ملک میں سیاسی بحران اور حکومت کا نیا سفارتی ایڈونچر


پاکستان نے ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کے امریکی فیصلہ پر احتجاج کرتے ہوئے اسے ’جارحیت‘ قرار دیا ہے۔ اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ ’سب معاملات بات چیت، ڈپلومیسی اور باہمی افہام و تفہیم سے طے پانے چاہئیں‘۔ بین الاقوامی تعلقات میں ایسا اصولی مؤقف رکھنے والی حکومت نے آج سعودی عرب کو مزید ایک ارب ڈالر واپس کئے ہیں اور کہا ہے کہ دسمبر 2018 میں دیے گئے سہ سالہ قرض کی آخری قسط اگلے ماہ ادا کردی جائے گی۔

سعودی عرب کا قرض قبل از وقت ادا کرنے کا سبب یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس ڈالروں کی بہتات ہوگئی ہے بلکہ اس مقصد کے لئے ایک بار پھر چین سے امداد لی گئی ہے۔ اب قلیل المدت سعودی قرض کی آخری قسط ادا کرنے کے لئے چینی کمرشل بنکوں سے رجوع کیا گیا ہے۔ یہ دو چھوٹی خبریں شاید چیختے چنگھاڑتے پاکستانی میڈیا کے نزدیک ’غیر ضروری‘ معلوماتی نوٹ کی حیثیت رکھتی ہوں لیکن درحقیقت ان سے اسلام آباد میں حکمرانوں کی ترجیحات اور سفارتی تہی دستی کا پتہ چلتا ہے۔ جس روز پاکستان نے مزید ایک ارب ڈالر سعودی عرب کو واپس کرنے کا اعلان کیا ہے، اسی روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دو روزہ دورہ پر متحدہ عرب امارات پہنچے ہیں۔ اس دورہ کی تشہیر باہمی دلچسپی کے امور پر گفت و شیند اور پاکستانی معیشت میں امارات کی سرمایہ کاری کے حوالے سے کی گئی ہے ۔لیکن یہ امر بعید از قیاس نہیں ہونا چاہئے کہ شاہ محمود قریشی در اصل یو اے ای سے درخواست کرنے گئے ہوں کہ وہ بھی سعودی عرب کی طرح اپنا قلیل المدت قرض واپس لینے کا مطالبہ نہ کرے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں اس سال اگست سے سرد مہری دیکھنے میں آئی ہے جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے مسئلہ پر کھل کر پاکستانی مؤقف کی حمایت نہ کرنے پر او آئی سی پر نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ اگر اس تنظیم نے سنجیدگی نہ دکھائی تو پاکستان خود اسلامی ملکوں کو مدعو کر کے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبداد کے خلاف اتحاد قائم کرے گا۔ اسلامی تعاون تنظیم سعودی عرب کی سرپرستی میں کام کرتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے فیصلے سعودی قیادت کی مرضی سے ہی طے پاتے ہیں۔ او آئی سی کے بارے میں وزیر خارجہ کا بیان دراصل سعودی عرب پر بالواسطہ نکتہ چینی تھی ۔ اس طرح پاکستان نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کے سوال پر پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کی پالیسی ترک کردے۔ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ شاہ محمود قریشی جیسے جہاں دیدہ وزیر خارجہ نے یہ بات سفارتی ذرائع سے ریاض کے گوش گزار کروانے کی بجائے اس پر ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں بات کرنا کیوں ضروری سمجھا۔

