میں نے سنہ 71ء کے لہو لہو دسمبر میں کیا دیکھا؟


اڑتالیس برس بیت چکے ہیں مگر جب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو دل میں کرب و الم کی ٹیس اٹھنے لگتی ہے مگر زیادہ رنج اپنی حماقتوں کو یاد کرکے ہوتا ہے کہ انسان اگر ایک بیانیے، بالخصوص سرکاری بیانیے، کا اسیر ہو جائے تو کس طرح سامنے کی حقیقتوں کو جاننے اور پہچاننے سے قاصر ہو جاتا ہے۔سکول کے زمانے میں نسیم حجازی کے ناول پڑھتے ہوئے بغداد اور اندلس کے مسلمانوں کی حماقت پر بہت غصہ آتا تھا کہ وہ امنڈتے ہوئے خطرات سے بے نیاز کس طرح آپس کی لڑائیوں میں مصروف ہوتے تھے۔ اب اپنی آنکھوں کے سامنے المیہ برپا ہو رہا تھا مگر ہم اس کا صحیح ادراک کرنے سے قاصر تھے۔

بزرگ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے پاکستان میں وارد ہوئے تھے۔ میرے خاندان کو اگرچہ کسی جانی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، مگر کیمپوں میں گزارے ہوئے وقت کی سختی اور خواری نے ان کے اندر نفرت کے بیج بو دیے تھے۔ زیادہ تر بچپن ہندوؤں اور بالخصوص سکھوں کے مظالم کی داستانیں سننے میں بسر ہوا۔ گھر میں نوائے وقت اخبار آتا تھا، اس کو پڑھنے سے بھی ذہن کی ایک خاص نہج پرتشکیل ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے مسائل کو بالعموم وہاں بڑی تعداد میں موجود ہندو آبادی سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اسی صورت حال میں 1965کی جنگ کا واقعہ پیش آ گیا۔ اس وقت میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جب ریڈیو پاکستان نے یہ اطلاع دی کے بی بی سی نے لاہور پر بھارتی قبضے کی جھوٹی خبر نشر کی ہے تو ہم نے جذبہءحب الوطنی سے سرشار ہو کر بی بی سی کا بائیکاٹ کر دیا۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ملی ترانے سن کر خون کو گرماتے اور اپنی فتح کے گیت گاتے رہے۔ تاہم جس دن پتہ چلا کہ فاتح افواج نے جنگ بندی قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے تو بہت مایوسی ہوئی۔ اس جنگ میں ایر فورس کے بنگالی پائلٹوں، بالخصوص ایم ایم عالم، کی بہادری اور شجاعت کا بہت ذکر ہوا اور وہ قومی ہیرو قرار پائے۔ فوج میں مشرقی بنگال رجمنٹ کی بہادری کو آغا شورش کاشمیری نے ، مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام، لکھ کر خراج تحسین پیش کیا۔ ازاں بعد اعلان تاشقند ہوا تو وہی گھسا پٹا اور بے معنی جملہ پڑھنے اور سننے کو ملا کہ جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی گئی۔

اردو کے عظیم مزاح نگار شفیق الرحمان نے مغربی عورت سے شادی نہ کرنے کی یہ وجہ بیان کی تھی کہ ”سب کے سب یہی کہتے ہیں کہ لڑکا ولایت سے میم بھگا لایا ہے۔۔۔ او ر ساتھ ساتھ یہ امید بھی ظاہر کی جاتی ہے کہ ان شا ءاللہ میم کسی دن ضرور واپس بھاگ جائے گی“۔

 جس وقت سے اقتدار وردی پوشوں کے قبضے میں آیا تو انہوں نے اس خیال کی آبیاری شروع کر دی تھی کہ بنگالی ایک دن ہم سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ ایوب خان کے نفس ناطقہ، الطاف گوہر، نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ فیلڈ مارشل کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی۔ ایک دفعہ الطاف گوہر نے ایوب خان سے کہا کہ مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کا جو ہال بنایا گیا ہے، اگر اس میں کبھی کبھار اجلاس بھی منعقد ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔ اس پر ایوب خان نے جواب دیا کہ میں نے ڈھاکہ میں جو چند عمارتیں بنوائی ہیں ان کا مقصد یہ ہے جب بنگالی علیحدہ ہوں تو ان کے پاس معقول قسم کا دارالسلطنت موجود ہو۔ اس کے علاوہ ایک بار تو انہوں نے بنگالی سیاستدانوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہیں باقاعدہ بھائیوں کی طرح ہاتھ ملا کر جدا ہونے کی دعوت بھی دی تھی، مگر اس دعوت کو ان سیاست دانوں نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔

جب 1970کے انتخابات ہوئے تو ہم جماعت اسلامی کے حامی تھے۔ بہرحال ایک بہت طویل انتخابی مہم کے بعد جب دسمبر میں انتخابات کا انعقاد ہوا تو شیخ مجیب الرحمان کی جماعت نے مشرقی پاکستان کی دو کے سوا تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ مغربی حصے میں دو صوبوں میں پیپلز پارٹی کو کامیابی ملی اور دو صوبوں میں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی نے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ الیکشن کے بعد کچھ عرصہ تو میں اس بات کا حامی رہا کہ چونکہ مجیب کے پاس اکثریت ہے، اس لیے حکومت بنانے کا اختیار بھی اسے حاصل ہے۔ اس وقت یہ طعنہ سننے کو ملتا تھا کہ اب آپ مجیب کے حامی ہو گئے ہیں۔ مگر فوجی حکمرانوں کی نیت میں فتور تھا اور وہ ایک بنگالی کو وزیر اعظم کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں آرمی ایکشن شروع ہو گیا اور ہم ایک بار پھر مغربی حصے کے پریس کے پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے۔ آرمی ایکشن کے چند ماہ بعد اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسن قریشی صاحب نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور واپسی پر فرجی کارروائی کے حق میں بہت سے مضامین لکھے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے 1966 میں اگست سے دسمبر تک ” محبت کا زمزم بہہ رہا ہے” کے عنوان سے  ایک سلسلہ مضامین بھی لکھا تھا جو دراصل مجیب الرحمن کے چھ نکات کا جواب تھے۔ میں سکول کے زمانے میں کئی برس تک اردو ڈائجسٹ پڑھتا رہا تھا۔ اس لیے قریشی صاحب کی تحریروں پر یقین کر لیا۔ اس بات کا بہت برس بعد پتہ چلا کہ وہ جسے محبت کا زمزم کہہ رہے تھے وہ اصل میں قلزم خونیں تھا۔

اس عرصے میں ہمیں یہی بتایا جاتا رہا کہ مشرقی پاکستان میں امن و سکون مکمل طور پر بحال ہو چکا ہے۔ ہر طرف امن اور شانتی کا دور دورہ ہے۔ جماعت اسلامی والے مشرقی پاکستان میں دو تین وزارتوں پر فائز ہو چکے تھے۔ شاید اگست کا مہینہ تھا جب ایک وزیر لاہور تشریف لائے اور اپنے خطاب میں انہوں نے بھی کچھ ایسی ہی تصویر پیش کی تھی۔

دسمبر کا مہینہ آیا تو باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ اس وقت بی اے کے امتحان کے رزلٹ کا انتظار تھا۔ جنگ کا تمام زمانہ لاہور میں گزارا۔ رات بلیک آؤٹ میں ریڈیو پاکستان پر آٹھ بجے خبروں کا بلیٹن سنتے اور ایک ہی خبر سنائی دیتی تھی کہ پاکستانی افواج اپنے مورچوں کو مستحکم بنا رہی ہیں۔ بھارتی جہاز بلاناغہ لاہور کی فضاؤں میں پرواز کرتے، گولیاں چلاتے اور کبھی کبھار بم برساتے۔ کوٹ لکھپت میں گرنے والے بموں کے دھماکے بھی سنے۔ تاہم پاکستان ایر فورس کے جہاز کبھی دکھائی نہ دیے۔ گزشتہ جنگ میں ایر فورس کی شاندار کارکردگی بہت یاد آتی مگر ذہن کسی قسم کے شکوک و شبہات سے پاک تھا۔ اپنی افواج کی دلیری اور ہندو کی بزدلی پر کامل یقین تھا۔ بی بی سی وغیرہ کا سننا خود پر حرام کر رکھا تھا۔

دسمبر کی چودہ تاریخ کی شام مجھے گھر سے پیغام ملا کہ دادی جان کی طبیعت خراب ہے۔ اگلے دن میں گاؤں کے لیے روانہ ہوا۔ اس وقت گاؤں پہنچنے میں پورا دن لگ جاتا تھا۔ سولہ دسمبر کی صبح اباجان کے کزن ہمارے گھر تشریف لائے۔ انہوں نے مجھ سے لاہور کے حالات دریافت کیے تو میں نے مشرقی پاکستان سمیت حالات کو ہر لحاظ سے تسلی بخش قرار دیا۔ میری بات سن کر انہوں نے جواب دیا کہ تمہارا دماغ درست ہے۔ صبح سے بی بی سی سے مانک شاہ کا الٹی میٹم نشر ہو رہا ہے۔ تاہم میں بی بی سی کی خبر پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ عصر کے بعد میں ایک دکان پر چلا گیا۔ وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور بہت مایوسی کی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے انہیں بہت تسلی دی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، حالات بہت جلد درست ہو جائیں گے اور ہماری بہادر افواج فتح یاب ہوں گی۔ میری باتیں سن کر ان لوگوں کی کچھ ڈھارس بندھی۔ اتنے میں خبروں کا وقت ہو چلا تھا۔ پانچ بجے کی خبریں سننے کے لیے ریڈیو لگایا تو پہلی خبر یہ سننے کو ملی کہ مقامی کمانڈروں میں سمجھوتے کے بعد بھارتی افواج ڈھاکے میں داخل ہو گئی ہیں۔ ایک لمحے کو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہے۔ تاہم جلد ہی یہ احساس ہوا کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم ہونے کے باوصف کس قدر احمق ہوں اور گاؤں کے لوگ مجھ سے زیادہ باخبر اور سمجھ دار تھے۔ کیونکہ انہوں نے نام نہادجذبہء حب الوطنی کے تحت خود کو اطلاع کے کسی ایک ذریعے تک محدود نہیں کیا تھا۔

مغرب کی نماز کے بعد جب گھر پہنچا تو میری دادی جان نے پوچھا کہ کیا خبر ہے۔ میں نے آنسوؤں میں بھیگی آواز میں جواب دیا کہ کہانی ختم ہو گئی ہے۔ پھر بستر پر لیٹ کر بہت دیر تک روتا رہا تھا۔ میرا رونا اس المیے پر بھی تھا جو ملک پر بیت گیا اور اپنی حماقت پر بھی۔ ۔سنا ہے کہ لاہور میں بہت بڑی تعداد میں لوگ مال روڈ پر جمع ہوئے اور گریہ کناں ہوئے۔ لیکن مجبور اور بے نوا لوگوں کا گریہ بے معنی ہوتا ہے اور بے وقت بھی۔ نسیم حجازی کے ناول شاہین میں پڑھی ہوئی وہ بات یاد آئی ہے جو ابو عبداللہ کو اس کی ماں نے کہی تھی۔ ابو عبداللہ نے جلاوطنی سے پہلے جب قصر الحمرا پر آخری نظر ڈالی تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ اس کی ماں نے کہا کہ مردوں کی طرح جس کی حفاظت نہ کر سکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔

عوام کے آنسووؤں سے قطع نظر، مقتدر حلقوں نے سکھ کا سانس لیا کہ بنگالیوں کو سلیوٹ کرنے کا خدشہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ گیا۔ اس سر زمین پر ظلم کی جو داستانیں ہم نے رقم کی تھیں، ان کو فراموش کرنے کے لیے پروپیگنڈے اور دروغ گوئی کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا۔

اتنے برس گزرنے کے بعد کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ جب اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ہم نے بنگالیوں کو ظلم اور جبر کے ذریعے علیحدہ کیا۔ اور کچھ نہیں تو اس ظلم اور زیادتی پر بنگالی بھائیوں سے معافی ہی مانگ لیں۔ ہم نے بنگالیوں کو جدا کرکے خود پر بھی بہت ظلم کیا ہے۔ آج ہمیں جس شدت پسندی کا سامنا ہے، اگر بنگال ہمارے ساتھ ہوتا تو شاید ہم اس عفریت سے محفوظ رہتے۔

 بنگالی سیاست دان کی بڑی تعداد ذاتی زندگی میں مذہبی ہوتی تھی، لیکن وہ مذہب کو سیاسی فوائد کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ مغربی حصے کے سیاست دانوں کی بڑی تعداد نجی زندگی میں مذہب پر عمل پیرا نہیں ہوتی مگر سیاسی فائدے کے لیے مذہب کے استعمال سے گریز نہیں کرتی۔ خواجہ ناظم الدین جیسے کمزور وزیر اعظم نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ آبادی کے ایک حصے کو غیر مسلم قرار دیا جائے کیونکہ ان کے نزدیک ایسا فیصلہ کرنا ریاست کا کام نہیں تھا، مگر باقی ماندہ پاکستان کے بہت مقبول اور طاقت ور وزیر اعظم نے یہ سوچ کر اس مطالبے کو تسلیم کر لیا تھا کہ اس طرح کچھ ووٹوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

 پہلے ہم نے اکثریت پر ظلم توڑا تھا اور اب اقلیت کا اپنے عقیدہ پر کاربند رہنے کا حق سلب کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی اور اسی مسلم لیگ کی قیادت کرتے ہوئے قائد اعظم نے پاکستان حاصل کیا تھا۔ مگر افسوس ہم نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والوں اور قائد اعظم کے فرمان، دونوں کو بھلا دیا۔ اگر کسی ملک میں آبادی کے کسی حصے پر ظلم و زیادتی روا رکھی جائے گی تو وہاں نہ امن قائم ہو گا اور نہ خوش حالی آئے گی۔ آئیے یہ عہد کریں کہ ہم ہر ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں گے، لوگوں کا اپنے اپنے عقاید کے مطابق جینے کا حق تسلیم کریں گے۔ اگر نفرتوں کی یہ آگ بھڑکتی رہی تو پھر وہ صورت حال پیدا ہو کر رہے گی جس کا نقشہ باصر سلطان کاظمی نے اس شعر میں کھینچا ہے:

دوستو محفوظ مت سمجھو تم اپنے آپ کو

ایک گھر کی آگ سے لگ جائے گی ہر گھر کو آگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments