مسعودؔ مفتی کا شہر افسوس


(اردو کے ممتاز ادیب اور افسانہ نگار مسعود مفتی 10 نومبر 2020 کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ ذیل کا مضمون ان کی زندگی میں لکھا گیا تھا)

انتظارؔحسین نے سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر جو چند ایک کہانیاں لکھی ہیں۔ ”شہرافسوس“ ان میں سے ایک ہے۔ انتہائی فنکارانہ حسن اور بے پناہ شدت تاثر کی حامل اس کہانی کے تینوں کردار اس بستی میں اپنوں کے ظلم میں صبح کرتے ہیں جسے انہوں نے ایک مدت پہلے دارالامان جانا تھا۔ یہ دارالامان جب ”شہرافسوس“ کے پہلے، دوسرے اورتیسرے آدمی کو شہر خرابی کا روپ دھارتا نظر آتا ہے تو ان میں سے ایک خود سے یوں مخاطب ہوتا ہے :

”۔ تو ان لوگوں کو ان کے حال پہ چھوڑ اور یہاں سے نکل چل کہ تجھے زندہ رہنا ہے۔ سو میں نے اس قبیلہ کی طرف سے منہ پھیرا اور اپنی جان بچا کر بھاگا مگر میں ایک عجیب میدان میں جا نکلا جہاں خلقت امڈی پڑی تھی اور فتح کا نقارہ بجتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ لوگو یہ کون سی گھڑی ہے اور یہ کیا مقام ہے۔ ایک شخص نے قریب آ کر کان میں کہا کہ یہ زوال کی گھڑی ہے اور یہ مقام عبرت ہے۔“

اور اس شخص نے زہر بھری نگاہوں سے دیکھا اور کہا۔ تو اسے نہیں پہچانتا؟
نہیں!
اے بدشکل آدمی یہ تو ہے!
میں؟ سناٹے میں آ گیا۔
میں نے اسے غور سے دیکھا اور میری پتلیاں پھیلتی چلی گئیں۔ یہ تو سچ مچ میں تھا۔
میں نے اپنے آپ کو پہچانا اور مر گیا۔ ”

چونکہ مسعودؔمفتی کا مسلک فنی حقیقت نگاری ہے۔ اس لیے سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر ان کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ”ریزے“ میں زوال کی لپیٹ میں آئی ہوئی اس بستی کا نام ڈھاکہ ہے۔ اس میدان کا نام پلٹن میدان ہے اور یہ ہتھیار پھینکنے کا منظر ہے اور جس پہلے، دوسرے اور تیسرے آدمی کے منہ پر تھوکا گیا ہے وہ میں، آپ اور ہم سب ہیں۔ مسعودؔمفتی ہم سب کو یہ گھڑی یاد دلانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں اور گزشتہ پندرہ برس سے ہمیں اس مقام عبرت کی سیر کرانے میں مصروف ہیں۔ پہلے انہوں نے ہمیں اپنے رپورتاژ ”چہرے“ میں مشرقی پاکستان کی جانکنی کی داستان سنائی، سبز ہلالی پرچم کے چاند تاروں کے غروب ہونے اور اس کے بعد کی اتھاہ تاریکی کے منظر دکھاتے ہوئے اپنے دل کی بے چینی اور ذہن کے کرب کو اس نکتۂ بصیرت میں سمیٹا کہ:

”برعظیم کی تاریخ میں یہ منظر بار بار دیکھنے میں آیا ہے جب بھی مرکز میں نا اہل اور بددیانت لوگ آئے تو دور کے علاقوں میں غداروں نے کمریں کس لیں۔ کسی بیرونی طاقت سے سازش کی اور سلطنت کی کمر میں چھرا گھونپا۔“

پھر انہوں نے قیام مشرقی پاکستان اور بعد ازاں بنگلہ دیش اور بھارت میں ایام اسیری کے واقعات، مشاہدات اور تاثرات پر مشتمل کتاب ”لمحے“ میں بتایا کہ:

”1971ء میں بھی میرکارواں نے وطن کو بچانے کی کوئی تدبیر نہ کی بہت کیا تو تساہل کو تدبیر کہہ ڈالا اور حماقتوں کو نوشتۂ تقدیر سمجھ لیا۔ رہبروں کی مسلسل خود ستائی، رہرووں کی مسلسل خودکشی سے قوم اور وطن ایسے مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں تاریکی کے سوا کچھ نہ تھا۔“

یہ مسعودؔمفتی ہی کی نہیں اردو افسانے کی خوش بختی ہے کہ تہ در تہ تاریکی کی اس فضا میں انہوں نے قرآن حکیم سے روشنی لینے کے عمل کا آغاز کیا۔ سات مہینے دم توڑتے ہوئے مشرقی پاکستان میں ایک مہینہ امریکی، روسی اور بھارتی دائیوں کی گود میں کھیلتے ہوئے نوزائیدہ بنگلہ دیش میں اور دو سال جنگی قیدیوں کے بھارتی کیمپ بریلی میں ظلمت و نور کی اس مسلسل کشمکش نے مسعودؔمفتی کے فکر و نظر کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ قومیت اور تہذیب کے وہ الجھے ہوئے مسائل جنہیں پاکستانی دانشوروں کے مقالات و مباحث مزید الجھاتے چلے آ رہے تھے آن کی آن میں یوں سلجھ گئے جیسے تاریک رات میں بجلی کوند جانے سے یک بہ یک فضا روشن ہوتی جاتی ہے :

”ہمارے دانشور اور ادیب کتابیں لکھ رہے ہیں اور آپس میں بحث کر رہے ہیں کہ پاکستانی کلچر کیا ہے اور پاکستانی قومیت کی تعریف کیا ہے؟ لیکن ہمارا ہر جنگی قیدی جو نہ دانشور ہے نہ عالم، پاکستانی کلچر اور قومیت کی تعریف خوب سمجھ چکا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کیمپ کے گرد خاردار تاروں کے حصار نہیں تھے بلکہ پاکستانی قومیت کی حدبندی تھی۔ ان تاروں کے اندر اسیران وفا پاکستانی کلچر کا سمبل تھے۔ وہاں کوئی فرق نہ تھا کہ کون پنجابی ہے، کون سندھی ہے، کون پٹھان ہے اور کون بلوچ ہے۔ وہ سب اس وجہ سے وہاں تھے کہ وہ پاکستانی تھے۔ ہمارا جنگی قیدی مثبت انداز میں نہیں تو منفی انداز میں سمجھ چکا ہے کہ وہ ہر چیز جسے اس برعظیم سے مٹانا چاہتا ہے پاکستانی قومیت اور پاکستانی کلچر میں آتی ہے کیونکہ ہندو اس برعظیم کو کنشک اور ہرش کے زمانے کا اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے (1) ۔“

یہاں یہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے المیہ سے دوچار ہو کر، بھارت کا جنگی قیدی بننے سے پہلے، مسعودؔمفتی بھی ہمارے ان ادیبوں میں سے ایک تھے، جن پر پاکستانی قومیت اور پاکستان کی جداگانہ تہذیب کا مفہوم واضح نہ تھا۔ مسعودؔمفتی نے اب سے بیس بائیں برس پیشتر مزاح نگار اور افسانہ نویس کی حیثیت سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ ”سرراہے“ اور ”محدب شیشہ“ کا مزاح نگار اور کہانی کار ترقی پسند تحریک کے ادبی ثمرات سے شاد کام ہونے میں کوشاں نظر آتا ہے۔

مقصدیت اور حقیقت نگاری کا وہ چلن جو ترقی پسندوں اور جدیدیت پسندوں کا طرۂ امتیاز تھا۔ مسعودؔمفتی کے ہاں بھی عام تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے موضوع پر لکھے گئے افسانوں کے مجموعہ ”رگ سنگ“ میں مسعودؔمفتی مقصدیت اور حقیقت نگاری کے نئے معنی دریافت کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مگر اس کتاب میں بھی یہاں وہاں انسان دوستی کے مغربی تصور کا غلبہ نظر آتا ہے جس کے زیر اثر مسلمان دوستی اور انسان دوستی میں تصادم کی کیفیت نمایاں ہے۔

انسان دوستی کے سیکولر تصور اور قوم پرستی کے آدرش کے درمیان یہ کش مکش قیام مشرقی پاکستان کے دوران نکتۂ عروج کو پہنچتی ہے اور بالآخر بریلی کے ایام اسیری میں ختم ہو جاتی ہے۔ اب مسعودؔ مفتی بھارت کے جنگی قیدی مسعودؔ الرحمن مفتی کی واردات سے اکتساب نور کرتا ہے۔ تو ”صدیوں پار“ کا سا افسانہ جنم لیتا ہے۔ یہ افسانہ مسعودؔ مفتی کے فنی سفر کو ایک نئے موڑ سے آشنا کرتا ہے۔ یہ نئی سمت تاریکی کے دنوں میں قرآن سے روشنی لینے سے نمودار ہوئی ہے۔

”لمحے“ کے آخری مضمون ”لمحوں کی سوچ“ میں مسعودؔ مفتی ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں تاریکی کی تین سطحیں ہیں۔ پہلی سطح ملت اسلامیہ کے اس تاریک ترین دور سے عبارت ہے جب آٹھ سو سال تک حکومت کرنے کے بعد مسلمان ہسپانیہ سے نابود ہو گئے۔ تاریکی کی دوسری سطح برعظیم کے مسلمانوں کے اس تاریخی المیے سے عبارت ہے جسے سقوط ڈھاکہ کہتے ہیں اور جو سقوط غرناتا سے عبرت نہ پکڑنے سے وقوع پذیر ہوا ہے۔ تاریکی کی تیسری سطح پاکستانی قوم کے ماضی و حال کے مصائب کی سطح ہے۔ ”صدیوں پار“ میں مسعود مفتی نے فن کارانہ چابکدستی اور پاکستانی طرز احساس کی بدولت تاریکی کی ان تینوں سطحوں کو یکجا کر دیا ہے۔

”صدیوں پار“ میں بیت المکرم اور مسجد قرطبہ۔ ڈھاکہ اور غرناتا۔ ایک ہی تصویر کے دورخ نظر آتے ہیں اور ملت اسلامیہ کی تاریخ کی تہ در تہ تاریکی میں یادوں کی بجلی یوں رہ رہ کر لہراتی ہے کہ زمان و مکان کی حدود مٹ کر رہ جاتی ہیں اورغرناتا کے مسلمانوں اور ڈھاکہ کے مسلمانوں کی واردات ایک بن کر رہ جاتی ہے۔ یادوں کا ایک ورق الٹتا ہے تو ”صدیوں پار“ کا وہ 1971ء کے المیے میں 1947ء کے فسادات کا عکس دیکھتا ہے :

”اسے یوں لگتا جیسے قرطبہ کی مسجد کا صحن اس پرانے گھر کا صحن ہے جہاں آدھ موئی آگ اور پھیکی چاندنی میں وہ اپنے گھر والوں کی لاشیں دیکھ رہا ہے۔“ اور ”معاً اسے یوں لگا کہ یہ بیت المکرم کے مؤذن کی آواز نہیں بلکہ قرطبہ کے مؤذن کی آواز ہے۔ اور یہ آج نہیں بلکہ صدیوں بعدکا کل ہے۔“

یوں تو ”ریزے“ میں مشرقی پاکستان کی وہ تصویر اپنے بیشتر رنگوں کے ساتھ موجود ہے جس میں مشرقی پاکستان زوال اور فنا کے راستے پر تیزی سے گامزن ہے۔ ایک ایسا معاشرہ اپنے آخری سانسوں میں تڑپ رہا ہے جہاں زندگی گراں اور موت ارزاں ہے۔ جہاں کی فضا میں وہم پلتا ہے اور سیدھی سادی زندگیاں نفسیاتی اور جنسی امراض میں مبتلا ہو کر حیوانیت اور بربریت کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ اس مریض اور شدید تشنج میں مبتلا معاشرے کی عکاسی فنی حسن اور گہری دردمندی کے ساتھ کی گئی ہے۔

فنی پختگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ”نیند“ میں اگر ”سیاہ حاشیے“ کا منٹوؔ یاد آتا ہے تو ”تشنگی“ ، ”ٹھنڈا گوشت“ کی یاد دلاتا ہے اور ”جال“ میں ہیروشیما سے پہلے اور ہیروشیما کے بعد کا احمد ندیمؔ قاسمی موجود ہے۔ سعادت حسنؔ منٹو اور احمد ندیمؔ قاسمی کا ذکر مسعودؔ مفتی کے فنی اعجاز کے ثبوت کے طور پر آیا ہے نہ کہ فنی عجز کے باعث۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسعودؔ مفتی نے اپنے فوری پیشروؤں سے، اردو افسانے کی روایت سے وہ سب کچھ سیکھا ہے جو کسی بھی ایسے فن کار کے لیے سیکھنا ضروری ہے۔

جس نے فن کی شاہراہ پر دور تک جانا ہو مگر فنی چابک دستی کے اس سارے قابل رشک ساز و سامان کے بعد مجھے ”ریزے“ کا وہ طرز احساس دلفریب معلوم ہوا ہے جو ”صدیوں پار“ میں اپنی رعنائیوں سمیت جلوہ گر ہے اور جو مسعودؔ مفتی کو آہستہ آہستہ اس طرز احساس سے قریب تر لا رہا ہے جو انتظارؔحسین کی خاص عطا ہے اور جس کی بدولت ”صدیوں پار“ کے مطالعے کے دوران انتظارؔ حسین کا افسانہ ”وہ جو کھوئے گئے“ بار بار یاد آتا ہے :

”تب زخمی سروالا تلخ اور افسردہ ہنسی ہنسی میں اکھڑ چکا ہوں۔ اب میرے لئے یہ یادرکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں غرناتا سے نکلا ہوں یا جہان آباد سے نکلا ہوں یا بیت المقدس سے اور یا کشمیرسے۔ کہتے کہتے وہ رکا۔

زخمی سروالے کی اس بات سے سب عجب طرح متاثر ہوئے کہ چپ سے ہو گئے مگر باریش آدمی آبدیدہ ہوا اور یہ کلام زبان پر لایا کہ ہم اپنا سب کچھ چھوڑ آئے ہیں مگر کیا ہم اپنی یادیں بھی چھوڑ آئے ہیں؟ ”

) وہ جو کھوئے گئے (

مسعودؔ مفتی بھی ان یادوں کی بازیافت کے سفر پر نکل پڑے ہیں جو ہمیں ڈھاکہ اور کشمیر کے مظالم کو دلی اور فلسطین اور غرناتا کے مظالم سے ملا کر سمجھنے کا طرز احساس بخشتی ہیں، جن یادوں کو اپنے خواب و خیال میں بسا کر اسلامیان ہند نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا تھا اور جن یادوں کو گواہ بنا کر بستر مرگ پر بے چین اقبالؔ نے قائداعظم کو لکھا تھا کہ اگر پاکستان نہ بنا تو برصغیر میں غرناتا اور فلسطین کی داستان دہرائے جانے کا امکان ہے۔ مسعودؔ مفتی صدیوں پار جھانکتے ہوئے ہم سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان بن جانے کے باوجود 1971ء میں ہمارے ہاں غرناتا کی داستان کیوں دہرائی گئی؟ شاید اس لیے کہ پاکستان آتے ہوئے ہم اپنی یادیں برٹش انڈیا میں چھوڑ آئے تھے!

) دسمبر 1979ء (
(1) ”ہمہ یاراں دوزخ“ کا دیباچہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).