نئی حکومت کا نیا پروٹوکول اور پرانا بوڑھا


سگنل کھلا اور گاڑیوں میں بیٹھے دنیا کے فارغ ترین لوگوں نے ہارن بجا بجا کر محشر بپا کر دیا۔

ایک ضعیف العمر ٹیکسی ڈرائیور کنفیوز ہو گیا۔ اس کے آگے پیچھے دائیں بائیں تمام آڈی، پراڈو، کییا سپورٹیج اور مرسیڈیزیں تھیں۔ اس نے ڈرتے بچتے بوکھلاتے ہوئے اشارہ آن کر کے سڑک کے انتہائی بائیں لین، جو کہ بائیک یا معذور افراد کے لئے مختص تھی، میں جانے کی کوشش کی۔

اتنے میں روٹرز، ہوٹرز اور سائرن کا شور اٹھا۔ ہٹو بچو کی آوازیں آنے لگیں۔ بوڑھا مزید بوکھلا گیا۔ اور تیزی سے موڑ کاٹتے اس سے ریس زیادہ دب گئی یا کلچ چھوٹ گیا کہ کیا، گاڑی بیچ سڑک میں بند ہو گئی۔

سائرن اب بہت قریب آچکے تھے۔ کوئی دس پندرہ گاڑیوں کا قافلہ تھا جن کے آگے آگے ٹریفک پولیس کے ہیوی بائیکس، اس سے پیچھے ڈولفن فورس کے ہیوی بائکس، دو ایمبولینسز، درمیان کی دو تین کالے شیشوں والی لمبی لمبی بکتر بند گاڑیاں جن کی چھتوں پر ناسا کے خلائی مشن کے مشابہ آلات نصب تھے شاید صاحب لوگوں کی تھیں باقی فارچیونرز اور وی گو ڈالے اور اسی قبیل کی دیگر مہنگی ترین گاڑیوں میں بھاری بھرکم جسامت کے مسٹنڈے، باڈی گارڈز اور نقاب پوش اہلکار انتہائی خوفناک اسلحہ لہراتے سڑک پر موجود گدھوں اور کتوں کو ڈانٹتے بے انتہا اوور سپیڈنگ میں آرہے تھے۔ کچھ مغلظات اور گالیاں بھی بک رہے تھے۔

تمام چھوٹی بڑی گاڑیوں میں سوار حشرات الارض سہمے ہوئے بندوقوں کی نالیاں دیکھتے ہی ایسے راستے سے ہٹ جاتے جیسے لیمن میکس کے اشتہار میں چکنائی برتن سے سمٹ جاتی ہے۔

بوڑھا اپنی کھٹارا ٹیکسی کو دوبارہ سٹارٹ کرنے کے واسطے سر پھٹول کر ہی رہا تھا کہ قافلہ اس کے سر پر پہنچ گیا۔

چر۔ چچچچررر۔ چررررررر زووں ں۔

بالآخر ٹیکسی سٹارٹ ہو گئی۔ لیکن بزرگ ابھی اسے سڑک کے بائیں جانب لے جا نہ پایا تھا کہ اسلح بردار اہلکار بندوق کی نالی اس پر تان کر دھاڑا
”او گدھے کے بچے ادھر سے پرے دفعہ ہو۔ دیکھتا نہیں کہ۔ ۔ ۔ ۔ناقابل تحریر مغلظات۔“
زاں زاں زاں کی آواز سے سارا قافلہ گزر گیا۔

یہ نئی حکومت تھی جس میں روٹ اور پروٹوکول ختم کر دیے گئے تھے کہ یہ گزشتہ کرپٹ حکومتوں کے دور کی یادگار تھے۔ حکومتی اہلکاروں کے گزرنے کا یہ نیا طریقہ وضع کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).