پروفیسر ناؤم چامسکی کو ہماری حالت پر افسوس کیوں ہوتا ہے؟


امریکن اکیڈمک ناؤم چامسکی نے گزشتہ دنوں ایک لیکچر کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان ایڈوانس سائنٹیفک ریسرچ سے پیچھے ہٹ چکا ہے اور حقیقی معنوں میں سائنس پاکستان کے نظام تعلیم سے ہی غائب ہو چکی ہے“ آپ نے تو کمال ہی کر دیا اور اتنا بڑا انکشاف کر کے آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہمارے ہوش و حواس اڑ جائیں گے؟ یہ آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہوگی۔ ہم تو ایسی لاڈلی مخلوق ہیں جنہیں تعلیم اور سائنس جیسی معمولی چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں۔

سیانے بندے بالکل درست فرما گئے ہیں ”جیہد ے گھر دانے اودھے کملے وی سیانے (پنجابی)“ آپ نے اتنی پہنچی ہوئی مخلوق کو اتنا ہلکے میں لے لیا۔ ہمارے لیے تو کفار عالم تحقیق و جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور جیسے ہی کوئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آتی ہے تو ہم بھاگم بھاگ اسے خرید کر اپنی آن بان شان میں اضافہ کر لیتے ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ کفار پر لعنت ملامت کا فریضہ بھی بھر پور انداز میں ادا کرتے ہیں۔ ہم تو وہ صابر شاکر قوم ہیں جو ماضی کی عظمتوں میں کھوئے ہوئے ہیں اور نرگسیت ہمارا شعار ہے۔

ہم تو عظمت رفتہ کے وہ قیدی ہیں جنہیں اپنی جیل کے پنجرے اور پاؤں کی زنجیروں سے پیار ہو چکا ہے اور اس اونٹ کی مانند ہو چکے ہیں جس کی نکیل کسی چھوٹے سے بچے نے پکڑ رکھی ہو اور لمبا تڑنگا اونٹ اس کی غلامی میں پیچھے پیچھے چل رہا ہو۔ ہم تو دنیا کی امامت کے سراب میں کئی صدیوں سے محو خواب ہیں اور ہماری غفلت کی نیند کسی بھی بڑے انکشاف سے کھلنے والی نہیں ہے۔ ہم نے سائنس اور سائنسی علوم کو بطور صارف کے طور پر قبول کیا ہے اور حقیقی معنوں میں ہمارا سائنس سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔

ہم نے تو فزکس کے ایک اعلیٰ دماغ ڈاکٹر عبدالسلام کی وہ درگت بنائی کہ اس کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی اور مرنے کے بعد اس کی قبر کے کتبے تک کو ادھیڑ دیا۔ گزشتہ دنوں کچھ طلباء نے ان کے پورٹریٹ پر سیاہی پھینک کر اپنے ایمان کو تقویت دی، تفکرات سے بھری ہوئی اس دنیا میں ہماری سوچ کے صر ف دو زاویے اور پیمانے ہم پر حاوی ہیں۔ مذہبی یا غیر مذہبی، ہمیں ہر چیز کو اسلامائز کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی ہے اور ہم نے سائنسی علوم کو بھی اسلامی لبادہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اس بات کا ثبوت ہماری سائنس کی نصابی کتابیں ہیں جن کا آغاز و اختتام مذہبی کلمات سے ہوتا ہے اور بہت سے اساتذہ تو ارتقا کے باب کو ہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ امتحانی پیپرز میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مقدس کلمات سرآنکھوں پر مگر کیا سائنس جیسے خالصتاً دنیاوی علوم میں مذہب کو شامل کرنا صحیح رویہ ہے؟ ہم آج تک دنیاوی علوم اور دینی علوم کے واضح فرق کو نہیں سمجھ پائے اور دونوں کا امتزاج بنانے کے چکر میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا۔

ہم نے صدیوں پہلے کی سچائی کو آج کی بالکل مختلف سچائی میں گڈ مڈ کر دیا اور ایک ایسے ایکسٹریم پوائنٹ پر چلے گئے کہ ہم نے سائنسی علوم اور سائنٹیفک دماغوں کو ہی کفر کے ساتھ نتھی کر دیا۔ اسی رویہ اور سوچ کی وجہ سے آج سائنسی دنیا میں ہماری کنٹری بیوشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں سائنس پڑھا رہے ہیں مگر سائنس کو فروغ نہیں دے رہے ہیں اور جو پروڈکٹ ہم تیار کر رہے ہیں وہ سائنس سے آشنا ضرور ہے مگر ”سائنٹیفک برین“ نہیں ہے۔

ہم ”آدھا تیتر اور آدھا بٹیر“ جیسی پرو ڈکٹ اپنے تعلیمی اداروں میں تیار کر رہے ہیں جو نئے علوم اور انکشافات کو کھلے د ل سے تسلیم کرنے میں تذبذب اور ہچکچاہٹ سے کام لیتے ہیں اور المیے کی بات یہ ہے کہ یہ پروڈکٹ نئے انکشافات کی جڑیں مذہب اور الہٰیات میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا نتیجہ کنفیوژن آف مائنڈ کی صورت میں نکلتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور حقیقی معنوں میں سائنسی علوم کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو ہمارا سماج اور یونیورسٹیاں برداشت ہی نہیں کرتے اور ان کو فوری طور پر دیس نکالا دے دیا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں میں فزکس کے ایک اعلیٰ دماغ پروفیسر ہود بھائی کے ساتھ جو رویہ ایف سی کالج کے پنڈتوں نے اختیار کیا وہ سب ریکارڈ پر موجود ہے حالانکہ ہود بھائی نے سائنس کے فروغ کے لیے جو کاوشیں کی ہیں وہ بے مثال ہیں اور کوئی بھی ان خدمات سے انکار نہیں کر سکتا۔ مگرشاید ہمیں شعور کے نقارچیوں کی ضرورت ہی نہیں ہے اور ہم خواب غفلت سے بیدار ہی نہیں ہونا چاہتے کیونکہ ہمیں نئی حقیقتوں سے ڈر لگتا ہے اور حقائق کا سامنا کرنے کا ہمارے اندر حوصلہ نہیں ہے۔ اس لیے پروفیسر ناؤم چامسکی اپنے شعوری بھاشن دینا بند کر دیجیے اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ ہم زندہ و پائندہ قوم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).