یہاں کا ڈان کون؟ پولیس۔۔۔


رضا اختر

\"\"الفاظ کی جامع تشریح جاننا ہو تو چند لوگ ڈکشنریوں جب کہ بیشتر انٹرنیٹ کا سہارا لینے کی صلاح دیتے ہیں جن میں سے انٹرنیٹ کا استعمال بذات خود مجھے بھی قدرے آسان لگتا ہے کیونکہ افسوس اب کی بورڈ نے میری ورق گردانی کی عادت ختم کروا دی ہے۔

خیر! میں الفاظ کے تلفظ اور معنی سمجھنے کے لیے وکی پیڈیا نامی ویب سائٹ استعمال کرتا ہوں جہاں کسی بھی لفظ کے معنی اور تاریخ کے متعلق مجھے خاصی معلومات مل جاتی ہیں ویسے بھی اس ویب سائٹ کے ساتھ میرا رشتہ سات سال پرانا ہے تاہم گزشتہ ہفتے مجھے اس ویب کے معیار میں کچھ کمی سی محسوس ہوئی۔

ہوا کچھ یوں کہ مجھے \”ڈان\” نامی لفظ کی اصطلاح اور اس کے استعمال کی معلومات درکار تھی جس کی وجہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے مجھےاس لفظ کے معنی سمجھنے میں تذبذب کا شکار کر دیا تھا۔

وکی پیڈیا نے بتایا کہ ڈان دراصل کسی کالج، یونیورسٹی یا سکول کے بڑے اور تجربہ کار استاد کو کہا جاتا ہے لیکن مجھے لگا کہ جیسے یہ تعریف کچھ نئی سی ہے اور میں تو اس ڈان نامی کردار کے بارے میں کچھ اور جانتا ہوں۔

مجھے یاد ہے یورپ کی مشہور زمانہ فلم گاڈ فادر کے ڈان سے لے کر انڈیا کے مشہور مجرم داؤد ابراہیم کی اخباری سرخیوں تک اور پھر امیتابھ بچن کی فلموں سے لے کر شاہ رخ خان کی سپرہٹ فلم ڈان تک یہ کردار کچھ ایسا ہے جس کی حاضر دماغی، مجرمانہ ذہنیت اور تشدد پسند سوچ کی بناء پر اسے ایک بدنام زمانہ گینگ کا سرغنہ کہا جاتا ہے۔

تاہم اس اصطلاح کی بنا پر مجھے کسی ایسے کے منہ سے یہ بدنام لقب بخوشی اپنے نام کے ساتھ جوڑنے پر انتہائی افسوس ہوا جسے میں ڈان نہیں سمجھتا تھا۔

پارکنگ کے دوران جب ٹریفک وارڈن نے رکشے والے کو صبح ہی صبح پانچ سو کا چالان ہاتھ میں تھمایا تو دوران چلان رکشے والے بھائی کی بے حد معافی پر ٹریفک وارڈن حضرت غصے میں آگئے اور قریب کھڑے پٹرولنگ کی گاڑی کی طرف اشارہ کیا کہ یہاں سے چپ چاپ چلے جاؤ ورنہ ان کے غصے کا تمھیں علم نہیں ہے۔

رکشے والا مایوسی سے واپس مڑا اور ابھی رکشہ اسٹارٹ کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں کالی وردیوں میں ملبوس اہلکاروں نے اپنے پیٹی بھائی کے اشارے کو سنجیدگی سے لیا اور فورًا اس کے پاس پہنچ کر پوچھنے لگے کہ ماجرا کیا ہے۔

ٹریفک وارڈن بولا کہ چالان بنا ہے اس کا، اس کے پاس ڈرائیونگ کارڈ نہیں تھا تو ذرا توتو میں میں کر رہا ہے۔ الفاظ سننے کی دیر تھی کہ پٹرولنگ پولیس کے ایک جوان نے رکشہ والے کو گھسیٹا اور پٹخ پر زمین پر دے مارا، دو چار گھونسے، کچھ ٹانگیں پڑی اور کوئی آٹھ دس تھپر رسید کیے گئے۔

واضح رہے یہ تمام صفائی ایک بندے نے نہیں کی تھی بلکہ اس کارِخیر میں کالی وردی والے سبھی حضرات نے اپنا حصہ ڈالا۔

جاتے جاتے موصوف رکشہ والے کے بال کھینج کے بولے کہ ’’یہاں کے ڈان صرف ہم ہیں، یہاں کسی اور کی بدمعاشی نہیں چل سکتی۔‘‘

رکشہ ڈرائیور نے معافی مانگتے ہوئے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے روہانسی صورت بنائی۔ رکشہ اسٹارٹ کیا۔ آنکھ کے قریب رستے خون پر مفلر باندھا اور اپنے سفر پر خاموشی سے چل نکلا۔

واقعہ انسانیت سوز تھا لیکن چھوٹے شہروں میں ایسے واقعات عام سی بات سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم اس سے ایک بات واضح ہے کہ ماڈل پولیس اسٹیشن اور امن و امان و قائم کرنے والے اداروں کے باہمی عوامی تعاون جیسے ڈھکوسلے ہم جیسے چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کو ہضم کیوں نہیں ہوتے۔

تشویش یہ بھی ہوئی کہ اگر یہ ڈان ہیں تو قانون کی ہتھکڑیاں لگانے والی مخلوق کون ہے؟ لیکن سوال گندم جواب چنا!

یہ تو محض ایک واقعہ تھا جس نے میرے دماغ میں بیٹھے ڈان کے کردار کو سمجھنے میں ذرا معاونت کی مگر روزانہ کی خبریں اور سوشل میڈیا کی سرخیاں مندرجہ بالا فلم کی طرح ان جیسے کئی ایکشن سے بھرپور ٹریلرز سے بھری پڑی ہیں۔

ان میں سے ایک اور بات بھی واضح ہے کہ اب اداروں میں یہ ڈان محض اکا دکا نہیں رہے بلکہ کم و بیشتر آپ کو ہر سرکاری اداروں میں ایسے کردار نظر آئیں ہے۔ ہر ادارے میں ایک خاص گروپ اور اس گروپ کے بڑے بڑے ڈان۔۔۔

ذہن میں بس خیال سا آیا کہ وکی پیڈیا کو اب شاید اپنے مواد میں ترمیم کی ضرورت ہے یا پھر اسے ویب سائٹ کا پاکستانی ورژن بنانے پر غور کرنا چاہیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments