تپتے توے پہ پھدکتا مینڈک!


ہماری بیٹی اور بیٹا خلاف معمول باورچی خانے میں تھے۔

“اماں! اماں، کچن میں آئیے، چولہے میں گیس رک رک کے آ رہی ہے اور لائٹر بھی کام نہیں کر رہا”

“اف، انہیں آج کیا چولہا چوکی کا شوق لاحق ہوا؟”

ہم زیر لب بڑبڑاتے ہوئے کچن میں پہنچے۔ کچھ جدید زمانے کی غذا تیار کرنے کے اجزا چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے اور چولہا تھا کہ جل کے نہیں دے رہا تھا۔

“گیس اور لائٹر ! دونوں میں ہی کوئی نقص معلوم ہوتا ہے، ابھی ٹیکنیشن بلانا پڑے گا” ہم یہ کہہ ہی رہے تھے کہ یکایک دماغ میں کوندا سا لپک گیا،

“گیس لائٹنگ”

ارے آج اس چولہے کی بدولت ہمیں کیا یاد آ گیا۔ آمریت پسند پدرسری معاشرے کا ایک اور ہتھیار، گیس لائٹنگ!

طاقت اور اختیار کا کھیل، گیس لائٹنگ!

جس میں ایک فریق دوسرے فریق کا نفسیاتی اور جذباتی استحصال کرتے ہوئے اس کی ذات کے یقین، اعتماد، نظریات اور خواہشات پہ متواتر تنقید کرتے ہوئے اس قدر شکوک وشبہات پیدا کر دیتا ہے کہ شکار کا اپنی ذات ہی سے یقین اٹھ جاتا ہے۔ اعتماد کرچی کرچی ہو جاتا ہے، نظریات متزلزل ہو جاتے ہیں اور وہ گیس لائٹر کی پیدا کردہ اس سوچ پہ ایمان لے آتا ہے کہ نقص کا منبع اسی کی ذات ہے۔

گیس لائٹنگ کا دائرہ عمل محض عورت اور مرد کے تعلقات تک محدود نہیں۔ بے پناہ طاقت اور اختیار کی چاہ، فتح کرنے کی خواہش اور دوسروں کو اپنا مطیع بنانے کا چاؤ معاشرے کے مختلف طبقات، افراد اور تعلقات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاسی رہنما، مذہبی علما، آمر اور پدرسری معاشرے میں پائے جانے والے شوقین افراد کو شناخت کرنا قطعی مشکل نہیں۔

عورت کے حقوق پہ بات کرنا ہماری پہچان ٹھہری تو بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔

ہو سکتا ہے فلم کے رسیا قارئین نے 1944 میں آنے والی فلم” گیس لائٹ” دیکھ رکھی ہو جس میں ہیروئن انگرڈ برگمین کو اس کا شوہر جوڑ توڑ کرکے یقین دلاتا ہے کہ اس کی ہر سوچ شکستہ، ہر عمل مشکوک اور آپس کے تعلقات میں خرابی کی جڑ بیوی کی ذات ہے۔

ایک منظر میں دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔ انگرڈ بے دھیانی میں ایک اجنبی کی طرف دیکھ کر بے ساختہ مسکرا دیتی ہے۔ اب دیکھیئے شوہر محترم کیا حشر کرتے ہیں،

” کیا عام طور پہ تم اجنبی لوگوں سے ایسا ہی برتاؤ کرتی ہو”

“نہیں، مجھےایسا لگا کہ شاید میں اس کو جانتی ہوں “

” کیا تم مجھے سچ بتا رہی ہو؟”

“ مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت کیا ہے آخر؟ میں نہیں جانتی وہ کون ہے؟”

“پھر تم اس کی طرف دیکھ کر مسکرائیں کیوں؟”

“میں اصل میں کچھ سوچ رہی تھی! مجھے نہیں پتہ، میں کیوں مسکرائی؟”

“ہاں، جیسے اور بہت سی حرکتیں تم سوچے سمجھے بغیر کرتی ہو”

“کون سی حرکتیں؟”

“کچھ عرصے سے میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارا دھیان بہت بھٹکا ہوا رہتا ہے۔ تم اپنے آپ میں کھو جاتی ہو۔ تم چیزیں گم کر دیتی ہو، تم تھکی ہوئی نظر آتی ہو.”

