طارق صاحب سے جڑی کچھ یادیں، کچھ باتیں


یہ ابھی پچھلے سال کی بات ہے، طالب علم اپنے شعبہ کی قومی سطح کی میڈیا کانفرنس میں بطور رضاکار برائے سیکیورٹی امور خدمات انجام دے رہا تھا۔ پہلے دن، 11 بجے کے لگ بھگ جب اس وقت کی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا طلبا اور طالبات سے خطاب جاری تھا، تو ناچیز سے سینئر سمیسٹرز کی کچھ طالبات نے ایک ساتھی رضاکار لڑکی کی شکایت لگائی۔ لڑکیوں کے بقول ان کے استاد محترم طارق محمود ملک نے انھیں میڈیا کانفرنس کی تقاریر میں سے اہم نکات نکال کر سٹوریز بنانے کا پراجیکٹ دیا۔ اس پراجیکٹ کی انجام دہی کے سلسلے میں کچھ گفتگو کرنے پر انھیں ساتھی رضاکار نے بدتمیزی سے جھڑکا تھا۔ ناچیز نے معاملہ نپٹا دیا اور یہاں میرا طارق محمود ملک سے پہلا ان ڈائریکٹ تعارف تھا۔

اس کے بعد طارق صاحب ہمیں دکھائے گئے، وہ ڈیپارٹمنٹ میں زیادہ تر وقت طلبا کے ساتھ گزارتے دیکھے جاتے تھے۔ ہم نے اور ایسے اساتذہ کرام نہیں دیکھے جن کے پاس طلبا اتنی کثیر تعداد میں متعدد دفعہ جاتے ہوں، سوالات کر کے راہنمائی چاہتے ہوں یا کہیں جاب یا انٹرنشپ کے سلسلے میں مدد چاہتے ہوں۔ ان کی عاجزی اور اور ملنسار شخصیت ان کا طرۂ امتیاز تھی۔

جب ہم اگلے سمیسٹر میں ہوئے تو پہلے ہی دن طارق صاحب کے ساتھ ”نیوز رائٹنگ اینڈ رپورٹنگ“ کی کلاس تھی۔ اس سے قبل ہم نے سن رکھا تھا کہ وہ کلاس میں لیٹ آنے والے طلبا کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور ضوابط کی خلاف ورزی پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے پہلی کلاس میں طلبا کو دو چیزوں کا احساس کروایا۔ اول، جامعہ میں وقت اگر سیکھنے اور عمل کرنے کی بجائے گھومنے پھرنے اور گپ شپ لگانے میں گزارو گے تو کچھ نتائج بھگتنا ہوں۔ ان پر کسی سے شکوہ مت کرنا۔ دوم، ڈگری جب آدھی ہو چکی ہو تو انٹرنشپ یا اپنا کسی قسم کا کام شروع کر دینا چاہیے۔

چند دن بعد خبر لکھنے کا طریقہ بتاتے ہوئے انہوں نے گزشتہ رات کے PSL کے میچ کی کہانی پوچھی۔ میں نے ساری کہانی خبر کی شکل میں عرض کی۔ انہوں نے اس چھوٹے سے کام پر بھی میرا نام پوچھ کر تعریف کی تھی۔ اس کے کچھ دن بعد انہوں نے ہمیں ایک پریزنٹیشن دی جو کہ سراسر اخبار اور میگزین پر تھی۔ طلبا کی تعداد کے پیش نظر مجھے یہی گمان گزرا کہ ویب سائٹس بھی شامل ہونی چاہئیں۔ میں نے جناب کی خدمت میں عرض کی اور اجازت مل گئی۔

ایک ساتھی ہم جماعت کے ساتھ ناچیز نے Cricingif اور cricbuzz کے موازنے پر مبنی ایک کلاس پریزنٹیشن دے دی جس کے سر نے دل کھول کر تعریف کی اور اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سمیت اپنی عمر کے سبھی اساتذہ کی سوچ کو بھی غلط قرار دیا جو صرف اخبار اور میگزین کے پیچھے پڑے رہتے تھے جبکہ دور اس سب سے کہیں آگے نکل گیا تھا۔ انہوں نے اور طلبا کو بھی ایسے تخلیقی خیالات سے کچھ نیا کرنے کی تلقین کی۔ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے اور میں اکثر ساتھی طلبا کو اساتذہ کو اپنی سوچ سے آگاہ کرنے پر اکسانے کے لئے بہت فخر سے یہ واقعہ بیان کرتا ہوں۔

سمجھنے والے سبھی اساتذہ اور طلبا کے لئے اس میں سبق ہے۔ ہمارے طلبا اکثر خود آگے بڑھ کر بہتر مشورہ نہیں دیتے جبکہ اساتذہ بھی ویسی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ طارق صاحب اس واقعہ کے بعد اکثر کہا کرتے تھے کہ میں پرانے زمانے کا ہوں، آپ لوگ نئی چیزوں کے بارے جانتے ہیں۔ تخلیقی سوچ سے مجھے بھی بتایا کریں کہ آپ کے خیال میں بہتر طریقہ کیا ہے۔ میں ایوننگ کے طلبا سے بھی سنا ہے کہ وہ اس پریزنٹیشن کا حوالہ دے کر کہا کرتے تھے کہ کچھ ایسا کیا کرو۔ یہی اب نئے دور کی ڈیمانڈ ہے۔ کوئی موازنہ یا تخلیقی تنقید لے کر آیا کرو۔ تحقیق کیا کرو۔

اس سمیسٹر کے اختتام پر جب ناچیز نے ان سے سوال کیا کہ میڈیا میں اب پیسہ تو رہا نہیں تو انہوں نے اپنی قابل ستائش محنت جس میں روزگار خاطر ٹرانسلیشنز کرنا اور تین تین نوکریاں کرنا شامل تھا ’کا حوالہ دے کر سمجھانے کے علاوہ سمجھایا کہ زندگی میں کوئی مقام پانا ہو تو اس کی خاطر بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ہر چیز کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

ابھی تین ماہ قبل رواں سمیسٹر میں انہوں نے ہمیں اردو صحافت پڑھانی شروع کی تھی۔ خبر کے علاوہ اداریہ لکھنے کا کام انہوں نے ہمیں اتنا عملی طور پر کروایا کہ ناچیز ان کا تاحیات شکر گزار رہے گا۔

اکتوبر کے اختتام پر میں نے پی ٹی وی Sports میں انٹرنشپ کے لیے پاکستانی میڈیا میں انٹری کے لئے روایتی جوڑ توڑ کے مراحل طے کیے مگر ہفتے تک جواب نہ آنے پر طارق صاحب سے کلاس کے بعد کسی ریفرنس کی درخواست کی۔ انہوں نے کسی روایتی جواب کی بجائے تسلی دی کہ کوشش کریں گے کہ جلد ہو جائے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا کوئی جاننے والے متعلقہ شعبے میں ہے؟ انہوں نے کہا کہ جب کام کرنا ہو تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کرنے والا ہے یا نہیں ہے۔

یہ دیکھا جاتا ہے کہ مل جائے گا کہ نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے نصیحت کی کہ کالمز لکھتے رہو اور سپورٹس بھی بہترین شعبہ ہے۔ پاکستان میں بہت اچھی انڈسٹری ہے۔ چند دن بعد میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ میں مصروف رہا، ہم کسی دن بیٹھ کر چائے پئیں گے۔ میں دو چار کالز کروں گا۔ کوئی نہ کوئی ریفرنس نکل آئے گا۔

یہ میری ان کے ساتھ آخری ملاقات دی۔ میں مڈز کے پیپرز کے بعد انہیں کال کرنے والا تھا لیکن ان کی خرابی صحت کی خبر ملی۔ پھر پتہ چلا کہ خرابی صحت کی وجہ کورونا میں مبتلا ہونا ہے۔ ایک ہفتے بعد طبیعت تھوڑی بہتر ہوئی تو انہوں نے آن لائن کلاس لی۔ پھر پتہ چلا طبیعت زیادہ بگڑ گئی ہے۔ آج صبح گھنٹہ پہلے پتہ چلا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے۔

طارق صاحب نمل اسلام آباد کے لیکچرر ہونے کے علاوہ ہم نیوز کے ایک سنیئر رپورٹر تھے۔ میڈیا انڈسٹری کے لیے ان کی بہت خدمات تھیں اور ان کا خلا بھرنا ان کے اداروں کے لیے شاید ممکن ہو، لیکن ان طلبا کو ان جیسا استاد کبھی نصیب نہیں ہو گا جو ان کے لیے راہداریوں میں گھنٹہ گھنٹہ کھڑا رہے، حالات حاضرہ کے سوال پر رسم ادا کرنے کی بجائے گھنٹہ بھر بولے اور طلبا ہر کام کے لیے سب سے پہلے انہیں کے پاس پختہ یقین لے کر جائیں کہ ہمارا کام کریں گے۔ آج نمل کے میڈیا کے طلبا تعلیمی پہلو سے یتیم ہو گئے ہیں۔

اللہ طارق محمود ملک کو جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).