خاک بسر پیوند خاک ہو گیا


مجھے جب اس کا خیال آیا تو اسے مرے دوسرا سال تھا۔ شاید اب بھی نہ آتا اگر دسمبر کی پہلی بارش کے بعد اگلے دن کی چمکیلی سویر میں شاہ شمس روڈ سے گزرتے ہوئے دسمبر کی وہ بھیگتی ٹھٹھرتی شب نہ یاد آجاتی۔ گھوڑوں کو نعل لگانے والے کی دکان پر بیٹھے بابا مہتاب حسین سے جب میں نے اس کا پوچھا تو بابا نے بتایا ”وہ تو مرگیا۔ سال ڈیڑھ سال ہو گیا، کوئی پتہ نہیں دو سال ہی ہو گئے ہوں، رشید آباد والے پل کے نیچے ایک دن مرا پڑا تھا“ میں نے پوچھا آپ جانتے ہو اسے؟ بابا مہتاب نے بتایا کہ اس کا نام اقبال تھا۔ پڑھا لکھا اور یہیں ذرا دور باوا صفرا کا رہائشی تھا۔ ”بس باؤ جی! فقیری لائن میں پڑ کے تباہ ہو گیا۔ نہ گھر میں رہتا تھا نہ اپنے مرشد کے پاس۔ یہیں پڑا رہتا تھا فٹ پاتھ پر“ ۔

بابا مہتاب حسین یہ بتا کر داڑھی کو سہلانے لگا۔ اقبال کون تھا، میں نے اس کا کیوں پوچھا، اس سے واقف ہونے کے لئے آپ کو ذیل کی تین برس پرانی تحریر پڑھنی پڑے گی۔ میں نے قدرے مختصر کردی ہے، مکمل یہیں ”ہم سب“ پر کہیں شاید ”ایک خاک بسر“ کے نام سے موجود ہے۔

”دسمبر کی پہلی برکھا جس روز ملتان میں اتری ہے، یہ اسی دن کی دم توڑتی شام کا تذکرہ ہے۔ اتوار کی شام بھیگے بدن کے ساتھ رخصت ہوتی تھی جب میں وہاں سے گزرا۔ دسمبر کی خنکی میں چھید کرتی بوندیں زمیں کو لپکتی تھیں اور وہ اسی جگہ پڑا تھا۔ شاہ شمس روڈ پر سرکاری دیوار کے قدموں میں بچھے سرکاری فٹ پاتھ پر۔ دیوار کے اندر ایستادہ ایک پیڑ کی کچھ شاخیں دیوار کا قد پھلانگ کے سڑک کی جانب تجاوز کیے ہوئے تھیں۔ اس نے اپنا بوریا گھسیٹ کر ان شاخوں تلے کر لیا تھا کہ کم از کم بوندوں کی براہ راست چوٹ سے بچا رہے۔

وہ میل، گرد، دھوئیں سے سیاہ پڑتی اپنی رضائی میں دبک کے لیٹا تھا۔ پاس سے ٹریفک گزرتی تھی مگر کوئی توجہ نہ کرتا۔ میں چوں کہ روز اسے وہاں پڑا دیکھنے کا عادی تھا لہٰذا اس کی قیام گاہ کے قریب سے گزرتے ہوئے بے اختیار اس کی جانب نگاہ گئی۔ اندر کہیں ضمیر کی بچی کھچی کرن ٹمٹمائی اور میرے جذبہ ہمدردی کو لو دینے کی کوشش کی۔ چند ثانئے کو میں نے گاڑی آہستہ کی مگر دلیل نے مجھے قائل کیا کہ تم اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے، الٹا فش باربی کیو کی جس دعوت پر جاتے ہو، اس سے بھی لیٹ ہوجاؤ گے اور میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

میں اسے کئی مہینوں سے دیکھ رہا ہوں، اسی فٹ پاتھ پر، وحدت کالونی کے گیٹ نمبر ایک اور دو کے درمیان سڑک کے مغربی جانب والے فٹ پاتھ پر اس کا قیام ہے۔ گرمیوں میں خاک پر وہ بنا کسی بچھونے کے پڑا رہتا ہے۔ سر اور داڑھی کے گندے، پریشاں کھچڑی بال، میلے چیکٹ کپڑے اور خاک و دھول سے اٹا بدن۔ کبھی فٹ پاتھ پر بیٹھا سڑک پر پیر دھرے سگریٹ پی رہا ہے۔ کبھی دیوار پر لگے پوسٹروں کو اپنے ناخنوں سے نوچ نوچ کے اتار رہا ہے یا پھر بازو کا سرہانہ بنائے کسی کروٹ لیٹ کے سوتا ہے۔ کبھی کبھی رشید آباد چوک کی جانب یا شاہ شمس دربار کی طرف چہل قدمی کرتے پایا جاتا ہے۔

