نرم مزاجی۔انسان دوستی کی طرف پہلا قدم


اکثر اوقات ہمیں اپنے سے وابستہ رشتوں سے گلے شکوے اور شکایات کا اندیشہ رہتا ہے اور ہمارے تعلقات میں گرم جوشی کا فقدان ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ خلا اتنا بڑھ جاتا ہے ہے کہ انسان اپنے حلقے کے لوگوں سے سے لاتعلقی اور فاصلہ برقرار رکھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اپنے اوپر ایک غیر مرئی خول چڑھا لیتا ہے جس سے اس کی اندرونی کیفیات کا پتہ لگانا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے

ہم اپنے قریبی رشتہ یا سماجی تعلقات کا کا گہرائی سے اندازہ لگانے کی کوشش کریں تو ہمیں اس بات کا ادراک ہوگا کہ شاید عملی طور پر ہمیں، ہمارے قریبی تعلقات نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا بلکہ کہیں بہت ہی گہرائی میں میں ہمارے ساتھ شاید بھلا کرنے کی ہی کوششیں کی ہے، مگر یہ ان کا ہمارے ساتھ الفاظ سے جڑا وہ تعلق ہے جو کہ ہمارے ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا ہے اسی لیے شاید ہمیں نرمی سے بات کرنے کی تلقین کی گئی ہے قرآن مجید کا لفظ ”ولیتلطف“ کا مفہوم بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ ہم اپنے معاملات میں نرمی اور احتیاط سے کام لیں۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں حضرت موسی کو بھی یہی تلقین کی تھی کہ فرعون سے نرمی سے بات کرنا۔ ہماری اسوۂ حسنہ بھی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ نرم لہجے میں بات کی۔ ہم اب ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں تکبر اور استحقاق سے بات کرنا امارت کی علامت سمجھا جاتا ہے گفتگو میں نرمی کا پہلا کم ہوتا جا رہا ہے۔ رشتوں میں دوری کی شاید یہی سب سے بڑی وجہ ہے ہے اپنے قریبی تعلقات میں گلے شکوے ہونا بڑی بات نہیں ہے مگر ان کا اظہار اگر اس بات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے کہ اگلے کو شرمندہ کرنے کے بجائے اس کی اصلاح کا پہلو سامنے ہو تو بہت سے رشتے اور تعلق اسی طرح ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے اندر نرم روی کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور غیرضروری تنقید اور تضحیک جس سے کسی کی دل آزاری کا خدشہ ہو اس سے پرہیز کرنی چاہیے شاید اسی طرح ہم ایک پر سکون زندگی کی طرف اپنی کوششوں کا آغاز کر سکیں اور یہی روایت ہمیں انسان دوستی کی طرف رہنمائی کر سکے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).