سعودی عرب پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ شاہ محمود قریشی تن تنہا نہیں کرسکتے اور نہ ہی وزیر اعظم کابینہ کے اجلاس میں ایسی کوئی پالیسی ترتیب دے سکتے ہیں۔ سعودی عرب جیسے حلیف کے ساتھ تعلقات کے بارے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہوگی۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ یہ درشت رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دراصل کس زرخیز ذہن کی اختراع تھی لیکن یہ طے ہے کہ نہ تو خارجہ پالیسی میں ایسی بنیادی تبدیلی کے لئے پارلیمنٹ میں بحث و مشاورت کو ضروری سمجھا گیا اور نہ سفارتی ذرائع سے سعودی عرب کو زیادہ مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ شاہ محمود قریشی کی زبان سے ادا ہونے والے لفظ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے بااثر اور فیصلہ کن حلقوں میں خوب غور وخوض کا ہی نتیجہ تھے۔ اس موقع پر سعودی عرب کی مشکلات اور مجبوریوں کا اندازہ کرتے ہوئے یہ اندازہ کیا گیا کہ پاکستان سعودی شاہی خاندان کو دباؤ میں لاکر بھارت کی مشکلات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ تاہم اس کے بعد سے پاک سعودی تعلقات پر شکوک کا سایہ دکھائی دینے لگا ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ کےغیر سفارتی لب و لہجہ کے بعد ریاض نے کسی براہ راست رد عمل کا اظہار نہیں کیا لیکن اس بیان کے چند روز بعد ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک پہلے سے ’طے شدہ‘ دورے پر سعودی عرب گئے جسے ’ڈیمیج کنٹرول مشن‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ عام خیال ہے کہ اس طرح شاہ محمود قریشی کے ذریعے چلی گئی ناکام چال سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو پہنچنے والے نقصان کے ازالہ کی کوشش کی گئی تھی۔ بظاہر اس دورہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ سعودی عرب کے طاقت ور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات نہیں کی۔ شاہ محمود قریشی کے انٹرویو کے فوری بعد ہی سعودی عرب نے قرض کی واپسی کا مطالبہ کردیا۔ حالانکہ یہ سہ سالہ انتظام پاکستان کو معاشی مشکل سے نکالنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے کیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ رقم پاکستانی اسٹیٹ بنک میں جمع رہے گی اور اس سے پاکستان کی معاشی ریٹنگ بہتر ہوگی۔

اگست میں پاکستان کو جب تین میں سے ایک ارب ڈالر اچانک واپس کرنا پڑے تو حکومتی ترجمانوں نے کہا تھا کہ کورونا کی وجہ سے سعودی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس لئے ہوسکتا ہے انہیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے اس رقم کی ضرورت ہو۔ اس قسم کی بیان بازی البتہ سعودی عرب جیسے ملک کے ساتھ سفارتی نزاکتوں میں معاون نہیں ہوتی۔ لگتا ہے کہ اس ٹھوکر کے بعد بھی پاکستان نے ’اصولوں کی بنیاد‘ پر اختیار کی گئی خارجہ پالیسی ترک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب ترکی کی حمایت میں امریکہ کی مذمت اسلام آباد کے ’سفارتی ایڈونچر‘ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن اور امریکہ کا براہ راست دفاعی پارٹنر ہے۔ ترکی کے ساتھ اس کا تنازعہ ایک قریبی حلیف ملک کی طرف سے متحارب قوت روس سے میزائل سسٹم کی خریداری کے حوالے سے ہے۔

واشنگٹن کا خیال ہے کہ یہ سسٹم اس کے فراہم کردہ ایف 35 لڑاکا طیاروں کےخریداری معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ شام کی خانہ جنگی اور آرمینیا کے ساتھ تنازعہ کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں میں اختلاف ہے۔ امریکہ اگر ترکی پر پابندیاں لگاتا ہے تو کئی شعبوں میں وہ اس کے تعاون کا محتاج بھی ہے۔ اس تعلق میں ترکی کو پاکستان کی سفارتی اعانت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پاکستان اسلامی ملت کے ایک غیر واضح تصور کو مستحکم کرنے کے لئے اس موقع پر انقرہ کی ’اخلاقی‘ سفارتی مدد ضروری سمجھتا ہے حالانکہ کسی دوست ملک کو بھی اسی وقت امداد فراہم کی جا سکتی ہے جب کوئی ملک اپنے اندرونی معاملات کو ٹھیک طرح سے طے کر سکتا ہو۔ پاکستان نے گزشتہ روز ہی پیٹرول کی قیمت میں تین روپے لیٹر اضافہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بنک نے بیرونی سرمایہ کاری میں منفی رجحان کی نشاندہی کی ہے، معیشت پہلے ہی ڈانواڈول ہے، اس پر کورونا وائرس نے جمود طاری کیا ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہؤا ہے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے احتجاج کی وجہ سے حکومت پر منڈی کا اعتبار کمزور ہورہا ہے۔ سرمایہ کار نئے منصوبے شروع کرنے کی بجائے ملک میں سیاسی تنازعہ حل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