موسم سرد ہوا تو کوئی اللہ کا بندہ اسے روئی کا ایک گدا اور ایک پرانا کمبل دے گیا۔ پھراس کو ایک اوورکوٹ بھی میسر آ گیا جس کے نیچے غلام عباس کے افسانے والے کردار کی طرح پھٹے ہوئے میل خوردہ کپڑے تھے۔ سردی اور بڑھی تو کسی نے ایک رضائی بھی لادی۔ اب پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے وہ گدا بچھائے، رضائی اوڑھے پڑا ہوتا۔ اکثر اس کی یہ ”املاک“ لاوارث نظر آتیں، وہ یہاں وہاں چہل قدمی کو گیا ہوتا ہوگا۔ پچھلے ہفتے دو ایک دن اس کے نیچے ایک نئی چارپائی بھی نظر آئی مگر دوسرے ہی دن غائب ہو گئی اور وہ پھر سے فرش نشیں ہو گیا۔

وہ بھکاری ہے نہ بظاہر فاترالعقل۔ اسے کبھی بھیک مانگتے دیکھا اور نہ ہی پاگلوں کی طرح خود کلامی کرتے، ہذیان بکتے یا پتھر اٹھاکے کسی کے پیچھے دوڑتے۔ بس خاموش اور اپنے آپ میں گم۔ توکل کی بہترین حالت کا نمونہ۔ ننگے فٹ پاتھ پر سوتا تھا تو اپنے حال میں گم۔ بستر اور چارپائی سے ہوتا پھر سے زمین پر ہے تو بھی کوئی شکایت، گلہ، پروا نہیں۔ اس کے پڑوس میں چوپایوں کی نعل بندی کرنے والا ایک اللہ کا دوست بیٹھتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تو پتہ چلا کہ چارپائی چوری ہو گئی ہے۔ اس نے بتایا ”میں سوچ رہا تھا کہ دیوارمیں لوہے کا ایک کڑا گاڑ کے چارپائی کو زنجیر بند کردوں مگر اسی رات چارپائی چوری ہو گئی“ ۔ جس کسی نے چارپائی لاکر دی، وہ بھی آدمی تھا اور جو اس حال مست کو پھر سے ٹھنڈی زمین پر پٹخ گیا، ”سو ہے وہ بھی آدمی“ ۔

اس پس منظر سے آگاہی کے بعد آئیے پھر سے پہلے پیراگرف کی آخری سطور کو لوٹ چلیں۔ اسے ٹپ ٹپ کرتی بوندوں میں پڑا چھوڑ کے میں آگے تو بڑھ گیا مگر سوچوں کے لباس میں گویا احساس جرم کا ایک پیوند لگ گیا۔ میں نے ایدھی ہیلپ لائن پر فون کیا۔ کوئی نیم خواندہ صاحب لائن پر تھے۔ بتایا کہ اک لاوارث پالے اور بارش کے تیروں کی زد میں ہے، آپ کے ہاں اتنا بڑا ایدھی ہوم ہے، کیا اس کی دست گیری کر سکتے ہیں؟ جواب ملا کہ کیا خبر کون ہے، کوئی مشکوک و مشتبہ نہ ہو، پولیس کہے تو ہم اس کو لے سکتے ہیں۔

میں نے صورت حال کی سنگینی ایک دو مزید جملوں میں واضح کی تو بولے ”آپ کے پاس کوئی جگہ ہو تو اسے لے جائیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے“ ۔ فون بند ہو گیا۔ میں نے ون فائیو پر فون کیا۔ وہاں کوئی بھلا آدمی بیٹھا تھا۔ ساری بات سنائی تو بولا ”سر! ہم صرف کرائم سین پر پولیس بھیج سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ پولیس فقط ایدھی کو ریفر کردے تو وہ لے جائیں گے اور ایک جان محفوظ ہو جائے گی۔

وہ واقعی بھلا آدمی تھا۔ اس نے کہا ”سر! یہ علاقہ تھانہ لوہاری دروازہ میں آتا ہے۔ میں مشکوک شخص کے شبہ کی شکایت درج کر کے پولیس بھجوارہا ہوں۔ آپ کو فون آئے گا تو آپ ان کو سمجھا دیجئے گا“ ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ قریب پندرہ منٹ بعد کسی موبائل نمبر سے فون آیا۔ کبیروالا کے لہجے میں سرائیکی بولتا کوئی پولیس ملازم تھا۔ باقاعدہ تفتیش کے اندز میں چند سوالات، پھر معاملہ سن کر بولے ”اوہ بڈھا تاں روز اتھائیں پیا ہوندے“ ۔

عرض کیا ”بے شک، مگر آج بلاکی سردی ہے، اوپر سے بارش اور وہ بغیر چھت کے برلب سڑک پڑا ہے“ ۔ ارشاد ہوا ”مڑ اتنی تکلیف اے تینوں تے اوس نوں گھر چا ٹکا“ (اگر تمہیں ایسی ہی تکلیف ہے تو اسے ا پنے گھر لے جاو) پھر عرض کیا کہ حضور! آپ نے صرف ون ون فائیو پر ایدھی والوں کو فون کرنا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پولیس ریفر کرے تو ہم لیں گے وگرنہ نہیں۔ اسی کرخت لہجے میں جواب ملا ”اچھا آندے پئے آں“ ۔ شب پونے بارہ بجے میں دعوت سے واپس آیا تو وہ جوں کا توں پڑا تھا۔ سچی بات ہے میں ڈر گیا۔ پالے سے ٹھٹھرتے اور بارش سے بھیگتے اندھیرے میں اس کے پاس جانے کی میری ہمت نہ ہوئی۔ پتہ نہیں زندہ ہے یا لاش کی صورت دھار چکا۔ ضمیر کی موہوم سی چنگاری پر خود غرضی، مجبوری اور بے بسی کی دلیلوں کی پھوار ڈالتا میں گھر آ گیا۔

اگلی صبح بچوں کو سکول چھوڑنے کو نکلا تو رات بھر کی بارش ابھی برس رہی تھی۔ اس کے ٹھکانے پر فقط گدا اور تکیہ پڑے بھیگتے تھے۔ وہ خود اور رضائی غائب تھے۔ پورا دن کوئی سراغ نہ ملا، پچھلے پہر موسم کھلا تو وہی نعل بند اپنی اوپن ائر دکان کھول کر بیٹھا نظر آیا۔ استفسار پر اس نے بتایا ”باؤ جی! اللہ کا کوئی نیک بندہ اسے لے گیا ہے اپنے ساتھ“ ۔ اگلے دن سویرے دفتر جا رہا تھا تو وحدت کالونی کے گیٹ نمبر ایک سے وہ اک عجب دھج سے برآمد ہوا۔ تار تار لباس کی جگہ اجلی شلوار قمیص، اس کے اوپر آستینوں والا صاف ستھرا سویٹر، کانوں اور سر کے گرد لپٹا نیا مفلر۔ وہ سگریٹ کا کش لگاتا اک شان بے نیازی سے سڑک کنارے خوش خرام تھا، گویا زبان خامشی سے مجھ پر اور نجی و سرکاری اداروں پر چار حرف بھیجتا ہو ”۔

بابا مہتاب حسین نے بتایا ”شادی نہیں تھی اس کی، بس فقیری لائن میں پڑ گیا تھا بہن بھائی کئی دفعہ لے گئے گھر مگر نہیں رہتا تھا وہاں۔ کسی سے بولتا بھی نہیں تھا“ ۔ پوچھا ”یہ دیواروں کے پوسٹر کیوں پھاڑتا رہتا تھا۔ بابا نے کہا“ کچھ پتہ نہیں جی۔ کسی سے بات تو کرتا نہیں تھا کہ پتہ چلتا۔ ہاں ایک دفعہ دیوار سے پوسٹر چھیلتے ہوئے خود سے بول رہا تھا کہ ”انہی لفظوں نے تباہ کیا، پھر کون یہ لفظ لگا جاتا ہے دیواروں پر؟“ بڑے غصے میں ہوتا تھا جی پوسٹر چھیل کر اتارتے ہوئے ”۔

فٹ پاتھ پر اس کی جائے قیام خالی پڑی تھی۔ جہاں کبھی اس کا بستر ہوا کرتا تھا، وہاں دیوار پر چار پوسٹر لگے تھے۔ ان کو اکھاڑ کر پھینکنے والا لفظ گزیدہ جو چلا گیا تھا۔ کیا ستم ہے کہ اس کے جانے کا علم دو سال بعد ہوا۔ سوچتا ہوں مجید امجد کے شعر کی تفسیر تھا وہ

میں روز ادھر سے گزرتا ہے کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر نہ گزروں گا کون دیکھے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).