“ہاں شاید ایسا ہی ہے، تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں تھک کے کافی چیزوں پہ دھیان نہیں کر سکتی”

دیکھا آپ نے، ایک سادہ بے معنی مسکراہٹ کے اختتام پہ بیوی کو شرم دلا کے اس بات کا یقین دلا دیا گیا کہ اس کی ذات میں خلا پایا جاتا ہے اور وہ ایک سادہ لاشعوری طور پہ کیے جانے والے عمل کے لئے بھی شوہر کو جوابدہ ہے۔ جو اس کی ذات کے بخیے ادھیڑنے کے لئے معمولی بات کو بھی ایک مخصوص نظر اور خاص زاویے سے دیکھ رہا ہے۔

مرد اور عورت کے تعلقات یا رشتے میں اگر ایک فریق ہمیشہ نکتہ چیں، طنز، اعتراض، تنقید،الزام تراشی، اور دوسرے کو شرمندہ کیے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے تو جان لیجیے وہ گیس لائٹر ہے اور دوسرا اس کا شکار!

لیجیے صاحب، گیس لائٹر کو شناخت کرنے کی کچھ نشاندہی کیے دیتے ہیں۔

1- مضبوط سفید جھوٹ؛

گیس لائٹر ایسے جھوٹ بولتے ہیں کہ جھوٹ کی اصلیت جانتے ہوئے بھی سامنے والا ان پہ ایمان لے آتا ہے۔

2- اپنے کہے کو جھٹلانا؛

سننے والا جانتا ہے کہ گیس لائٹر نے کب کس موقع پہ کیا کہا؟ لیکن وہ اس شد ومد سے تردید کرتا ہے کہ شکار ثبوت ہونے کے باوجود ذہنی ابتری میں مبتلا ہو جائے اور سوچے” کہیں میں ہی غلط تو نہیں”۔ نتیجتاً شکار کا اپنے آپ سے یقین اٹھنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو غلط سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔

3- پسندیدہ ترین اشیا کو ہتھیار بنانا؛

گیس لائٹر جانتا ہے کہ شکار کے لئے کس چیز کی کیا اہمیت ہے؟ مثال کے طور پہ ساتھی کی شناخت، کیرئیر، کتابیں، فلم بینی، دوستوں کی محفلیں، گفتگو۔ وہ ان سب پہ تنقید کرتے ہوئے کہے گا کہ اسے یہ سب پسند نہیں اور ساتھی بہتر بننے کی کوشش میں اپنی محبوب اشیا سے کنارہ کشی اختیار کرے۔ گیس لائٹر شکار کی بنیادی شخصیت پہ حملہ کرتے ہوئے اسے ہر بات میں معاشرے کے جملہ تصورات کے برعکس قرار دے کے احساس جرم میں مبتلا کرتا ہے۔

4- توے پہ بیٹھا ہوا مینڈک!

گیس لائٹنگ ایک آہستہ رو عمل ہے۔ وقتاً فوقتاً جھوٹ، بار بار تنقید اور جھٹلائے جانے کی زد میں آئے ہوئے سمجھ بھی نہیں پاتے کہ ان کا اپنے آپ سے اعتماد اور ان کی شناخت چھینی جا رہی ہے۔ جیسے کسی مینڈک کو توے پہ بٹھا کے آہستہ آہستہ آنچ بڑھائی جائے اور مینڈک کو حرارت تو پہنچے لیکن یہ اندازہ کبھی نہ ہو سکے کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟

5- قول وفعل میں تضاد!

گیس لائٹر کھوکھلی باتیں کرتا ہے اس کا فعل کچھ اور ظاہر کرتا ہے اور باتوں سے میل نہیں کھاتا۔

6-تنقید و تعریف ساتھ ساتھ!

تنقید سہتا ہوا ساتھی ایک دن انگشت بدنداں رہ جاتا ہے جب گیس لائٹر ساتھی کی یک دم تعریف کرے اور ساتھی مزید ذہنی خلل و ہیجان کا شکار ہو کے سوچتا ہے کہ ” میرا شوہر یا بیوی یا ساتھی اتنا بھی برا نہیں “

7- ذہنی انتشار اور قوت ارادی کی کمزوری!