حکومت اس تنازعہ کو حل کرنے کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر نئی اشتعال انگیزی سے کام لے رہی ہے۔ گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں اٹھارویں ترمیم کے نقائص اور این ایف سی ایوارڈ کی کمزوریوں پر غور کیا گیا اور سینیٹ انتخابات وقت سے پہلے منعقد کروانے کا ’فیصلہ‘ کیا گیا تاکہ وزیر اعظم کے بقول اپوزیشن کے’ احتجاجی غبارے سے ہوا نکالی جا سکے‘۔ اس کے علاوہ سینیٹ انتخاب میں رائے دہی کے طریقہ کو بدلنے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا حالانکہ یہ آئینی معاملہ ہے جسے پارلیمنٹ میں ہی طے ہونا ہے۔ اب اپوزیشن کو آپس میں لڑوانے کے لئے پشتون تحفظ مووومنٹ کے لیڈر اور قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو پشاور سے گرفتار کر کے سندھ پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔ ان پر سہراب گوٹھ میں پی ٹی ایم کی قیادت کے ساتھ ’غیر قانونی‘ جلسہ کرنے اور اداروں پر کیچڑ اچھالنے کا الزام ہے۔

پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اس گرفتاری کو بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے جمہوریت پر حملہ کہا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اس لئے اس گرفتاری سے امید کی جارہی ہوگی کہ اس طرح پی ڈی ایم میں اختلاف پیدا ہوگا اور وہ حکومت کو چیلنج کرنے سے پہلے ہی آپس میں سر پھٹول سے کمزور ہو جائے گی۔ یہ سارے اقدام ایک ایسی حکومت کی طرف سے دیکھنے میں آرہے ہیں جو بظاہر اپوزیشن کے احتجاج کو ناکام قرار دیتی ہے اور آئینی بالادستی کے مطالبہ کو ’چوری بچاؤ‘ مہم کا نام دیتی ہے۔ اگر حکومت کو یقین ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے بلکہ یہ چند افراد کے مفادات کا معاملہ ہے تو پھر سندھ پولیس کے ہاتھوں علی وزیر کی گرفتاری جیسا ڈرامہ رچانے اور سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت کیوں محسوس کی جا رہی ہے۔

مریم نواز نے سینیٹ انتخاب کے سلسلہ میں حکومتی فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ’عمران حکومت اب الیکشن کمیشن کا کام بھی خود ہی کرنا چاہتی ہے اور سپریم کورٹ کو متنازع بنانا چاہتی ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت جو چاہے کرلے اب اس کے جانے کا وقت آگیا ہے۔ مریم نواز کے دعوے کو سیاسی نعرہ بھی قرار دیا جائے تو بھی عمران خان اور ان کی پارٹی کو سنجیدگی سے عوامی سطح پر موجودہ سیاسی انتظام کی آئینی حیثیت پر اٹھنے والے سوالات کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ نہ ہی یہ بھولنا چاہئے کہ اقتدار میں مدت پوری کرنے کے لئے ترکی امریکہ تنازع پر ’اصولی‘ بیان کی بجائے عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کی حکمت عملی ضروری ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali