دیوار کی مرہم پٹی اور ننھی ڈاکٹر


یا الٰہی یہ کیا کر دیا! ہم باورچی خانے کے کاموں سے فارغ ہو کر باہر اپنے گھر کے لاؤنج کی طرف جیسے ہی آئے لاؤنج کی ایک طرف والی دیوار پر جگہ جگہ انسانی جسم کے چوٹ پر لگانے والی سنی پلاسٹ (اینٹی سیپٹیک میڈیکیٹڈ ڈریسنگ بینڈیج ) کی چھوٹی چھوٹی پٹیاں چسپاں دیکھی تو بے ساختہ ہی ہمارے منہ سے حیرانی اور بادل کی طرح گرجتے ہوئے زور سے بولے

سمجھ تو آ گیا تھا کہ ہونا ہو یہ ٹائیگرفورس کا ہی کام ہے لیکن کیا یہ ٹیم ورک ہے؟ یا ٹیم کے کسی فرد واحد کی کارروائی؟

لہذا فوراً ہی اپنی نظروں سے دیوار کا جائزہ لیا چوں کہ یہ پٹیاں دیوار کی ایک مخصوص انچائی تک لگی ہوئی تھیں لہذا تمام ثبوت اور شواہد کے لحاظ سے اندازہ ہو گیا۔ اپنی ساس کے اکلوتے بیٹے کی اکلوتی بیٹی کو اپنے سامنے آنے کے لیے زور سے آواز دے کر طلب کیا اور اپنی کمر پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر نیچے جھکتے ہوئے چار سالہ پاپا کی پری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑے غصے میں دیوار پر لگی تمام اینٹی سیپٹیک میڈیکیٹڈ ڈریسنگ بینڈیجز کی موجودگی پر سوال پوچھا کہ یہ شاندار کام کس کا ہے؟

امی میں نے لگائی ہے، بیٹی نے جواب دیا اور ہمارا غصے والا لہجہ دیکھ کر دیوار کے ساتھ ہی چپک کر کھڑی ہو گئی جیسے کسی مجبور ساتھی کا دفاع کیا جا رہا ہو

یہ فرسٹ ایڈ کا ڈبہ کیا اس کام کے لیے آیا تھا؟ ہم نے وہیں کھڑے کھڑے تحقیقات کو مزید بڑھایا

صاحبزادی نے اپنی نظریں نیچے کر کے دیوار پر لگی ایک اینٹی سیپٹیک میڈیکیٹڈ ڈریسنگ بینڈیج پر اپنی انگلی رکھتے ہوئے جواب دیا کہ ”آپ نے ہی تو بتایا تھا کہ جب میں گراؤنڈ سے گھر کو آ رہی تھی تو گرنے سے میرے ہاتھ پر چوٹ لگی تھی اور میری اسکن پر آپ نے یہ بینڈیج لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس پٹی کے لگانے سے میرا درد بھی ختم ہو جائے گا اور میں ٹھیک بھی ہو گئی تھی تو میں نے اس دیوار پر بھی لگا دیا تاکہ اس کی چوٹ اور درد بھی ختم ہو جائے کیوں کہ پٹی لگاتے وقت آپ نے ہی بتایا تھا کہ درد تو اسے ہی معلوم ہوتا ہے جسے چوٹ لگتی ہے

اس بات کو سن کر نہ منہ سے بولے نہ سر سے کھیلے لیکن اپنے اندر ہی اندر کچھ اور بھی ٹٹولنے لگے کہ یا الہی! دیواروں کے بھی کان ہوتے اور ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا یہ سب تو سنا تھا پر دیواروں کو درد ہونا پہلی بار سن رہے

اسی کشمکش میں تھے کہ اچانک یاد آیا کہ ابھی بچوں کے اسکول کے 23 مارچ کے فنکشن کو ختم ہوئے کچھ دن ہی تو گزرے ہیں جس پر ہم دونوں میاں بیوی نے اپنی شہزادی کو ڈاکٹر بنا کر بھیجا تھا اور اب وہ ان میڈیکل والے کھلونوں سے روز کھیلتی بھی رہتی اور ڈاکٹر بن کر پورے گھر میں پھرتی رہتی لیکن احساس کے اس اعلٰیٰ درجہ پر پہنچ رہی تھیں کہ دیوار کے جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے سے اکھڑے کلر پینٹ کو انسانی جلد پر لگی چوٹ سمجھ کر اور ہماری ہی بتائی ہوئی بات کہ درد وہی جانتا جسے چوٹ لگی ہوتی کہ احساس کو سمجھ کر جگہ جگہ فرسٹ ایڈباکس میں رکھے اینٹی سیپٹیک میڈیکیٹڈ ڈریسنگ بینڈیج کے چھوٹی چھوٹی پٹیاں چسپاں کر دیے تھے

ہم تو اپنے اور اپنے شوہر کو ہی خدمت خلق کی اعلی مثال سمجھا کرتے تھے پر ہماری کھوپڑی بالکل چکرا گئی کہ یہ تو ہماری اپنی قدرتی ڈاؤن لوڈنگ ہم دونوں میاں بیوی کا ہی اپ گریڈ ورژن ہے اور بہترین و بدترین انسان بنانے میں جہاں معاشرہ، دوست احباب اور رشتہ داروں کی رفاہی شراکت شامل ہوتی ہے وہاں اس سے بھی پہلے والدین اپنے بچوں کو ان کے بچپن میں جو کھلونے، تربیت اور ماحول دیتے ہیں انسانی بچے ان کو استعمال کر کے ہی پھلتے پھولتے کیوں کہ ”ماں پہ پوت پتا پہ گھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).