گیس لائٹر بھرپور کوشش کرتا ہے کہ ساتھی کو ذہنی طور پہ منتشر رکھا جائے اور ساتھی اپنی ذات پہ اٹھتے ہوئے اعتماد سے گھبرا کے پھر سے گیس لائٹر کی طرف رجوع کرنے پہ مجبور ہو جائے۔

8- بد سے بدنام برا!

گیس لائٹر خود چاہے جو مرضی کر رہا ہو لیکن ساتھی کی کمزوریوں کا ڈھنڈورا پیٹنا اس کا بہترین شغل ہے۔ یوں ساتھی ہمیشہ اپنے آپ کا دفاع کرنے پہ مجبور اور گیس لائٹر حملہ آور کے مقام پہ رہتا ہے۔

9- ہمنوا اور مخالف!

گیس لائٹر بہت سے لوگوں کو ساتھی کی مخالفت میں اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے۔ مثال کے طور پہ ” ایکس بخوبی واقف ہے کہ تم میں کیا برائی ہے”، ” سب رشتے دار جانتے ہیں کہ تم کچھ نہیں کر سکتے”۔

گیس لائٹر ساتھی کی نام نہاد کمزوری کو لوگوں کے نام سے اور لوگوں کے بیچ یوں مشتہر کرتا ہے کہ ساتھی جان ہی نہیں پاتا کہ احباب میں سے کون اس کی بات پہ یقین کرے گا اور کون نہیں۔ نتیجتا اس کا انحصار گیس لائٹر پہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

10- ساتھی نارمل نہیں!

گیس لائٹر لوگوں کو باور کرا دیتا ہے کہ قصوروار ساتھی ہے اور وہ خود معصوم۔ سو اگر ساتھی اپنے احباب میں گیس لائٹر کے ذہنی یا جذباتی تشدد کا ذکر کرنا چاہے، سب بیک زبان یہی کہیں کہ گیس لائٹر تو ساتھی پہ جان چھڑکتا ہے، اس کی مدد کے بنا ساتھی کچھ بھی نہیں، ساتھی کی کمزوریوں کو سنبھالنا گیس لائٹر ہی کا کام ہے۔

گیس لائٹر کے تیار کردہ سٹیج، ایکٹ اور سکرین پلے کی داد دیجیے جس میں وہ طاقت اور اختیار کا پلڑا اپنے پاس رکھتے ہوئے، متشدد رویوں کے باوجود معصوم بنتے ہوئے احباب کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب رہتا ہے اور اصل میں مظلوم ساتھی اپنے آپ سے ہی سوال کرتے ہوئے رہ جاتا ہے،

شاید میں ہی غلط تھا/ تھی!

شاید میں نے ہی ہمیشہ غصہ دلایا!

شاید میں ہی اکثریت مرد/ عورتوں سے مختلف ہوں!

شاید میرا ہی قصور تھا!

اگر میں اس طرح نہ کرتا/کرتی تو میرا ساتھی مجھ سے ناراض تو نہ ہوتا!

شاید میں ہی بحث کرتا/ کرتی ہوں!

اگر، اگر، شاید، شاید ……. یہ وہ ابہام اور گرداب ہے جس میں گیس لائٹر کا شکار پھنس کے رہ جاتا ہے۔

صاحبان دانش ، ہو سکتا ہے آپ کے لئے ہمارا یہ مضمون ایک ایسا آئینہ ہو جس میں کچھ گرد آلود چہرے واضح طور پہ دکھائی دینے لگیں اور کچھ کے ذہن میں گھومتے پہیوں کا اندازہ ہو سکے۔

ہم کوشش کریں گے کہ اس آئینہ نما پہ مزید بات کریں، شاید آپ بازی پلٹنے میں کامیاب ہو سکیں۔

اولیں چال سے آگے نہیں سوچا میں نے

زیست شطرنج کی بازی تھی سو میں ہار گیا

(اس مضمون کی تیاری میں ذیل کی کتابوں سے مدد لی گئی)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).