جمعہ خان صوفی اور کابلی والا


جرگہ پشتون تاریخ کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ پشتونوں کے تاریخ میں اس کو مختلف نام اور شکلوں سے اپنایا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کی قدیم تاریخ سے آج تک سیاسی اور قومی مسائل کے حل کے لئے جرگے طلب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ موجودہ تاریخ میں جو جرگے بہت اہم مانے جاتے ہیں ان میں میر وائس ہوتک اور احمد شاہ ابدالی کے وقت کے جرگے ہیں۔ جو حکومت کی طرف سے نہیں بلائے گئے بلکہ ان جرگوں نے حکومتیں تشکیل دی ہیں۔ لیکن جمعہ خان صوفی جو ایک مصنف ہیں۔ وہ جرگے کو افغان روایت اور ارتقا کے بجائے ایجاد اور اختراع سمجھتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں اس ایجاد اور اختراع کا سہرا ظاہر شاہ کے سر بندھتا ہے۔ اور اس کے ساتھ وہ افغانستان کے پشتونوں کے لئے کابلی کا اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

جمعہ خان صوفی نے اپنی زندگی کے بیس سال خودساختہ جلاوطنی کے دن افغانستان میں گزارے۔ جمعہ خان صوفی کی جلاوطنی کا سبب نیپ سے وابستگی تھی۔ اور نیپ ایک پشتون قوم پرست جماعت تھی۔ نیپ سے جمعہ خان صوفی کی وابستگی والد سے وارثت میں ملی تھی۔ جمعہ خان صوفی کے والد امبارس خان خدائی خدمت گار کے ساتھی تھے۔

کابل سے واپسی کے بعد سیاست کی میدان چھوڑ کر تحریر کی راہ اختیار کی فریب ناتمام کے بعد رواں برس میں اس کی ایک اور تصنیف نام نہاد ڈیورنڈ لائن ( دادا پوتے کی سرحد) دستاویزات اور تجزیات کے نام سے منظر عام پر آ چکی ہے۔ کتاب چونکہ ایک اہم تاریخی موضوع ڈیورنڈ لائن پر ہے اور اس موضوع پر کتاب میں ایسا مواد موجود ہے۔ جس پر جمعہ خان صوفی سے اصولی اور تاریخی طور پر اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ تحریر ڈیورنڈ لائن کی بجائے مضمون کا موضوع کتاب میں موجود ایک اہم نقطے پر مرکوزہے۔

جو کہ تحریر کے عنوان میں آپ قارئین کی نظر سے گزر چکا ہوگا۔ کابلی والا جو رابندر ناتھ ٹیگور کے مشہور افسانے کا نام بھی ہے۔ پہلے اس پر بات کرتے ہیں۔ مذکورہ کتاب میں جمعہ خان صوفی افغانستان کے پشتونوں کو افغان یا پشتون کی بجائے کابلی تحریر کیا ہے۔ کتاب کے پشتو ایڈیشن کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں۔ ( اس کتاب میں پشتو املا اس طریقے پر ہے جسے پاکستانی پشتون بھی پڑھ سکتے ہیں اور کابلی بھی سمجھ سکتے ہیں۔) یاد رہے مذکورہ کتاب پشتو میں لکھی گئی ہے اور اس کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔

جمعہ خان صوفی نے پاکستان اور افغانستان میں آباد پشتونوں کو دو الگ الگ اقوام کے طور پر متعارف کروایا۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف میں رہنے والے پشتون ایک ہی ہیں۔ اور بہت سے ایسے پشتون قبیلے ہیں۔ جو سرحد کے دونوں طرف آباد ہیں۔

جب میں نے یہ بات پشتو زبان کے ادیب اور محقق میرحسن خان اتل کے سامنے یہ سوال رکھی کہ جمعہ خان صوفی نے افغانستان میں آباد پشتونوں کا ذکر کابلی کے نام سے کیوں کیا ہے؟

میرحسن خان اتل یوں گویا ہوئے۔

میرے خیال سے صوفی ایک مخصوص کیفیت کے اثر ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ یہ سب کچھ کہہ رہا ہے۔ وہ ایک محرومی کا شکار انسان ہے۔ اور وہ یہ سب محرومی کی بنیاد پر کر رہا ہے۔ چاہتا ہے کہ وہ پشتون قوم پرست جماعتوں سے انتقام لے۔ اورعارضی ذہنی سکون حاصل کر لے۔

یاد رہے میر حسن خان اتل کی بات کی تصدیق جمعہ خان صوفی مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر گیارہ (پشتو ایڈیشن) کے پیش لفظ میں از خود کرتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں۔ میں وہ بدنصیب انسان ہوں جو افغانستان اور پاکستان دونوں جانب کی پشتون قوم پرست سیاست کا مارا ہوا ہوں۔ اس لیے میں اپنے آپ کو اس کا حق دار سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر، جس چیز کو میں حقیقت جانتا ہوں، اسے کاغذ پر محفوظ کروں۔ (کتاب سے اقتباس)

اب انہوں نے اپنی کتابوں میں سچ کتنا لکھا ہے اورانتقام کی پیاس کتنی بجھائی ہے اس کا نتیجہ لفظ کابلی سے بہترطور اخذ کیا جاسکتا ہے۔ جس کا ذکر کئی دفعہ پشتون قوم کے لئے بطور متبادل استعمال کیا۔

جسے اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ کابلی والا رابندناتھ ٹیگور کے مشہور افسانے کا نام ہے۔ اور اس افسانے کا اہم کردار رحمت کابلی والا ہے۔ یہ افسانہ ہندوستان میں افغانستان کے ان باشندوں کی پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ جو ہندوستان کی گلی کوچوں میں پھیری لگا کر سامان بیچتے تھے۔ اور ان افغانیوں کو کابلی والا کے ساتھ خان بھی کہا جاتا تھا۔ خان اب بھی پشتونوں کو ہندوستان اور پاکستان کے غیر پشتون انفرادی طور پر پشتونوں کو کہتے ہیں۔

مطلب بحیثیت قوم نہ ہندوستان میں پشتونوں کو کابلی والا یا خان کہتے تھے، اور نہ اب۔ کابلی والا نام اس وقت ہندوستان میں ایک خوف اور دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ لوگ اس سے خوف زدہ ہوتے تھے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا ایک منظم پروپیگنڈے کے تحت آج کی پشتونوں کے ساتھ جس طرح دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا گیا ان پر یہی لیبل لگا دیا گیا تھا۔ رانبدرناتھ ٹیگور نے اسی تاثر کو زائل کرنے کیلے مذکورہ افسانہ لکھا۔

کابلی والا یا کابلی نام ایک خوف اور نفرت کی علامت ہے۔ اور یہ نام پشاور میں ثور انقلاب کے بعد افغانستان سے نقل مکانی کرنے والے افغانیوں کے لئے بھی استعمال ہونے لگا جو کہ بعد میں یہ اصطلاح نفرت کے اظہار کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ میرحسن خان اتل کے بقول: جمعہ خان صوفی کا اس اصطلاح کا استعمال کی وجہ وہ نفرت ہے جو وہ افغانیوں سے کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).