عہد سال نو اور عہد ہائے گزشتہ


پھر ہماری دیواروں پر آویزاں، میزوں پر سجے اور الیکٹرانکس میں نمایاں، ہندسے اپنی ترتیب بدلنے کو ہیں اور ایسا ہونے میں نہ ہی ہماری ذہانت اور حکمت کا کوئی دخل ہے اور نہ ہی یہ ہماری کسی جستجو اور ہنر کا شاخسانہ ہے۔

وقت کی رفتار، اپنی گردش، ہمہ وقت جاری رکھتی ہے، یہ جانے بغیر کہ کون شریک سفر ہے اور کون غبار راہ کا شکار ہوا۔ منزل پر پہنچنے والے اور منزل سے دور رہ جانے والے، سبھی، وقت کے پائدان پر موجود ہوتے ہیں مگر سرخرو ہونے کا احساس صرف ان ہی کو ہوتا ہے جو اپنے ہدف، منزل اور طے شدہ راستے سے باخبر اور یکسوئی سے، اس پر گامزن ہوتے ہیں۔

کامیابی کے سفر میں آخر وہ کیا زاد راہ ہے جو کسی کو ہمکنار اور کسی کو محرومی سے دوچار کر دیتا ہے۔ آخر، یہ دن، ہفتے، مہینے اور سال کی نبرد آزمائی ( اور مہم جوئی ) ، کیوں، کسی کی رائیگاں ہے اور کیوں کسی کے لئے ثمر آور! کیوں کوئی دائرے میں مقید رہتا ہے اور کیوں کوئی دائرے توڑ کر، بلندیوں کے نئے تکون سر کرتا چلا جاتا ہے۔

کیوں پشیمانی ہی کسی کا مقدر ہے اور کیوں کامرانی ہی کسی کا حاصل۔ وقت کی تائید، ہر کسی کو کیوں نہیں میسر اور کیا ایسا ہے، جس سے وقت، کہیں کترا کر گزرنا چاہتا ہے۔ وقت کا ہم قدم بننے کے لئے، وہ کون سے خانے ہیں، جن کا انتخاب ضروری ہے اور وہ کون سے نہاں خانے ہیں، جن سے اجتناب لازم ہے۔

نئی صبح کا سورج، ایک بار پھر، اس یاد دہانی پہ آمادہ ہے کہ آنے والے کل کو، گزرے ہوئے کل سے مختلف بنانے کے لیے، امکانات کی تلاش کی جائے۔ شاید یہ تب ہی ممکن ہے جب دیانت داری سے یہ طے کر لیا جائے کہ اب گزرے برسوں کی طرح، وہ نہیں کرنا، جو ہوتا رہا، گویا جو دکھائی دے، وہی دکھایا جائے، اور پھر دکھنے والی صورت حال کے لئے ویسی ہی تدابیر اختیار ہوں، جن کے لئے عقل ( نہ کہ مفاد) ، واقعات ( نہ کہ ذاتیات) اور استدلال ( نہ کہ خوش گمانی ) گواہی دے۔

اس مقصد کے حصول کے لئے، بہ ظاہر، کسی جوئے شیر لانے کی ضرورت نہیں، اگر ضرورت ہے، تو محض خود سے سچ بولنے کی ہے۔ یہ رویہ، تاریخ کے طالب علموں کے مطابق، راستے اور منزل دونوں کی نشاندہی کا ضامن بن سکتا ہے۔ اسی راستے سے کامیابی کی شاہراہیں نکلتی ہیں اور اسی راستے پر چل کر فتح یابی کی نوید، مقدر ہوتی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو مسائل کو سمجھنے کا شعور دیتا ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو الجھنوں کو سلجھانے کی ترغیب دیتا ہے۔

انسانی تاریخ اس بات کی چشم دید گواہ ہے کہ جو قومیں ترقی کرتی ہیں، وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں رکھتیں، عقاب کی طرح دور رس نگاہ سے کام لیتی ہیں۔ حقائق سے نظریں نہیں چراتیں، واقعات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، اسباب تلاش کرتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کی پردہ پوشی کی بہ جائے، خود آگاہی سے بہتری کے خواب تخلیق کرتی ہیں۔ اگر قوموں کی صف میں خود کو منوانے کی تڑپ کہیں بے تاب ہے تو ہمیں ماضی کی تمام کوتاہیوں اور لغزشوں کو رد کر کے، مستقبل کی تعمیر کے لئے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہمارا آنے والا کل، چشم پوشی نہیں، حقیقت پسندی کا آئنہ دار ہوگا۔

اگر ایسا کرنے میں ہمیں کامیابی ہوئی، تو پھر یہ قیاس مشکل نہیں، کہ ترقی کے بدلتے ہندسے بھی اس دعوی میں، ہمارے ہم نوا ہوں گے کہ یہ سب ہماری ذہانت اور حکمت کا نتیجہ ہے اور اس کے لئے بلاشبہ جستجو اور ہنر کو استعمال میں لایا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).