے استعفوں کے سوال پر پیپلز پارٹی ہی مشکل کا شکار نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی درون خانہ مزاحمت اور بحران کا سامنا ہے۔ دو روز قبل پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ اگر پارٹی فیصلہ کے بعد کسی رکن نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا تو عوام ان کا گھیراؤ کریں گے‘۔ اس انتباہ کی سختی سے قطع نظر، یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ پارٹی میں استعفے دینے کے خلاف مضبوط رائے بہرحال موجود ہے۔ اسے نظر انداز کرنا پارٹی قیادت کے لئے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اگر پارٹی نے کسی غلط فہمی کے نتیجہ میں استعفوں کا اعلان کر دیا اور سینٹ میں چئیرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی کی طرح بعض ارکان نے عین وقت پر استعفی دینے سے انکار کر دیا یا پارٹی قیادت کو پیش کئے گئے استعفوں سے منحرف ہو گئے تو نواز شریف اور مریم نواز کی قیادت کو شدید جھٹکا لگے گا۔

یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مسلم لیگ (ن) پر نواز شریف کی دسترس کے باوجود شہباز شریف متبادل سیاسی رائے رکھتے ہیں اور مفاہمانہ حکمت عملی اختیار کرنے کے حامی رہے ہیں۔ گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف نے فوجی قیادت کے خلاف جن بے باک خیالات کا اظہار کیا، ان پر شہباز شریف کی کوئی رائے سامنے نہیں آئی۔ وہ اور ان کی سیاست کے وارث حمزہ شہباز اس وقت نیب کی حراست میں ہیں۔ ملک میں سیاسی تصادم اگر کسی ایسے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں نواز شریف کی ’اصول پرستی‘ کی بجائے شہباز شریف کی مفاہمانہ حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی گئی تو اس امکان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ اچانک شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ ضمانت پر رہا ہوجائیں اور ملکی سیاست میں مار دھاڑ کی صداؤں کی بجائے ’جیو اور جینے دو‘ کا نعرہ بلند ہونے لگے۔

مولانا فضل الرحمان کی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت کی زندگی کا فیصلہ کرنا شاید عمران خان کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ اس کا فیصلہ اپوزیشن کرے گی۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اپوزیشن خود اپنی زندگی اور حتمی کامیابی کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتی۔ ملک کی سیاسی تحریک میں حقوق کے لئے چلنے والی کسی بھی تحریک کی طرح موجودہ پاکستان جمہوری تحریک بھی صرف اصولوں کی بنیاد پر استوار نہیں ہے۔ سیاسی ہتھکنڈے اور موقع کی مناسبت سے چال چلنے کی مہارت، اب بھی حتمی فیصلہ میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔ تب ہی یہ طے ہوگا کہ عمران خان تنہا ہو چکے تھے یا اپوزیشن ہی انہیں اکیلا اور بے بس کرنے کے قابل نہیں تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali