کیا تحریک انصاف کی حکومت پی ڈی ایم کو مذاکرات کی دعوت دینے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے؟


پی ڈی ایم
حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خلاف شروع کی گئی تحریک میں جوں جوں تیزی آرہی ہے اور اس میں لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شریک ہو رہی ہے ویسے ویسے حکومت کی طرف سے حزب مِخالف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکیرٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کو مذاکرات کی دعوت دینے میں کسی حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

چند روز قبل سیالکوٹ میں وزیراعظم عمران خان نے پی ڈی ایم کو مذاکرات کی دعوت دی اور اس کے بعد اب وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے جمعے کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ایسی شخصیات جو حکومت اور اپوزیشن میں احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں وہ آگے آئیں اور مذاکرات کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ تلخیاں کم ہوں کیونکہ ایسا ہونا ملک کے لیے ضروری ہے‘۔

اس سے پہلے حکمراں جماعت کے افراد یہ کہتے نظر آتے تھے کہ حزب مِخالف کی جماعتیں اپنی مبینہ کرپشن چھپانے کے لیے اکھٹی ہوئی ہیں اور حکومت کسی کو این آر او نہیں دے گی۔

حکومت کے اس سخت رویے کے بعد اب مذاکرات کی دعوت دینے پر حزب مخالف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

31 دسمبر تک تمام پارٹیوں کے اراکین اپنے استعفے قیادت کو جمع کروا دیں گے: اپوزیشن کا فیصلہ

استعفوں کی سیاست کس کے لیے فائدہ مند اور کسے نقصان پہنچائے گی؟

’جو عوام کے ووٹوں کو بوٹوں کے نیچے روندتا ہے ہم اسے سلام نہیں کرتے‘

حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کا کہنا ہے کہ اگر شروع میں ہی حزب مخالف کی جماعتوں کو حکومت کے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے مذاکرات کی دعوت دی جاتی تو کبھی بھی حالات میں اتنی تلخی نہ آتی جتنی اس وقت ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے سیکرٹری اطلاعات کامل علی آغا کا کہنا ہے کہ حکومت کبھی بھی حزب مخالف کی جاعتوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیا کرتی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مذاکرات ہی جمہوری عمل کی بنیاد ہیں اور اگر بنیاد ہی نہ رکھی جائے تو مسائل کا حل کیسے نکلے گا‘۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے ان حالات میں بھی اپنے اتحادیوں سے کوئی مشاورت نہیں کی کہ کیسے ان حالات سے نمٹا جائے۔

پی ڈی ایم

کامل علی آغا کا کہنا ہے کہ فریقین کو ’اپنی اپنی پوزیشنز میں تھوڑی سی لچک دکھانی ہوگی‘ اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ’تیسری طاقت اس سے فائدہ اٹھائے گی‘ جس سے نقصان نہ صرف حکومت کا بلکہ حزب مخالف کی جماعتوں کا بھی ہوگا۔

اُنھوں نے پاکستان تحریک انصاف کی پالیسوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ان کی جماعت سے جو کہ حکمراں اتحاد میں شامل ہے، ’کبھی بھی کسی معاملے میں مشاورت نہیں کی‘۔

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں جو رواداری تھی وہ اب ختم ہو رہی ہے اور اس کی جگہ تلخیوں نے لے لی ہے۔

کامل عل آغا کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ان کی جماعت سے مشاورت کی تو چوہدری برادران یعنی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی ان کو ’مخلصانہ مشورہ دیں گے‘۔

وفاقی وزیراطلاعات شبلی فراز کا بھی یہ بیان سامنے آیا ہے کہ حکومت حزب مخالف کی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن یہ ’مذاکرات ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ ملکی مفاد میں ہونے چاہییں‘۔

اُنھوں نے کہا کہ احتساب کا نعرہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے اس لیے حکومت اس نعرے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اہم جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے بارے میں سوچ بچار 13 دسمبر کے لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد ہوگی۔

عمران خان

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اب مذاکرات حکومت کے ساتھ نہیں ہوں گے بلکہ اگر کوئی سنجیدہ شخصیات اپنا کردار ادا کریں تو ان کو ضامن کے طور پر لیتے ہوئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسی کونسی شخصیات ہو سکتی ہیں جو کہ غیر متنازعہ ہوں تو خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان ہو سکتے ہیں تاہم ان میں ’سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور میاں ثاقب نثار شامل نہ ہوں‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’تصدق حسین جیلانی جیسی شخصیات اب بھی غیر متنازع ہیں‘۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات کا مقصد غیر جمہوری طاقتوں کا سایہ جمہوریت سے ہٹانا ہے جن کی وجہ سے ملک میں جمہوریت پھل پھول نہیں رہی‘۔ اس کے علاوہ اس بات کو ’یقینی بنانا ہے کہ ملک میں آئندہ جب بھی انتخابات ہوں تو اس میں ان غیر جمہوری طاقتوں کا کوئی کردار نہ ہو‘۔

وزیراعظم کا یہ الزام کہ حزب مخالف کی جماعتیں این آر او لینے کے لیے اکھٹی ہوئی ہیں، اس پر خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ نہ حزب مخالف کی جماعتوں نے این ار او مانگا ہے اور نہ ہی وزیراعظم کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیار ہے۔

پی ڈی ایم

اُنھوں نے کہا کہ نیب کے قوانین میں ترامیم کے حوالے سے حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے درمیان جو مذاکرات ہوئے تھے وہ ’فوج کی چھتری کے نیچے ہی ہوئے تھے اور ان اجلاسوں میں ہونے والے مذاکرات کے درمیان ایک مسودے کو بنیاد بناتے ہوئے ان مذاکرات میں شریک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ حزب مخالف کی جماعتیں حکومت سے اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمات کے خاتمے کے لیے این آر او مانگ رہی ہیں‘۔

اُنھوں نے کہا کہ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے سے پہلے اس ’اتحاد میں شامل جماعتوں کے نظریات مختلف تھے لیکن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی سوچ اس نکتے پر ہی مرکوز رہی کہ غیر جمہوری طاقتوں کے ملکی سیاست میں کردار کو ختم کیا جائے‘۔

خرم دستیگر کا کہنا تھا کہ 8 اگست سنہ 2008 کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا جبکہ ٹھیک دس سال کے بعد عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

اُنھوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران ریاستی ادارے آزادانہ طریقے سے کام کر رہے تھے لیکن اب ان ’اداروں میں بھی ایک گھٹن کا سا ماحول ہے‘۔

حکومت کی طرف سے حزب مخالف کی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دینے کے لیے ابھی تک کوئی کمیٹی تو نہیں بنائی گئی تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کہتے ہیں کہ کچھ حکومتی شخصیات نے ان سے رابطہ کیا ہے۔

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمٹ کو ہی دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کو اپنے مؤقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا اور لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کی نظر میں ایسی شخصیات جو ملک کے اہم عہدوں پر فائض رہی ہیں اور اب وہ ریٹائر ہو چکی ہیں، وہ ویسا کردار ادا نہیں کرسکتیں جس طرح کا کردار ملٹری اسٹیلشمنٹ کر سکتی ہے۔

سہیل ورائچ کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کا جلسوں کے بعد اگلا مرحلہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ لانگ مارچ سے پہلے اور لانگ مارچ کے بعد سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر پی ڈی ایم کی قیادت کو گرفتار بھی کرلیا جاتا ہے تو پھر بھی سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہی ہوگا۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے امن وامان قائم رکھنے میں ناکام ہوں تو پھر فوج کو ہی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جب سنہ 2014 میں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو اس وقت مذاکرات فوج نے ہی کیے تھے اس کے علاوہ فیض آباد میں تحریک لبیک کے دھرنے کے دوران علامہ خادم رضوی سے مذاکرات بھی فوج نے کیے تھے۔

سہیل ورائچ کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادر کی تحریک میں جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا تھا تو اُنھیں ’لانگ مارچ ختم کرنے کی بات اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی نے ہی کہی تھی‘۔

اُنھوں نے کہا کہ مذاکرات کے دروازے کبھی بھی بند نہیں کیے جانے چاہییں اور اگر ’ایسا ہو تو نقصان کسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوتا ہے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کی طرف سے کی جانے والی ٹویٹ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حکومت مذاکرات کی طرف آنا چاہ رہی ہے۔

سہیل ورائچ کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کو اپنی جماعت کے ان غیر منتخب افراد کو بھی روکنا چاہیے جن کے بیانات اور ٹویٹس ماحول میں تلخی پیدا کرتے ہیں‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp