جس کو آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے


مجھے صحیح یاد نہیں لیکن یہ ’ادراک‘ ضرور ہے کہ اس سے پہلی ملاقات سے بنا تعلق آج کئی برس گزر کر ”دوستی“ بن چکا ہے۔ وہ آج بیماری کا سامنا کیے ہے مگر اس کے حوصلے ”چٹان“ کی طرح بلند ہیں میں نے اس تعلق میں ایک ”انفرادیت“ اس میں دیکھی کہ وہ سچے زمانے کے بے غرض قوم پرستوں کی طرح کا صرف ایک ”کارکن“ ہے۔ یہی اعزاز اس کے لیے سب سے بڑا ہے چند ماہ قبل جب یہ اطلاع ملی کہ وہ ایک مرض کا شکار ہے نہ جانے کیوں مجھے چوٹ سی لگی۔

میں اتنا حوصلہ بھی نہیں رکھتا کہ بار بار اس کی ”عیادت“ کروں۔ کچھ دن قبل جب اس کے گھر اس کی تیمارداری کے لیے گیا تو گمان پیدا ہوا وہ بیماری سے نجات پائے گا پھر چند روز بعد جب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تیاریاں تھیں غالباً دوبار بیماری کے باوجود وہ کچہری چوک راولاکوٹ کیمپ میں آ کر بیٹھا رہا۔ جب جلوس شروع ہوا تو وہ اس میں بھی شامل تھا۔ اس کے ”حوصلہ“ پر داد دینے کو جی چاہا مگر ”ظرف“ نے روک دیا۔

الٹا اس سے شکوہ کیا کہ وہ اس بیماری میں کیوں ایسا کر رہا ہے؟ گاہے بگاہے اطلاع ملتی ہے کہ اس کا علاج جاری ہے۔ آج اس کے قریبی نے بتایا کہ اس کے علاج میں تیزی ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں ایک جھٹکا سا لگا میں گناہگار اس کی صحت یابی کے لیے دعا کر لیتا ہوں لیکن قلم کا سہارا اس لیے لیا کہ پڑھنے والے پڑھ کر اس کے لیے دعا کریں۔ ممکن ہے کسی کی دعا میں تاثیر ہو۔ پڑھنے والوں نے اس کے گرائیں اور اس کے ہم سفر حمید کامران کے لیے بھی دعائیں کیں جو قبول ہوئیں عموماً انسان کے قصیدے اس کی زندگی کے بعد لکھے جاتے ہیں لیکن امان صاحب کے بعد آج اس کے لیے بھی اس کی زندگی میں کلمہ خیر کہنے کا قدرت نے موقع دیا جس کا مقصد صرف قارئین سے اس کی زندگی کی بحالی کے لیے بیماری سے نجات کی دعا کرنا ہے۔

وہ کسی غریب گھرانے کا کوئی بھکاری نہیں دولتمند اور اہل علم گھرانے کا ایک ”جیالا“ ہے۔ اس کو یہ وراثت خواجہ کبیر سے ملی یا اشفاق مجید وانی کی ”خواجگی“ کا اثر ہے وہ خواجہ حسن جیسا ”سرپھرا“ بھی نہیں لیکن وہ مقبول بٹ کے کارواں کا ایک ”قیمتی اثاثہ“ ہے جس گھرانے میں اس کا جنم ہوا وہاں روایتی سیاست کاری کر کے شاہ غلام قادر اور خواجہ فاروق جیسوں سے ”ٹبرداری۔“ کر کے حکومتی ایڈجسٹمنٹ اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا بلکہ وہ خواجہ آصف اور سعد رفیق جیسوں کے ”قریب“ زیادہ آسانی سے ہوتا لیکن اس نے پرخطر راستہ اختیار کیا جہاں اپنی آمدن اور بھائیوں کی کمائی ”تحریک“ کی نذر کی جانا ثواب ہے وہ افغان بھگوڑوں کے انخلا کی تحریک میں بھی تشدد برداشت کرتا ڈنڈے کھاتا آنسو گیس کا سامنا کرتا تو منحوس خونی لکیر مٹانے ہر سفر میں وہ نمایاں رہتا۔

وہ برادری ازم کی لعنت کا شکار بھی نہ ہوا اور کچھ ”کم ظرفوں“ کی طرح سدھن مخالف ہو کر سدھنوں کو سامراج بھی نہ مانا۔ وہ اصولوں پر آیا تو بڑے نام چھوڑ کر صغیر خان کا ہم سفر بنا صلاحیت اور اہلیت ایسی کہ کہیں بڑے معتبر نام ہوتے وہ متحدہ جے کے ایل ایف میں بھی پونچھ جیسے حساس اور مشکل مقام پر ضلعی صدر کی ذمہ داریاں ملنے کا مستحق ٹھہرا۔ زندگی کے عروج و زوال میں صحت مند ہوتے بھی ”رولے رپھڑ“ کا شکار رہا۔ اس کو اپنوں نے بھی زخم خوب لگائے فرانس میں مقیم اس کے برادر اکبر اور ہر دل عزیز شخصیت ڈاکٹر شبیر کو جب قریبی رشتہ دار نے ایک کروڑ سے زائد کا مالیتی نقصان دیا وہ ہر ممکن کوشش کے باوجود اپنے بھائی کے نقصان کا ازالہ نہ کر سکا شاید اس کی زندگی میں یہ پہلی بار تھی۔

آج وہ موذی مرض کا مقابلہ کر رہا ہے مگر اس کے حوصلے بلند ہیں حالانکہ اس بیماری سے کون ہے جو ریزہ ریزہ نہ ہوا ہو۔ مگر میرے خدا کے ہاں کسی کی کمی ہے وہ تقدیر بدل سکتا ہے۔ بس ہر قاری سے درخواست کہ وہ میرے اس یار کے لیے دعا کرے۔ میرا وہ محسن میرا وہ سنگی کسی حوالے کا محتاج نہیں۔ کسی تعارف کا حقدار نہیں۔ وہ آپ اپنا تعارف ہے۔

وہ خواجہ خلیل کشمیری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).