مذہبی آزادی: پاکستان کا نام تشویش ناک فہرست میں کیوں آیا؟


دس دسمبر 1948 ء کو جب اقوام متحدہ نے تیس بنیادی انسانی حقوق کی شناخت کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کا عالمی دن قرار دیا۔ تو پاکستان نے اسی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ اس وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد صرف 63 تھی جبکہ اس وقت رکن ممالک کی تعداد 193 ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے متعدد ممالک میں اس کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ رنگ، نسل، جنس، مذہب، معاشی، سیاسی اور معاشرتی بنیاد پر تعصب ہوتا ہے اور مذہبی آزادی کے مسائل درپیش ہیں۔ ریاست متحدہ امریکہ نے 1998ء میں مذہبی آزادی کے واقعات کے پیش نظر بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت ان ممالک کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کیں جہاں بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے مسائل موجود ہیں۔ رواں سال امریکہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ ہمسایہ ملک بھارت کو ایسی ہی صورتحال کے باوجود اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

اس لحاظ سے یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے۔ لیکن صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو حقائق مختلف ہیں۔ اگرچہ دفتر خارجہ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے رپورٹ کو من گھڑت قرارد ے دیا تاہم اگر رپورٹ کا جائز ہ لیا جائے تو یہ آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت پاکستان، چین، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان، نائجیریا، شمالی کوریا، برما، ویتنام، ایران، اریٹریا اور روس کو خصوصی تشویش والے ممالک Country of Particular Concern (سی پی سی) میں شامل کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ آذربائیجان، بحرین، افغانستان سمیت پندرہ ممالک کو Special Watch list والے ممالک میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان کو اس فہرست میں امریکی بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ 1998 ء کے تحت شامل کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مبینہ خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے خلاف سخت معاشی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ تاہم امریکی سفیر ایٹ لارج برائے مذہبی آزادی سیموئل ڈی براؤن بیک نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ کچھ ممالک کو معاشی پابندیوں سے استثنا دیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکومت کی جانب سے مذہبی آزادیوں کی کھلے عام خلاف ورزیوں اور اقلیتی برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کے باوجود اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سیموئل ڈی براؤن نے کہا کہ بھارت میں اس صورتحال کو قریب سے دیکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں سیکرٹری آف اسٹیٹ نے دوروں کے دوران بھارتی حکومت کو فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق اچھی طرح آگاہ بھی کیا۔

ایسی صورتحال میں امریکی حکومت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ مذہبی فسادات کے بعد انتظامیہ اور عدالتی رویے کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کا کہنا تھا کہ بھارت کو ان ممالک کی فہرست میں شامل نہ کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہاں ایسے مسائل نہیں پائے جاتے۔ اس صورتحال میں پاکستان کا نام اس فہرست میں شامل ہونا اگرچہ ہماری سفارتی ناکامی کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا بھر میں توہین مذہب کے الزام میں قید افراد میں سے نصف تعداد پاکستان میں موجود ہے۔

پاکستان سے اقلیتی خصوصاً مسیحی خواتین کو شادیوں کے جھوٹے بہانے سے چین بھیجا جاتا رہا اور حکومت اس پر کارروائی کرنے کی بجائے چینی حکام کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی رہی بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس سے متعلق ایک سوال پر بھی غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے۔ جبکہ آئے روز اقلیتی نو عمر لڑکیوں کی شادیاں اور جبری تبدیلی مذہب کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور انتظامیہ کارروائی کرنے اور عدالتیں فیصلے کرتے وقت مذہبی گروہوں کے دباؤں کے زیر اثر امتیازی برتاؤ کرتی ہیں۔

ایسے میں امریکہ میں تعینات ہمارے سفیر صاحب کیا جواز پیش کر سکتے ہیں جبکہ ملک میں اداروں، عدالتوں اور حکمرانوں کا رویہ یکسر مختلف ہو۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایک طرف بین المذاہب ہم آہنگی کے سمینار منعقد ہو رہے ہیں اور دوسری جانب نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر اقلیتوں کے ساتھ امیتازی سلوک اور مظالم کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ اس صورتحال سے بے نیاز ایک مخصوص گروہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مظاہرے کرنے میں مصروف ہے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ انسانی حقوق یا مذہبی آزادی کسی ایک ریاست کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے اور دنیا کے عالمی ادارے اس بات پر متفق ہیں۔ جب وزیر اعظم پاکستان اسلاموفوبیا پر بات کرتا ہے اور وزیر خارجہ اس بات پر واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیتی اور تو اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ دیگر ممالک پر تنقید کرتے ہوئے بھول جاتی ہیں کہ ہمارے اپنے ملک میں کیا صورتحال ہے۔

حالانکہ ایف اے ٹی ایف، جی ایس پی پلس اور دیگر بین الاقوامی سہولیات میں بنیادی انسانی حقوق، دہشتگرد اور تشدد پسند مذہبی گروہوں کی پشت پناہی سے ممانعت کی شرائط موجود ہیں۔ توہین رسالت کے قانون کا ناجائز استعمال، مسیحی آبادیوں کا جلاؤ گھیراؤ اور عبادت گاہوں پر دہشت گرد حملے، جبری تبدیلی مذہب کے واقعات، لاء اینڈ آرڈر کے نام پر غیر مسلم کے لیے مذہبی تقریبات پر پابندیاں، گھروں میں عبادات کی ممانعت، اور تو اور پاکستان میں احمدیوں کا تو جینا محال کر رکھا ہے۔ اور مذہبی تعصب کو سرکاری طور پر تحفظ دیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر پاکستان کی آواز پر کون ساتھ دے گا۔ کیا صرف مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں؟ اس رپورٹ میں سال 2018ء کے دوران پاکستان میں کیے جانے والے اقدامات کو سراہا گیا ہے۔ اگر حکمران طبقہ یہ چاہتا ہے کہ دنیا ان کے بیانیے کی حمایت کرے تو پہلے اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا۔

مقبوضہ کشمیر یا دیگر ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ اگر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں سے لیتے رہیں گے تو رپورٹس کو من گھڑت کہہ کر مسترد کرنے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور مخصوص ذہنیت کے افراد کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کے لئے تسلسل کے ساتھ کوششیں کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).