اسے کہنا، دسمبر آ گیا ہے


لفظ تو یہیں کہیں خوار و زبوں پھرتا ہے۔ پھر ایک شاعر آتا ہے۔ وقت کی دھول میں سرگرداں، خلق کے قدموں میں پامال لفظ کو محبت سے اٹھاتا ہے، اسے جھاڑ پونچھ کر تجربے کے خدوخال بخشتا ہے، کیفیت کے سیاق و سباق میں رکھ دیتا ہے۔ لفظ شاعر کی سطروں میں سج جائے تو جانو، سپھل ہو گیا۔ شاعر لفظ کو زندگی عطا کرتا ہے لیکن ظالم چترکار اسے بھی ہمیشہ کے لئے اپنا بنا لیتا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا۔۔۔۔

میں جس سے پیار کرتا ہوں، اسی کو مار دیتا ہوں

منیر نیازی نے ان گنت لفظوں سے پیار کیا۔ عشق کا تو بہانہ تھا، منیر نیازی نے اپنے داخل میں ایک دہشت گاہ تعمیر کر رکھی تھی۔ اسے لفظوں کو اغوا کرنے، اپنی حیرت میں گم کرنے اور آئندگاں کی ضیافت کے لئے  سررہگزار رکھ دینے سے غرض تھی۔

غالب نے بھی ایک ڈومنی کو مارنے کا اعتراف کیا اور صاف بچ نکلا۔ یہ بتایا ہی نہیں کہ اردو لغت میں کیسی چنگیز خانی یہ مغل بچہ کر گیا۔ جس لفظ کو چاہا، گنجینہ معنی کا طلسم بنا دیا۔۔۔ اپنے لحن کا ایسا قفل لگا دیا کہ وہ لفظ دہلی والے اسداللہ خان سے منسوب ہو گیا۔

دسمبر کا لفظ کہیں انیسویں صدی کے اوائل میں اردو والوں سے متعارف ہوا ہو گا۔ قریب دو سو برس ہم سب جاڑے کی چاندنی میں کمہلائے رہے۔ اور پھر بلدہ ملتان کی بالو دھرتی پر ایک شاعر اترا۔ ارشاد الرحمن نام تھا، عرش صدیقی اختیاری تعارف تھا۔ 21 جنوری 1927 کو مشرقی پنجاب کے شہر گورداس پور میں پیدا ہوئے۔ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں تعلیم پائی۔ انگریزی کے استاد تھے۔ افسانے اور تنقید کی زمینوں میں پاکوبی کی۔ مگر اردو ادب میں ایک مختصر سی نظم سے نام پایا۔ اسے کہنا، دسمبر آ گیا ہے۔

اسے شعر کا کرشمہ سمجھنا چاہیے۔ دسمبر کی کہر آلود تنہائی نے اردو شعر میں ملتان جیسے خطہ گرم کے توسط سے جگہ پائی۔ معلوم ہوا کہ خواہش کے شعلے کے بیچوں بیچ کہیں آرزو کی ٹھنڈک ضرور ہوتی ہے۔ عرش صدیقی اپریل 1997 میں رخصت ہوئے تھے۔ بائیس دسمبر گزر چکے۔ دسمبر کا مہینہ مگر آتا ہے تو اہل دل زانو سے سر اٹھا کر گویا خود کلامی کرتے ہیں۔۔۔۔

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے

دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں

ڈوب جائے گا

اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا

مگر جو خون سو جائے گا، جسموں میں نہ جاگے گا

اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی

دیواروں میں لرزاں ہے

اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں

اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے

اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا

تو کیسے برف پگھلے گی

اسے کہنا کہ لوٹ آئے

(عرش صدیقی صاحب کی یہ تصویر برادر محترم رضی الدین رضی کے عطایا میں سے ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).